مــــــیری مجبوریــوں کو مـــــیری بد قسمتی مت ســـــمجھنا
�ھـــــم ان راھــــوں سے بھی گـــــزرے ھے جہاں قســــــمت تو کیا ســـــایہ بھی ساتھ چــــــھوڑ دیتا ھے
اس دور میں اک سے اک نیا ناگ نکلا
جس پر اعتبار کیا وہی دھوکے باز نکلا
...منٹو کی عجیب سوچ...
میرے پڑوس میں اگر کوئی عورت ہر روز خاوند سے مار کھاتی ہے اور پھر اس کے جوتے صاف کرتی ہے تو میرے دل میں اس کے لیے ذرّہ برابر ہمدردی پیدا نہیں ہوتی۔لیکن جب میرے پڑوس میں کوئی عورت اپنے خاوند سے لڑ کر اور خود کُشی کی دھمکی دے کر سینما دیکھنے چلی جاتی ہے اور میں خاوند کو دو گھنٹے تک سخت پریشانی کی حالت میں دیکھتا ہوں تو مجھے دونوں سے ایک عجیب و غریب قسم کی ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔کسی لڑکے کو لڑکی سے عشق ہو جائے تو میں اسے زکام کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتا ۔مگر وہ لڑکا میری توجہ کوضرور کھینچے گا جو ظاہر کرے کہ اس پر سینکڑوں لڑکیاں جان دیتی ہیں۔لیکن درحقیقت وہ محبت کا اتنا ہی بھوکا ہے جتنا بنگال کا فاقہ زدہ باشندہ۔
(گیشوری کالج بمبئی میں)
سعادت حسن منٹو.

ضروری نہیں اب ضرورت نہیں
تیری دوستی کی ضرورت نہیں
اس لمحوں ک کیا نام دیں حد درجہ
جب رونا نہ چاہیں آنسو رک نہ پاٸیں
کسی کے دل سے اپنا دل مت لگاو کیونکہ دل بدل جاتے ہیں، دل لگانا ہے تو اللہ پاک سے لگاو؟ کیونکہ اللہ پاک کبھی نہیں بدلتا بلکہ دل میں بس جاتا ہے۔***

پریشانی میں مذاق اور خوشی میں طعنہ مت دو کیونکہ اس سے رشتوں میں موجود محبت ختم ہو جاتی ہے۔
***
حال معلوم ہے قیامت کا
بات کہنے میں پر نہیں آتی
آگے آتی تھی یاد بھی تیری
اب کبھی بھول کر نہیں آتی
مرگِ عاشق ہے کس قدر آساں
نوبت چارہ گر نہیں آتی
حضرت دل اور اُن سے حال کہیں
موت کہہ کر مگر نہیں آتی
گل ہرے ہوگۓ چمن میں داغ
تجھ پہ رونق مگر نہیں آتی
"داغ دہلوی"
وہ نگاہ راہ پر نہیں آتی
نظر آتے نظر نہیں آتی
دلبروں پر طبیعت آتی ہے
اس طرح اس قدر نہیں آتی
حسن مجرم رہا کہ عشق رہا
غیب کی کچھ خبر نہیں آتی
کیا رکے اُس نگاہِ شوخ کی چوٹ
آتے جاتے نظر نہیں آتی
گو طبیعت ہے اُس کی ہرجائی
پر مری راہ پر نہیں آتی
قتل پر اپنے باندھ دیتے ہم
ہاتھ اُن کی کمر نہیں آتی
دل کے لینے کی گھات ہے کچھ اور
یہ تجھے مفت بر نہیں آتی
کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی
داغِ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو پہ مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
مرزا غالب
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
.
کاغذی ناؤ تھی ، منجدھار میں دم توڑ گئی
پاس پتوار بھی تھی ، دُور کنارے بھی نہ تھے
کیوں زمانے نے ھدف ھم کو بنایا تھا ، کہ ھم
خاک زادے بھی نہ تھے ، راج دُلارے بھی نہ تھے
آ گئے کرچیاں پُھولوں کی لیے ، آج وہ پھر
ھم نے احسان ابھی اُن کے اتارے بھی نہ تھے
"وزیر آغا"
کیسے ٹکڑوں میں کوئی شخص سنبھالا جائے
جس نے جانا ہے کہو سارے کا سارا جائے
جب ہے برسات کسی اور کے آنگن کے لئے
اس کا کیچڑ بھی مرے گھر نہ اتارا جائے
ہے بری بات یہ سرگوشیاں محفل کو بتا
سرِ بازار مرا قصہ اچھالا جائے
زندگی میری ہے تو مجھ کو عطا کی جائے
ہے مرا حق تو مجھے اور نہ ٹالا جائے
شور اٹھتا ہے رگ و جاں سے تو دل پوچھتا ہے
خالی زندان سے اب کس کو نکالا جائے
عقل کہتی ہے کہ چل دور ہے منزل تیری
دل یہ کہتا ہے تجھے مڑ کے پکارا جائے
چاہ جینے کی ہے تو مشورہ ہے یہ ابرک
آستیں میں بھی کوئی سانپ نہ پالا جائے
ابرک
نام لینے پہ محبت کا جو مارے جائیں
ایسے کم ظرف زمیں پر نہ اتارے جائیں
کوئی اپنا ہو تو آئے وہ سنبھالے ہم کو
ہم سے یہ جھوٹے سہارے نہ سہارے جائیں
جس نے آنا ہے وہ پہلی ہی صدا پر آئے
ہم نہ مجنوں ہیں نہ پاگل کہ پکارے جائیں
اب نہ انجام میں رسوائی گوارا ہے ہمیں
اس سے بہتر ہے کہ آغاز میں مارے جائیں
حق یہی ہے کہ وفا پیشہ یہاں پر ابرک
بے وفاؤں سے کہیں بڑھ کے سنوارے جائیں
........... ........................... اتباف ابرک
سیرس سوال؟😒
آپ معاف کرنا پسند کرتے
ہیں یا بدلہ لینا..؟؟
خاموشی اختیار کر لیں مگر گلہ مت کریں۔ گوشہ نشیں ہو جائیں مگر اپنا معیار مت گرائیں۔
عزت نا ملے تو کنارہ کشی کر لیں۔ وقت کی بھیک نہ مانگیں عزت اور محبت کے بغیر کسی رشتے کا وجود نہیں۔ عزت وہ نہیں جو باتوں سے سنائی جاتی ہے عزت وہ ہے جو عمل سے دکھائی دیتی ہے..
*دم والے پانی سے سالن بنانا*
وعلیکم السلام
جی ! بناسکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
*سجدہ سہو کی وجہ اور طریقہ*
وعلیکم السلام
نماز میں جتنی چیزیں واجب ہیں ان میں سے ایک واجب یا کئی واجب اگر بھولے سے رہ جائیں یا کسی فرض یا واجب میں تاخیر ہو جائے تو سجدہ سہو کرنا واجب ہوجاتا ہے، جس کے کرلینے سے نماز درست ہوجاتی ہے۔
اگر سجدہ سہو نہیں کیا تو وقت کے اندر اندر نماز پھر سے پڑھنا واجب ہوتا ہے.
پھر سجدہ سہو کا طریقہ یہ ہے کہ آخری رکعت میں فقط التحیات پڑھ کر داہنی طرف سلام پھیر کر دو سجدے کرے، پھر بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کے دونوں طرف سلام پھیرے اور نماز ختم کرے۔
واللہ اعلم بالصواب
علم دین حکمت کی باتیں
ہم پڑھیں قسمت کی باتیں
لوگ ترقیاں کرتے رہے دیہ
اور ہم قسمت پہ اڑے رہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain