کبھی نہ جائیں گے میخانے کی طرف ہرگز،
وہ رند جن کو میسر تمھاری آنکھیں ہیں
پاؤں دیکھے گی نہ تاخیر کا دکھ سمجھے گی
کیسے منزل کسی رہ گیر کا دکھ سمجھے گی
کب سماعت پہ کوئی حرف صدا اترے گا
کب وہ دستک مری زنجیر کا دکھ سمجھے گی
عکس کر دوں گا میں دیوار پر اپنا چہرہ
اور دنیا اسے تصویر کا دکھ سمجھے گی
ہنستے ہنستے ہی سنے گی وہ مری غزلوں کو
پھر مرے درد کو بھی میر کا دکھ سمجھے گی
کیسے اوراق بتائیں گے کہانی میری
ڈایری کیوں مری تحریر کا دکھ سمجھے گی
میں وراثت میں ملا تاج محل ہوں اس کو
مجھ کو ہارے گی تو تسخیر کا دکھ سمجھے گی
مجھ کو بھولی ہے جو شہرت کو اثاثہ جانے
خود سے بچھڑے گی تو تشہیر کا دکھ سمجھے گی
پھر وہی یاد کی وحشت وہی تنہائی کی شام
کوئی مہماں بھی نہیں چائے پہ آنے والا
کس تعلق سے اسے گھر سے بُلانے جاتے
اس سے رشتہ ہی نہیں کوئی بتانے والا
یارب غم ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پر ہے وہ دست دعا ہوتا
اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا
ناکام تمنا دل اس سوچ میں رہتا ہے
یوں ہوتا تو کیا ہوتا یوں ہوتا تو کیا ہوتا
امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
دیکھ اگر غور سے تو سب کمال تیرے ھیں
میرے دل پہ لکھے سب سوال تیرے ھیں
کیسے یقیں دلاؤں تجھ کو اے جاناں
اس دل میں سبھی خیال تیرے ھیں
کر لیتے ہیں تخلیق کوئی وجہ اذیت
بھاتا نہیں خود ہم کو بھی آرام ہمارا
آگیا ہے فرق اس کی نظروں میں _________ یقینا.
اب وہ مجھے انداز سے نہیں اندازے سے پہچانتا ہے
اک گہرا سکوت بسا ہے مجھ میں
جیسے میں اندر سے خالی ہوں
اک خلا باقی ہےمجھ میں
مشروط تیرے وصل سے میرا وصال هے
یعنی تُو میرے ہاتھ جو آیا ، تو میں گیا
اس بار زندگی کا تصادم هے جاں سے
اِس بار اپنی جاں کو بچایا ، تو میں گیا ۰۰۰!
*دیکھ ساقی کیسے بستا ہے عشق وجود میں...*
*سلطنت میری ہے،رگ رگ پہ حکومت یار کی .
شدت اور بھی شدید ہوتی جا رہی ہے ۔
آپ سے محبت اور بھی مزید ہوتی جارہی ہے۔
بہت کچھ تجھ سے بڑھ کر بھی میسر ہے
نہ جانے پھر بھی کیوں تیری ضرورت کم نہیں ہوتی
عمل کے بعد نتیجہ نیت کا نکلتا ہے
لوگ سمجھتے ہیں قصور قِسمت کا ہے
بن کے احساس محبت کے حسیں جذبوں کا
وہ میرے دل میں دھڑکتا ہے غضب کرتا....!!
لا ادھر ہاتھ
کہ ہم درد کی اس ڈوبتی ناؤ سے اتر کر۔۔۔
چلیں اس پار
جہاں کوچہ و بازار نہ ہو
درد کے آثار نہ ہوں۔۔
لپٹ جاؤ__ میری بانہوں میں کہ رات دسمبر هے.
یہ سردی__ کہیں تم کو بیمار نہ کردے______..
*کتنی غور سے دیکھا ہوگا میری نظر نے تمہیں*
*تمہاری بعد کوئی چہرا پسند ہی نہیں ایا مجھے*
قاصد کو جو پڑی گالیان تو مجھ سے آ کر کہا
بہت مھیٹھی ہے ان کی زبان ذرا کھا کر دکھیے
میں دیر کروں تو خدشات لاحق رہیں اس کو
نظر نا آؤں میں ، تو پریشان ہوا کرے کوئی۔
تمام لوگ سمجھتے ہیں سبز پیڑ مجھے
ہوائے زرد کوئی اور دن نہ چھیڑ مجھے
ذرا سا وقت لگا ، خود کو بن لیا میں نے
کہا تھا اتنے سلیقے سے مت ادھیڑ مجھے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain