فطرت میں نہیں ہے ہر کسی کا ہو جانا
ورنہ نہ چاہت کی کمی ہے نہ چاہنے والوں کی
کوئی ان عاملوں کو سمجھائے کہ
محبوب قدموں میں نہیں
دلوں میں ہی اچھے لگتے ہیں
میں بجھ گیا تو کہیں دور جا کے رکھ دینا
میرے دھویں سے کوئی دوسرا خراب نہ ہو
صرف چند لمحے تم میری انگلیوں میں اپنی انگلیاں ڈالو، تاکہ مجھے محسوس ہو سکے زندگی انتہا کی خوبصورت ہے
طاعتِ حُکم مُقّدم ھے ، غلط ھو کہ درست
تو جو فَرمائے گا ، اے یار کیے جائیں گے
تم کبھی سامنے آ کر بیٹھو اور پھر
آنکھ اور ضبط کا جھگڑا دیکھو۔۔۔
ارے پاگل
دہلیز پہ آ کے بھی کوئی کہتا ہے
کہ ہم تمہیں چھوڑنے آتے ہیں ؟؟
لو چائے پیو
اس رات میرے مہمان بنو.
صبح ہوئی تو دیکھیں گے
کہ رہتے ہو یا جاتے ہو ۔ ۔ ۔
رات ہے اور تیری یادوں کا تسلسل اتنا
کہ نیند آئے بھی تو آنکھوں کو برا لگتا ہے
رنج اتنے ہیں کہ آتی نہیں باری اپنی!!!
روز لکھتا ہے قلمکار کسی اور کا دکھ!!!
ہنس کے فرماتے ہیں وہ دیکھ کے حالت میری
کیوں تم آسان سمجھتے تھے محبت میری
یار پہلو میں ہے تنہائی ہے کہہ دو نکلے
آج کیوں دل میں چھپی بیٹھی ہے حسرت میری
زلف جاناں ہے انتہا کی شوخ
چشم مخمور ہے بلا کی شوخ
جان جاتی ہے مرنے والوں کی
جو ادا ہے وہ دل ربا کی شوخ
خزاں رکھے گی کب تک بے ثمر درختوں کو
گُزر ہی جائے گی یہ رُت بھی حوصلہ رکھنا۔
°•محبت میں خلوص ہو تو فاصلہ رکاوٹ نہیں بنتا تعلق دل سے جڑا ہو تو ٹوٹتا نہیں
وہ حسنِ پیکر جمال لڑکی کمال لڑکی
وہ میرے دل کا وبال لڑکی کمال لڑکی
وہ جس نے مجھ کو سنبھال رکھا ہے دھڑکنوں میں
ہے خوش روی کی مثال لڑکی کمال لڑکی
وہ جس کی آنکھیں بناؤں ہزاروں میں شعر کہہ دوں
وہ ایسی یارو غزال لڑکی کمال لڑکی
وہ آندھیوں میں بھی ڈھال بن کر ہے ساتھ میرے
وہ ہر بلا سے نڈھال لڑکی کمال لڑکی
وہ میرے دل کا سکون ہے وہ قرار ہے وہ
وہ میرا ماضی و حال لڑکی کمال لڑکی
لاکھ دلبر ہوں دلبری کے لیے
اپنا دلبر نہیں تو کچھ بھی نہیں
اے دلِ نا عاقبت اندیش ضبطِ شوق کر!،،،
کون لا سکتا ہے تابِ جلوۂ دیدارِ دوست
ہونٹ یاقوت دلنشیں آنکھیں
سرخ رخسار نازنیں آنکھیں
کالی کالی وہ سرمگیں آنکھیں
آفریں حسن آفریں آنکھیں
سنگ مر مر کو مات کرتی ہوئی
بے مروت یہ مرمریں آنکھیں
کھینچ لیتی ہیں دل نگاہوں سے
اس قدر شوخ تر حسیں آنکھیں
کون ہوتا ہے کسی کا ____شبِ تنہائی میں
غمِ فرقت ہی _____غمِ عشق کو بہلائے گا
ہم سانجھ سمے کی چھایا ہیں
تُم چڑھتی رات کے چندر ماہ !
ہم جاتے ہیں تُم آتے ہو ،
پھر میل کی صورت کیونکر ہو ؟
دینا ہے تو نِگاہ کو ایسی رسائی دے
میں دیکھوں آئینہ تو مجھے تُو دیکھائی دے
کاش ایسا تال میل سکوت و صدا میں ہو
اُس کو پُکاروں میں تَو اُسی کو سُنائی دے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain