عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا
بخشا ہے مجھکو ہجر کا انعام۔شکریہ
سب درد کر دئیے ہیں مرے نام شکریہ
درد دے کر نا پوچھ غم کی شدت
درد تو درد ہے تھوڑا کیا زیادہ کیا
جمالِ یار کو دیکھوں کـمالِ یار ســـے پہلــے
میں خُوشبُو کی طرح مہکوں خیالِ یار سے پہلے
کرشمے حُسن کے سورج ستارے پھول ظاہر ہیں
مگر میں کس طرف دیکھوں مثالِ یار سے پہلے
ازل سے ایک ہجر کا اسیر ہے، اخیر ہے
یہ دل بھی کیا لکیر کا فقیر ہے، اخیر ہے
ہمارے ساتھ حادثہ بھی دفعتاً نہیں ہوا
جو ہاتھ میں نصیب کی لکیر ہے، اخیر ہے
ہمارے قتل پر ہمیں ہی دوش دے رہے ہیں آپ
جناب من جو آپ کا ضمیر ہے، اخیر ہے۔۔۔۔۔
اگر کبھی تیری آنکھوں کا ترجمہ ہوگا...!!
تو بے شُمار تَفَاسیر کو زباں مِلے گی...!!
مُجھے بھی تُجھ سا طبیعت شَناس کب مِلے گا...!!
تُجھے بھی چاند سی لڑکی یہ پِھر کہاں مِلے گی...
میں نے نقصان کی تفصیل کہاں مانگی ہے
پیار میں جو بھی خسارہ ہے، پڑا رہنے دے
کھینچ تصویر میری ہنستے ہوئے لمحوں میں
اور اداسی کو کہیں دور کھڑا رہنے دے
اے فال گو ! ترقیوں کے قصے مت سنا..
نامے میں میرے اُس کی ملاقات ہے تو بول...
اب کے خاموش ہوئے تو گِلہ نہ کیجیئے گا
سارے الفاظ، فُرصتیں، صدائیں واری تھیں
بچھڑے ہوئے لوگوں کا خوابوں میں ملنا،
ملاقات کی سب سے دردناک شکل ہے
ہائے کیسے کوئی خود کو نکالے
یادوں کے لگے ان گنت جالے
حیراں حیراں ہیں چشم و دل
واہ مولا ؛ تیرے کھیل نرالے
کروں بھی تو کیسے درد بیاں
زبان پہ جیسے لگ گئے تالے
سہہ سہہ آبلہءپائی عمر بھر کی
رو پڑے میرے پاوں کے چھالے
میری شب بیداریوں کے گواہ
آنکھوں کے گرد یہ حلقے کالے
اک عمر گذری تب یہ جانا
دیپ نے مارِ آستین تھے پالے
درد سہنے میں____ کمال رکھتا تھا
سوائے خود کے وہ _سب کا خیال رکھتا تھا
ہاں وہ نازوں سے پلا _ماں کا لاڈلا شہزادہ
جانے کیسا حوصلہ___ بے مثال رکھتا تھا
لب پہ آتی نہ تھی__ کبھی حرف شکایت
وہ ویران آنکھوں میں لاکھوں سوال رکھتا تھا
آنکھ نم تھی لبوں___ پہ تھا تبسم اسکے
جانے کیسے وہ اتنا ضبط کمال رکھتا تھا
دل میں درد کا __سمندر لے کر ہر وقت
جانے آنسو کہاں___ سنبھال رکھتا تھا
بے چین شہر کا___ وہ _پر سکون سا لڑکا
رسم دنیا کا کتنا _____خیال رکھتا تھا
کسی بھی اور کو تیری جگہ نہ دی میں نے
گلے لگا لی ہے بڑھ کر تری کمی میں نے_!!
وہ جو اک شخص مجھے طعنۂ جاں دیتا ہے
مرنے لگتا ہوں تو مرنے بھی کہاں دیتا ہے
تیری شرطوں پہ ہی کرنا ہے اگر تجھ کو قبول
یہ سہولت تو مجھے سارا جہاں دیتا ہے
تم جسے آگ کا تریاق سمجھ لیتے ہو
دینے لگ جائے تو پانی بھی دھواں دیتا ہے
ناروا لاکھ سہی اپنی امامت لیکن
اس پہ واجب ہے جو صحرا میں اذاں دیتا ہے
جم کے چلتا ہوں زمیں پر جو میں آسانی سے
یہ ہنر مجھ کو مِرا بارِ گراں دیتا ہے
ہاں اگر پیاس کا ڈھنڈورا نہ پیٹا جائے
پھر تو پیاسے کو بھی ، آواز کنواں دیتا ہے
اک رات وہ گیا تھا جہاں بات روک کے
اب تک رکا ہوا ہوں وہیں رات روک کے
زندگی تهک کے گرتی یے تو خیال آتا ہے
جان لـیوا ہـے لاحاصـل کی تمــــنا کرنا
مجھے تم سے بہتر کی خواہش نہ تھی، نہ ہے ، نہ رہے گی مجھے تمھاری ضرورت تھی، ہے، اور تاحیات رہے گی
بچھڑ گئے تو موج اڑانا
واپس میرے پاس نہ آنا
جب کوئی جا کر واپس آئے
روئے تڑپے یا پچھتائے
میں پھراس کو ملتا نہیں ہوں
ساتھ دوبارہ چلتا نہیں ہوں
گم جاتا ہوں ، کھو جاتا ہوں
میں پتھر کا ہو جاتا ہوں
تمھارے بعد نا رکھی کسی سے آس ہم نے ،
اک حادثہ بہت تھا ، بڑے کام آیا_!!
یہ بارشیں بھی تم سی ہیں
جو برس گئیں تو بہار ہیں
جو ٹھہر گئیں تو قرار ہیں
کبھی آ گئیں یونہی بے سبب
کبھی چھا گئیں یونہی روز و شب
کبھی شور ہے کبھی چپ سی ہیں
یہ بارشیں بھی تم سی ہیں
کبھی بوند بوند میں گم سی ہیں
یہ بارشیں بھی تم سی ہیں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain