تو کہانی ہی کے پردے میں بھلی لگتی ہے
زندگی تیری حقیقت نہیں دیکھی جاتی
کچھ اسیــر لوگوں کے ہاتھ کی لکیروں میں
قسمتیں نہیں ہوتیں عمـر قیــد ہوتی ہیں
عاقِل کو اسیری کے تقاضے کہاں منظور
نادان ہی ہوتا هے ____ گرفتارِ محبت__!!
"ہر وہ شخص جسے آپ اچانک یاد کرتے ہیں، جان لیں کہ خدا آپ کے لیے اس سے واقف ہونے کا ایک دروازہ کھولنا چاہتا ہے۔
تھامتے تھامتے یوں بھی ہوتا ہے
ہاتھ ہاتھوں سے چھوٹ جاتے ہیں
ان کے پہلوں میں دل نہیں شاید
جو دسمبر میں روٹھ جاتے ہیں..!
اگر وہ خود ہی بچھڑ جانے کی دعا کرے گا
تو اس سے بڑھ کے مرے ساتھ کوئی کیا کرے گا
سنا ہے آج وہ مرہم پہ چوٹ رکھے گا
مجھی سے مجھ کو بھلانے کا مشورہ کرے گا
ترس رہی ہیں یہ آنکھیں اس ایک منظر کو
جہاں سے لوٹ کے آنے کا دکھ ہوا کرے گا
اگر یہ پھول ہے میری بلا سے مرجھائے
اگر یہ زخم ہے مالک اسے ہرا کرے گا
میں جانتی ہوں کہ جتنا خفا بھی ہو جائے
وہ میرے شہر میں آیا تو رابطہ کرے گا
میں اس سے اور محبت سے پیش آؤں گی
جو میرے حق میں کوئی عائشہؔ برا کرے گا
بچھڑے تو قربتوں کی دعا بھی نہ کر سکے
اب کے تجھے سپردِ خدا بھی نہ کر سکے
تقسیم ہو کے رہ گئے صد کرچیوں میں ہم
نامِ وفا کا قرض ادا بھی نہ کر سکے
نازک مزاج لوگ تھے ہم جیسے آئینہ
ٹوٹے کچھ اس طرح کہ صدا بھی نہ کر سکے
خو ش بھی نہ رکھ سکے تجھے ہم اپنی چاہ میں
اچھی طرح سے تجھ کو خفا بھی نہ کر سکے
ایسا سلوک کر کہ تماشائی ہنس پڑیں
کوئی گلہ گذار، گلہ بھی نہ کر سکے
ہم منتظر رہے، کوئی مشقِ ستم تو ہو
تم مصلحت شناس، جفا بھی نہ کر سکے
مجھے یاد ہے کبھی ایک تھے مگر آج ہیں ہم جدا جدا
وہ جدا ہوے تو سنور گئے ہم جدا ہوے تو بکھر گئے
کبھی رُک گئے کبھی چل دیئے کبھی چلتے چلتے بھٹک گئے
یوں ہی عمر ساری گزار دی یوں ہی زندگی کے ستم سہے
کبھی نیند میں کبھی ہوش میں تو جہاں ملا تجھے دیکھ کر
نہ نظر ملی نہ زباں ہلی یوں ہی سر ج جھکا کے گزر گئے
کبھی زلف پر کبھی چشم پر کبھی تیرے حسین وجود پر
جو پسند تھے میری کتاب میں وہ شعر سارے بکھر گئے
کبھی عرش پر کبھی فرش پر کبھی ان کے در کبھی در بدر
غم عاشقی تیرا شکریہ ہم کہاں کہاں سے گزر گئے
تم نے بھی اُس کے حُسن کی تفسیر مانگ لی
تم کو بھی بے حساب کا مطلب نہیں پتہ !!!!
تیری بخشی ہوئی وحشت کی عطا لگتی ہے
ورنہ منہ زور اداسی مری کیا لگتی ہے
مجھ پہ اے ظلم کماتے ہوئے انسان ، نہ ڈر
بددعا لگتی ہے میری نہ دعا لگتی ہے
میں پرندے کو بتاتی تھی ذرا غور تو کر
یہ ہوا مجھ کو درختوں کی صدا لگتی ہے
پوری آتی ہے بدن پر ، نہ ذرا سجتی ہے
زندگی جیسے کرائے کی قبا لگتی ہے
اب وہاں کوئی نہیں پھول سجانے والا
گھر کی کھڑکی مجھے آسیب زدہ لگتی ہے
اس قدر زور سے چلاتی ہوں ویرانی پر
اتنا ڈرتی ہے کہ دیوار سے جا لگتی ہے
تو مرے زخم پہ حیران نہ ہو تلخ مزاج
بات پتھر کی طرح جسم کو آ لگتی ہے
دل کی نازک رگیں ٹوٹتی ہیں
یاد اتنا بھی کوئی نہ آئے
پھر یوں ہوا , تم ایسے الفاظ کہہ گئے !
مجھ بولتے ہوئے کو , ایک چُپ سی لگ گئی !
روشن جمال یار ســــــے ہے انجمن تمام
دہکا ہوا ہے آتــــــش گل سے چمن تمام.!!
دیکھو تو چشم یــــــار کی جادو نگاہیاں
بے ہوش اک نظــــــر میں ہوئی انجمن تمام.!!
الفت کے سارے دانت میرے دل پہ دیکھ کر
لکھا میرے طبیب نے ناچار ......... "مرحبا"
کہ خلیل چھوڑ دو یہ دسمبر کا رونا
دل تو ہر مہینے میں توڑے جاتے ہیں
شام ڈھلنے سے ذرا پہلے ہی ڈھل جائیں گے!
ہم کہ دانستہ کہانی سے نکل جائیں گے!!
ہم نے موسم پہ یقیں باندھ لیا، جانتے تھے!
لوگ تو لوگ ہیں لازم ہے بدل جائیں گے!!
تم نے وہ آنکھیں نہیں دیکھیں وگرنہ تم بھی
ڈوب جانے کو کناروں پہ فضیلت دیتے.!!
کیا ہے جو رکھ دیں آخری داؤ میں نقدِ جاں
ویسے بھی ہم نے کھیـــل یہ ہارا ہُوا تو ہے
کون واقف ہے اُس ازیت سے جو پھول نے کتاب میں کاٹی_
پھر وہی یاد کی وحشت وہی تنہائی کی شام
کوئی مہماں بھی نہیں چائے پہ آنے والا
کس تعلق سے اسے گھر سے بُلانے جاتے
اس سے رشتہ ہی نہیں کوئی بتانے والا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain