میں نے یکطرفہ محبت بھی نبھائی اُس سے
یعنی اک ھی ھاتھ سے تالی کو بجایا برسوں ..........
#کبھی کبھی دل کے سکون کے لئے سارا جہان نہیں ،
صرف وہ انسان کافی ہوتا ہے جس سے محبّت ہو
بارہا تُجھ کو بتایا ھے تیرے بِن مُجھ کو
زِندگی بوجھ لگے ، درد رواں لگتا ھے!!!!
بولتا ہُوں میں یہاں لوگ تُجھے دیکھے ہیں
تُو میری بات سے اِس طرح عیاں لگتا ھے۔
یہ کس گمان میں پکڑ لیا ہے ہاتھ میرا،
آپ چھوڑ دیجئے، آپ چھوڑ دیتے ہیں_!!
ہم فقط سجاتے رہ گئے در و دیوار..
وہ چاند اُجالا کر گیا کسی اور آنگن میں..!!
زندگی قرض میں آئے ہوئے سِکے کی طرح
روز کچھ سُود مرے سر پہ چڑھا دیتی ہے۔۔
کوئی تو ہو جو گھبرائے میری خاموشی سے
کسی کو تو سمجھ آئے میرے لہجے کا دُکھ
خدو خال اپنے اجاڑے ہیں ورنہ یوں تو
ہم حسین تھے ہمیں آتا تھا مائل کرنا....
"جب اندھیرا بڑھنے لگے تو چپکے سے کسی پیاسے دیے کو تیل سے بھر دیا کرو، تمہاری ذات کی روشنی کبھی کم نہیں ہو گی ۔
اب میں ہوں میری جاگتی راتیں ہیں خدا ہے،،
یا دور سے کہیں گِرتے ہوئے پتے کی صدا ہے،،
وہ حُسن ہی تھا ۔۔۔۔۔۔جس نے یوسف کو بکایا،،
ورنہ منڈی میں کبھی آ کے پیغمبر بھی بِکا ہے،،
تاک لیتے ہیں نظر باز ہیں ہم بھی صاحب ،،
دل چُرایا ہے چُراتے ہــو جو ہر بار آنکھیں ،،
اک دن وہ بِچھڑتے ہوئے ہولے سے کہے گا
اس بار پلٹنے کا ارادہ نہیں کوئی
کوشش تو یہی ہوگی کہ تُو یاد نہ آئے
پر حافظہ اچھا ہے سو وعدہ نہیں کوئی
کوئی وظیفہ کَریں اور یہاں سے چل نکلیں
یہ لوگ آگ نہيں ' دل جلانے والے ہیں
کہ عشق باز نہيں ' عشق ساز ہیں سائیں !!
ہم آستیں سے نہيں ' آستانے والے ہیں
غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں
نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا
یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں
ہر طرف دیوار و در اور ان میں آنکھوں کے ہجوم
کہہ سکے جو دل کی حالت وہ لب گویا نہیں
جرم آدم نے کیا اور نسل آدم کو سزا
کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیرؔ
غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں
یعقُوب تو نہیں ہوں مَگر پِھر بھی یار مَن،
بِینائی جا رہی ہے تیری راہ دیکھتے_!!
محبت کی کوئی ٹیکسٹ بک نہیں ہوتی
سب آؤٹ آف سلیبس ہوتا ہے
کبھی رگ رگ درد
تو کبھی روح تک سیراب
ایسا اک وقت بھی آتا ہے میری نیند پہ جب
خواب سے پہلے ہی تعبیر بدل جاتی ہے
ُ پڑھتا رہتا ہوں میں ہاتھوں کی لکیریں،یوں بھی
میں یہ سنتا تھا کہ تقدیر بدل جاتی ہے
مجھے کچھ اس طریقے سے بھی وہ ممتاز کرتا ہے
سبھی لوگوں میں بس مجھ کو نظر انداز کرتا ہے
تُو وہ جس کا ذکر صحیفے کی نعمتوں میں ہوا
اور ہم "والعصر" کے بعد پُکارے ہوئے لوگ۔
پھر یوں ہوا کہ بات جدائی پر آ گئی
خود کو تیرے مزاج میں ڈالا نہیں گیا
تو نے کہا تو تیری تمنا بھی چھوڑ دی
تیری کسی بھی بات کو ٹالا نہیں گیا.
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain