چپ چاپ سنتی رہتی ہے پہروں شب فراق
تصویر یار کو ہے مری گفتگو پسند .........
سب تسلسل سے اترتے گئے منزل منزل
ہم محبّت کے سفينے میں اکیلے ٹھہرے
تیرے حصے کی محبت تو تجھے ملنی تھی
میرے ذمے تھا فقط اس کا وسیلہ ہونا
ہائے کس کرب سے کہتی تھیں وہ خالی آنکھیں
تم تو سمجھو گے مجھے تم تو مسیحا ہو نا
لاکھ بہتر ہے زمانے کی خبر رکھنے سے
ایک ہی شخص کے ہر دکھ سے شناسا ہونا
بانٹ سکتی ہے مرا ہجر اُداسی میری
آج کل مجھ پہ مگر اس کی عنایت کم ہے
گو دل شکن ھیں اُن کی تغافل شعاریاں
اِس پر بھی مجھے ان سے محبت ہے کیاکروں
خُدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر
چشمِ تَر میں نہ رھی ، بات وہ پہلے جیسی
اے غم جاں یہ زیاں ، دِل کا زیاں ھے کہ نہیں؟
انتظار میں ہوا ہوں بصارت سے محروم
اور دکھ یہ کہ یوسف کی قمیض بھی نہیں ملی
آہ کہ تُم بھی نہ سَمجھے مری مُحبت کا چَلن
تُم نے بھی اوروں کیطرح مُجھے راہ چلتا کیا
اُداس شب میں ،کڑی دوپہر کے لمحوں میں،
کوئی چراغ ، کوئی صُورتِ گلاب اُترے
کبھی کبھی ترے لہجے کی شبنمی ٹھنڈک،
سماعتوں کے دریچوں پہ خواب خواب اُترے
شائد کہ تیـــــــرے معیار کے نہیں ہیں
تُم نیک پارسا اور ہم سیاہ بخت گنہگار_!!
اب ہمیں دیکھ کے لگتا تو نہیں ہے لیکن
ہم کبھی اُس کے پسندیدہ ہوا کرتے تھے
ٹھہرے تھے میرے ساتھ مگراس قدر نہیں
لمحے وصالِ یار کے بھی معتبر نہیں
پہلے پہل کا لمس تھا رگ رگ سے بولتا
پہلے پہل کی سنسنی بارِ دگر نہیں
گونجے خیالِ یار کی کوئی صدا کہاں
صحرائے دِل کے چار سو دیوار و در نہیں
اس شخص سے زیادہ خوبصورت
کوئی دوسری چیز نہیں ہے کہ
اس کے ارد گرد کتنے ہی
لوگ کیوں نہ ہوں لیکن
وہ ہر لمحہ آپکو یہ احساس دلانے کی
کوشش کرتا ہے کہ آپ ان سب میں اہم ہیں!!
اور کوئی رہ گیا ہے تو آجاو
پھر مت کہنا میں نے کھیلنے کو دل نہیں دیا
تمھاری دنیا میں ہم جیسے ہزاروں ہوں گے
مگر ہماری دنیا میں تم جیسا کوئی نہیں
وہ کہیں بھی گیا، لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی میرے ہر جائی کی
کہیں بہہ نہ جائے ان آنکھوں سے کاجل
تری بزم میں ہو نہ جائے یہ ہلچل
کسی جا ٹھہرتی نہیں بے قراری
کہ بے چین آنکھیں صدا سے ہیں چنچل
بہت راہ دیکھی مگر تم نہ آئی
گرے دل پہ اشکوں کی مانند پل پل
بہت ولولے دل سے چھو کر گئے ہیں
مگر اب دلِ ناتواں غم سے بوجھل
کئی راستے جنگلوں تک گئے ہیں
ہمیں راس آئی فقط راہِ مقتل
کسی یاد نے پھر جگایا تھا شب بھر
پھرنے لے کے آنکھوں میں اشکوں کا جل تھل
کیسے عجیب لوگ تھے جِن کے یہ مشغلے رہے
میرے بھی ساتھ ساتھ تھے، غیر سے بھی مِلے رہے
تُو بھی نہ مِل سکا ہمیں، عُمر بھی رائگاں گئی
تجھ سے تو خیر عِشق تھا، خود سے بڑے گِلے رہے
دیکھ لے! دلِ نامُراد تیرا گواہ بن گیا
ورنہ میرے خلاف تو میرے ہی فیصلے رہے
تجھ سے مِلے بچھڑ گئے، تجھ سے بچھڑ کے مِل گئے
ایسی بھی قُربتیں رہیں، ایسے بھی فاصلے رہے
میں نے پَڑھی ہیں، ہَزاروں عَاشِقوں کی کِتابیں !!
” کِسی ایک میں بِھی نَہیں لِکھا تھا کہ مُجھے یَار مِلا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain