شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو،
میں کب کا جا چکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو...!
جو زہر پی چکا ہوں تمہیں نے مجھے دیا،
اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو...!
یہ بھی بڑا کرم ہے سلامت ہے جسم ابھی،
اے خسروانِ شہر قبائیں مجھے نہ دو...!
ایسا نہ ہو کبھی کہ پلٹ کر نہ آ سکوں،
ہر بار دور جا کے صدائیں مجھے نہ دو...!
کب مجھ کو اعتراف محبت نہ تھا فرازؔ،
کب میں نے یہ کہا ہے سزائیں مجھے نہ دو...!
اول تو میرے حصے میں آتے ہی نہیں لوگ
اور آئیں بھی تو پورے کے پورے نہیں آتے
اِن گُلابوں کی مخبری کی جائے
اِتنی خُوشبو کہاں سے لاتے ہیں
تُم بھی شَاید وہیں سے آئے ھو
اَچھے مُوسم جہاں سے آتے ہیں
اپنی تعمیر اٹھاتے تو کوئی بات بھی تھی
تم نے اک عمر گنوا لی مری مسماری میں
وہ بادشاہ سخن ہے تو اپنے گھر ہو گا
خیال و خواب پہ اُس کا کوئی اِجارہ نہیں
سپولئیےبھی چھپے ہیں سخن سراؤں میں
پر اُن کے زہر نے اب تک ہم کو مارا نہیں
گناہ کروا رہا ھے مجھ سے تعلق اُسکا
نماز تو پڑھ رہا ہوں میں،لیکن آیتیں بھول جاتا ہوں۔
وفا کے قید خانوں میں!!!
سزائیں کب بدلتی ھیں
بدلتا دل کا موسم ھے!!!
ہوائیں کب بدلتی ھیں
میری ساری دعائیں!!!
تم سے ھی منسوب ھیں ہم دم
محبت ھو اگر سچی!!!!
دعائیں کب بدلتی ھیں
کوئی پا کر نبھاتا ھے!!!
کوئی کھو کر نبھاتا ھے
نئے انداز ھوتے ھیں!!!
وفائیں کب بدلتی ھیں
ہمتِ التجا نہیں باقی
ضبط کا حوصلہ نہیں باقی
اِک تیری دید چِھن گئی مجھ سے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی
نہ اَب رقیب ، نہ ناصح ، نہ غم گسار کوئی
تم آشنا تھے ، تو تھیں آشنائیاں کیا کیا
ستم پہ خُوش ، کبھی لطف و کرم سے رنجیدہ
سِکھائیں تُم نے ھمیں ، کج ادائیاں کیا کیا
ہر نفس میرا سُلگتے ہوئے خوابوں کا دُھواں
آرزوؤں کا کوئی شہر جلا ھے مجھ میں
ذہن شک کرتا ہے، دماغ پرکھتا ہے اور تجزیہ کرتا ہے، لیکن دل یقین کرے تو ڈگمگاتا نہیں، چٹان کی طرح ڈٹا رہتا ہے۔
کبھی پاس بیٹھو تـــو بتائیں کہ درد کیا ہے
یوں دور سے پوچھو گے تو خیریت ہی بتائیں گے .
نہ کر سکے ہم سوداگروں سے دل کا سود ا
لو گ ہمیں لوٹ گئے ،وفا کے دلاسے دیکر
محبت میں پر گیے ہو اور عزت بہی چاہتے ہو
غالب بڑے نادان ہو زہر بھی کھاتے ہو اور زندگی بھی چاہتے ہو__!!
ہم اُس سے کیسے کہیں خُوش رہو ہمارے بغیر...!!
دُعا قُبول ہُوئی، تو ہمارا کیا ہو گا...
مارنا ہے تو شہد لا کے چٹا!
زہر مٹکوں میں پی چکا ہوں میں
ہمارے ساتھ ایسے ہی دغا کر گیا ہے وہ
قصہ یوسف میں جس طرح بھائی کرتے ہیں
خواہشیں لب پہ، مَچلتی ہوئی تِتلی کی طرح
حسرتیں آنکھ میں زَنداں کے اسیروں جیسی
۔
ہم انا مَست ، تَہی دَست بہت ہیں محسن
یہ الگ بات کہ___ عادت ہے امیروں جیسی
ہر رشتہ بیزار ہے مجھ سے
اب تو واجب ہے مر جانا "میرا
میں نے ماحول کی آنکھوں کی عبارت پڑھ کر
دل کے مفہوم سمجھنے کاہنر سیکھا ہے
میں نے مصنوعی رواداری کی ضربیں کھا کر
اپنی ہی ذات کے اندر کا سفر سیکھا ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain