تم طلب کی وہ حد ہو جسکے آگے
سب کچھ بے معنی ہے...!
محبت وہ نور ہے
جو محبوب کے سینے سے لگتے ہی
دِل کی تاریکی مٹاتا ہے رُوح کو مہکاتا ہے
اور زندگی زندگی کو ہر فکری زنجیر سے
آزاد کر دیتا ہے یہ لمس نہیں اک روشنی ہے
جو وجود کے ہر کونے میں اُتر جاتی ہے
اور پھر صرف سكون، صرف محبت
باقی رہ جاتی ... ہے
ہم ملیں گے تمھیں متروک سخن خانے میں
پھاڑ کے پھینکے ہوئے اقتباس کی مانند
باپ کی غریبی تو ہر لڑکی جھیل لیتی ہے،جو شوہر کی غریبی کو برداشت کرے اسےشریک حیات کہتے ہیں
چھوٹی سی زندگی ہے لمبا سا راستہ
مجھ سے محبت کر لو خدا کا واسطہ
میں تیرے عشق میں مر نہ جائوں کہیں، تُو مجھے آزمانے کی کوشش نہ کر
خوبصورت ہو تم تو ہوں میں بھی حسین مُجھ سے نظریں چرانے کی کوشش نہ کر
محبتوں میں پرستش کی رسم ہم تک ہے
تُو ڈھونڈتا ہی ____ پھرے گا گہنگار ایسا
خود کو آباد کرو سنو اے نفس غمگین سنو
کہ مرجھائے پُھولوں کا خریدار کوئی نہیں ہے!!
مُخلص شخص کا مُقابلہ کوئی چیز نہیں کرسکتی،
وہ ہمارے دِل کی طرح ایک ہی ہوتا ہے...
میری بے بسی کا عالم تیرے "کُن " کا منتظر ہے
میرے مہربان دیکھا دے " فیکون " کا نظارہ۔
میں کوشش کرتا ہوں کے محبتیں بانٹوں۔۔
مگر لوگوں کے پاس زیادہ نفرت کے لیے وقت ہے
جانے والوں سے مجھے یار گلہ کوئی نہیں
لوگ اچھے تھے سبھی، ہاتھ چُھڑانے والے
میں لاؤں گا تیرے لیئے ایسی ایسی بالیاں
پوچھتی رہ جائیں گی تیرے آس پاس والیاں,
عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں،
رات بستر پہ میں سوتا نہیں، مرجاتا ہوں،
۔
اکثر اوقات بھرے شہر کے سناٹے میں،
اس قدر زور سے ہنستا ہوں، کہ ڈر جاتا ہوں،
۔
میں نے جو اپنے خلاف آپ گواہی دی ہے،
وہ تیرے حق میں نہیں ہے تو مکر جاتا ہوں....
آدھا چاند فلک پر دیکھا ، آدھا جھیل کے پانی میں
کندن رات ملی تھی ہم کو، وہ بھی کس ارزانی میں
باقی عمر سزا میں کاٹی، اور تاوان میں خواب دیے
خواہش کی زنجیر کو، کھینچا تھا ہم نے نادانی میں
جھیل کنارے کچا رستہ، کس گاوں کو جاتا ہے؟
دو کردار وہاں تک آئے، چل کر ایک کہانی میں
ناشکرے انسان کی فطرت سے وہ خود بھی واقف ہے
ہر مشکل میں اسے پکارے، بھولے ہر آسانی میں
غیر مردف غزلیں ہم کو ساقی پھیکی لگتی ہیں
ہوں مترنم تو بھاتے ہیں، مصرعے خوب روانی میں...!!!
جہاں پہ جلوۂ جاناں ہے انجمن آرا
وہاں نگاہ کی منزل تمام ہوتی ہے
زہے نصیب میں قربان اپنی قسمت کے
ترے لیے مری دنیا تمام ہوتی ہے
عالم کو تو خطرہ ہے یہاں تیسری جنگ کا
اور فکر مجھے تیری اداسی کی پڑی ہے
تمہاری باقیات سے حُسن کی مٹی گوندی گئی
تمہیں سامنے بیٹھا کہ حوروں کے نین تراشے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی رنج ہیں رائیگانی بھی مگر اس کے باوجود
حد ہے اعلی ظرفی کی ہم زندگی سے راضی ہیں
تم حقیقتوں میں گم
رونقوں کے باشندے...!!
جوگ پالنے والے
اس نڈھال چہرے کا
سوگ خاک سمجھو گے!
تم سیاہ راتوں کی
چپ سمجھ نہیں پائے،
خواب دار آنکھوں کے
روگ خاک سمجھو گے........؟
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain