ایک انسان آپ کو مل کر خوش ہوتا ہے اور دوسرا آپ کو چھوڑ کر۔!
نکتہ یہ ہے کہ آپ دونوں کی خوشی کا ذریعہ ہیں
میں تو ہچکی آنے پر بھی نہیں پانی پیتا
کہ کہی وہ ناراض ہی نہ ہو جائے ہم سے...
اتنا قریب آؤ کہ جی بهر کے دیکھ لیں
شاید کہ پهر ملو تو یہ ذوق نظر نہ ہو
یوں اترو میرے دل میں آنکهوں کے راستے
مجھ میں سما جاؤ نظر کو خبر نہ ہو
مدت ہوئی ملے نہیں اک دوسرے سے ہم
آج سب گلے مٹا دو کوئی شکوہ پهر نہ ہو
میرے سامنے بیٹهے رہو میں دیکهتا رہوں
رک جائے وقت کاش طلوعِ سحر نہ ہو
کرلو مجھ سے وعدہ میرے ہو بس میرے
جب ساتھ میرا دو تو زمانے کا ڈر نہ ہو
آئے ہو اب کہ جو تم تو اک شب قیام کر لو
شاید کہ پھر گزر ہو تو میرا گھر نہ ہو
ممکن ہے ترتیبِ وقت میں ایسا بھی لمحہ آئے
دستک کو تیرا ہاتھ اٹھے اور میرا در نہ ہو!!!
تم وہ شدت ہو میری ، جو تپتے صحراؤں میں
گھنٹوں چلنے کے بعد ٹھنڈے پانی کی ہوتی ہے
*کبھی چاند بن... کسی رات میں*
*کبھی نظر آ... کسی بات میں...*
*کبھی ساتھ ساتھ... یوں ہم چلیں*
*تیرا ہاتھ ہو... میرے ہاتھ میں...
*اسے ڈھونڈتی۔۔۔ہوں میں رات دن...
*وہ جو گم... ہوا میری زات میں...*
تاریخ گواہ ہے
آج تک بچوں نے اتنا شور نہیں کیا
جتنا انھیں چپ کروانے کیلئے مائیں کرتی ہیں۔۔۔
روز اک مرگ کا عالم بھی گزرتا ہے یہاں
روز جینے کے بھی سامان نکل آتے ہیں
جو ہو سکے تو میّسر ہمیں تمام رہو
قیام دل میں کرو اور یہیں مدام رہو
یہ کوئی بات کہ اِس کے ہوئے کبھی اُس کے
ہمارے ہو تو سراسر ہمارے نام رہو
تم میری حیات کا وہ خوبصورت عنوان ہو
جسے میں نے روح کے صفحات میں درج کیا ہے
ہوسکے تو آ جاؤ تھوڑی دیر نظر کے سامنے
تیرے دیدار کو ہم بڑے بے قرار بیٹھے ہیں
جس پہ ہو جائیں فدا کوئی بھی ایسا نہ ملا
سیکڑوں دیکھے حسیں آپ کے دیدار کے بعد...
دل ربائی کی ادا یوں نہ کسی نے پائی
میرے سرکار سے پہلے میرے سرکار کے بعد...
سرِ شام مجھ سے تُو مِل وھاں جہاں عُجلتوں کا نِشاں نہ ھو
کہیں دُور تک یونہی ساتھ چل میرا ھاتھ، ھاتھ میں تھام کر
ایک طبیعت آشنا, بس ایک طبیعت آشنا
مجھ اکیلے کو ، کوئی مجھ سا اکیلا چاہیے
تُمہاری موجُودگی ہر شئے پر حاوی ہے...!!
لاکھ رونقیں ہوں...!!
مگر...!!
تُمہارا میرے پہلُو میں موجُود ہونا...!!
ہر شئے کی رعنائی پر خاک ڈال دیتا ہے...
#Bulbul
آؤ مِل کر اِک سَمجھوتا کر لیتے ہیں
دِل تُم رَکھ لو ہم تُمہیں رَکھ لیتے ہیں
پھول دینا محبت نہیں بلکہ
پھولوں کی طرح رکھنا محبت ہے
میں نے تمہارے گلے مل کر
کچھ حاصل نہیں کیا
سوائے اس خوشبو کے
جو تمہارے سوا کسی کے پاس نہیں ہے
تنہا ہے میرا دل تو جڑا دو کسی کا دل
کہہ دوں گا دل کی بات کسی ڈاکٹر کو میں
اپنی مکان والی کا اپنا وقار ہے
کیسے محل کہوں گا نہ اپنے کھنڈر کو میں
فیشن سے ان کے دھوکا ہوا ہے مجھے رحیمؔ
مادہ سمجھ کے چھیڑنے والا تھا نر کو میں
تیری سانسوں کی سوغاتیں بہاریں
تیری نظروں کے نذرانے زمانے
۔
آپ کی آنکھ سے گہرا ھے مری روح کا زخم
آپ کیا سوچ سکیں گے مری تنہائی کو
میں تو دم توڑ رھا تھا مگر افسردہ حیات
خود چلی آئی مری حوصلہ افزائی کو۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain