چمن میں رنگ بہار اترا تو میں نے دیکھا
نظر سے دل کا غبار اترا تو میں نے دیکھا
میں نیم شب آسماں کی وسعت کو دیکھتا تھا
زمیں پہ وہ حسن زار اترا تو میں نے دیکھا
گلی کے باہر تمام منظر بدل گئے تھے
جو سایۂ کوئے یار اترا تو میں نے دیکھا
خمار مے میں وہ چہرہ کچھ اور لگ رہا تھا
دم سحر جب خمار اترا تو میں نے دیکھا
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
خدوخال اپنے اجاڑے ہیں ورنہ یوں تو ۔۔
ہم حسین تھے ہمیں آتا تھا مائل کرنا۔۔
اُس کے قابل نہیں تھے ہم ، سو ہم نے پھر _____
آنکھ پونچھی ، درد سمیٹا ، دل اٹھایا ، کوچ کیا !!
تنہا اداس چاند کو سمجھو نہ بے خبر
ہر بات سن رہا ہے مگر بولتا نہیں
ہم ایسے عَام سے چہروں کو کون پُوچھتا ہے
یہاں اداؤں کی قیمت ھے' سَادگی کی نہیں .
ہم نے پیدا کیا تھا سو پالتے گٸے پوستے گٸے
پھر جس کے پر نکلتے گٸے وہ اڑتا چلا گیا
عجیب لوگ تھے وہ تتلیاں بناتے تھے
سمندروں کے لیے سیپیاں بناتے تھے
وہی بناتے تھے لوہے کو توڑ کر تالا
پھر اس کے بعد وہی چابیاں بناتے تھے
میرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا
مرے بزرگ مگر تختیاں بناتے تھے
فضول وقت میں وہ سارے شیشہ گر مل کر
سہاگنوں کے لیے چوڑیاں بناتے تھے
ہمارے گاؤں میں دو چار ہندو درزی تھے
نمازیوں کے لیے ٹوپیاں بناتے تھے
کوئی آواز نہ آہٹ نہ خیال ایسے میں
رات مہکی ہے مگر جی ہے نڈھال ایسے میں
میرے اطراف تو گرتی ہوئی دیواریں ہیں
سایۂ عمر رواں مجھکو سنبھال ایسے میں
جب بھی چڑھتے ہوئے دریا میں سفینہ اترا
یاد آیا ترے لہجے کا کمال ایسے میں
آنکھ کھلتی ہے تو سب خواب بکھر جاتے ہیں
سوچتا ہوں کہ بچھا دوں کوئی جال ایسے میں
مدتوں بعد اگر سامنے آئے ہم تم
دھندلے دھندلے سے ملیں گے خد و خال ایسے میں
ہجر کے پھول میں ہے درد کی باسی خوشبو
موسم وصل کوئی تازہ ملال ایسے میں
جنت سے جی لرزنے لگا جب سے یہ سنا
اہل جہاں وھاں بھی ملیں گے یہاں کے بعد_!
ہم فرض تھے ان کی باتوں میں
فرض یوں تو نہیں چھوڑے جاتے
محبتوں کے صدقے میں وارے ہوئے دل
اسے کہو یہ دل یوں تو نہیں توڑے جاتے۔
بھلے میسر ہوں لاکھ کاندھے
تو میرے کاندھے پہ ٹیک رکھنا
تمہیں اجازت ہے سب کو دیکھو
مگر نگاہوں کو نیک رکھنا
مرا سفر بس تمہارے تک ہے
مری محبت کا مان تم ہو
میں اک محبت کا متقی ہوں
کہ میرا سارا جہان تم ہو
مری گزارش ہے تم سے اتنی
مجھے زمانے سا مت سمجھنا
مجھے زمانے میں ایک رکھنا
یہ مرا احساس ہے یا پھر وفاؤں کا صلہ
رفتہ رفتہ تُو مکمل ، میں فنا ہوتا گیا
۔
اس شدتِ فراق سے آتے ہو یَاد تُم...!
جیسے کِسی ضَعیف کو بَچپن کے چار دِن
قربانیاں وہاں دی جائیں جہاں اس کی ضرورت ہو، دن کے وقت دیا جلانے سے دیا ہی ختم ہوتا ہے اندھیرا نہیں۔
معلوم نہیں ان کو____ علاجِ غمِ جاناں
کہنے کو تو اس شہرمیں لقمان بہت ہیں ،
بھر آئیں نہ آنکھیں____ تو اک بات بتاؤں
اب تجھ سے بچھڑجانےکے امکان بہت ہیں
ریت پر پھول اگانے کی بہت کوشش کی
یعنی اس شخص کو پانے کی بہت کوشش کی
ایک نمبر سے مجھے رات یہ میسج آیا
آپکو میں نے بھلانے کی بہت کوشش کی
ایسا تو نہیں پیر میں چھالا نہیں کوئی
دکھ ہے کہ یہاں دیکھنے والا نہیں کوئی
تو شہر میں گنواتا پھرا عیب ہمارے
ہم نے تو ترا نقص اچھالا نہیں کوئی
وہ شخص سنبھالے گا برے وقت میں تجھ کو ؟
جس شخص نے خط تیرا سنبھالا نہیں کوئی
اے عقل ! جو تو نے مرا نقصان کیا ہے
اب لاکھ بھی تو چاہے ، ازالہ نہیں کوئی
ہیں عام بہت رزق و محبت کے مسائل
دکھ تیرا زمانے سے نرالا نہیں کوئی
اُس کے قابل نہیں تھے ہم، سو ہم نے پھر
آنکھ پونچھی، درد سمیٹا، دل اٹھایا، کوچ کیا
ایک دُکھ ایسا ہے میری حیات میں
بولوں تو لہو اتر آتا ہے میری بات میں،
کوئی آشنا نہ ہو میرے غم کی گہرائی سے
اسی واسطے میں رو لیتی ہوں برسات میں
کل شب بہت دیر تک گفتگو کی ہے خود سے
پوچھتی رہی کون ہے میرا اس بھری کائنات میں۔
پَڑ گئے جاں کے لالے " پَر پَلٹ کے دیکھا نہ گیا
دل تو دل تھا عاصم خوابوں سے نکلتا کیسے؟
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain