مُخلص ہونا سزا نہیں ہوتا مگر ہر فَرد بَاوفا نہیں ہوتا تلخ نوا بنا دیتے ہیں حالات فطرت نے زہر بھرا نہیں ہوتا کبھی دوا تاثیر کُھو دے کبھی زخم بھرا نہیں ہوتا دعوے مرنے کے جُدا ہونے پہ جیتے سب کوئی مَرا نہیں ہوتا رگ رگ میں زہر ہجر ہو تو بنجر دل کبھی ہرا نہیں ہوتا تعلق توڑ بھی جائے کوئی اب یہ دل خفا نہیں ہوتا لوگ وہ ہی سنتے ہیں کبیر جو کبھی ، کہا نہیں ہوتا “ شھزادہ کبیر
ایک چیز جو انسان کو تھکا دیتی ھے اور وہ ھے "احساس کی طلب"❤ بھولے سے محبت کر بیٹھا، ناداں تھا بچارا، دل ہی تو ہے ساحر لدھیانوی بھولے سے محبت کر بیٹھا، ناداں تھا بچارا، دل ہی تو ہے ہر دل سے خطا ہو جاتی ہے، بگڑو نہ خدارا، دل ہی تو ہے اس طرح نگاہیں مت پھیرو، ایسا نہ ہو دھڑکن رک جائے سینے میں کوئی پتھر تو نہیں احساس کا مارا، دل ہی تو ہے جذبات بھی ہندو ہوتے ہیں چاہت بھی مسلماں ہوتی ہے دنیا کا اشارہ تھا لیکن سمجھا نہ اشارا، دل ہی تو ہے بیداد گروں کی ٹھوکر سے سب خواب سہانے چور ہوئے اب دل کا سہارا غم ہی تو ہے اب غم کا سہارا دل ہی تو ہے
شاعرہ:اسماء ہادیہ دیتے ہیں دعا درد کے مارے اسے کہنا پلکوں سے ذرا بوجھ اتارے اسے کہنا اب کوئی بھی رُت بھاتی نہیں دیدۂ دل کو لگتے ہیں سبھی زہر نظارے اسے کہنا ہوتی ہی نہیں ہم سے محبت کی تجارت اس دور میں ہیں صرف خسارے اسے کہنا ممکن ہے مرے لوٹ کے آنے کا تصور اک بار مجھے دل سے پکارے اسے کہنا میں رنگ سجاوٹ کے سبھی بھول چکی ہوں اب آ کے مرا روپ نکھارے اسے کہنا انسان بھی اب سانپوں کی فطرت میں ڈھلے ہیں ہر شخص عجب روپ ہے دھارے اسے کہنا بکھرے ہوئے اپنے ہی خد و خال میں گم ہوں آئینے میں پھر عکس سنوارے اسے کہنا کہنا کہ مری مانگ میں سورج تو نہیں ہے پہلو میں سجا دے سبھی تارے اسے کہنا
کچھ لوگ نبھاتے ہیں ایسا ' ہوتے ہی نہیں دھڑکن سے الگ کیا حال سنائیں اپنا تمہیں کیا بات بتائیں جیون کی؟ اِک آنکھ ہماری ہنستی ہے' اِک آنکھ میں رُت ہے ساون کی ہم کس کی کہانی کا حصہ ' ہم کس کی دُعا میں شامل ہیں ؟ ہے کون جو رستہ تکتا ہےہم کس کی وفا کا حاصل ہیں ؟ کس کس کا پکڑ کر دامن' ہم اپنی ہی کہانی کھوجیں گے ؟ ہم کھو گئے ہیں کن راہوں میں ' اس بات کو صاحب جانے دیں کچھ درد سنبھالے سینے میں کچھ خواب لُٹائے ہیں ہم نے اک عمر گنوائی ہے اپنی کچھ لوگ کمائے ہیں ہم نے دل خرچ کیا ہے لوگوں پرجان کھوئی ہے غم پایا ہے اپنا تو یہی ہے سود و زیاں ' اپنا تو یہی سرمایہ ہے اپنا تو یہی سرمایہ ہے ظہیر احمد ظہیر
کیاحال سنائیں دنیاکا ' کیابات بتائیں لوگوں کی دنیاکےہزاروں موسم ہیں ' لاکھوں ہیں ادائیں لوگوں کی کچھ لوگ کہانی ہوتےہیں 'دنیا کوسنانے کےقابل کچھ لوگ نشانی ہوتےہیں ' بس دل میں چھپانےکےقابل کچھ لوگ گزرتے لمحے ہیں ' اِک بار گئے تو آتے نہیں ہم لاکھ بُلانا بھی چاہیں ' پرچھائیں بھی انکی پاتے نہیں کچھ لوگ خیالوں کے اندرجذبوں کی روانی ہوتے ہیں کچھ لوگ کٹھن لمحوں کی طرح ' پلکوں پہ گرانی ہوتے ہیں کچھ لوگ سمندر گہرے ہیں ' کچھ لوگ کنارا ہوتے ہیں کچھ ڈوبنے والی جانوں کوتنکوں کا سہارا ہوتے ہیں کچھ لوگ چٹانوں کا سینہ ' کچھ ریت گھروندہ چھوٹا سا کچھ لوگ مثال ابرِ رواں ' کچھ اونچے درختوں کاسایہ کچھ لوگ چراغوں کی صور ت ' راہوں میں اُجالا کرتے ہیں کچھ لوگ اندھیروں کی کالک' چہرے پر اُچھالا کرتے ہیں کچھ لوگ سفر میں ملتے ہیں ' دو گام چلےاور رستے الگ
dil mein dard hai suno meri sehar... haathon mein haath dedy ya dedy mujhe zahar... kat,ty hein mere teri yaadon mein sary pal sary pahar... mere murda rooh ko lagao apni chahat ke par... aur apne piyaary dil mein mujhy banany de ghar... aapki be rakhi jeena mushki kar rahi dil barpa hai aik kahar... mein kaha jaon jaha dekhta hon waha to hi aati hai nazar... bhatka hua hai rooh sadyoon se aur aap ho manzil ka dar... dil mein dard hai suno meri sehar... haathon mein haath dedy ya dedy zahar... poet by deewana
طلسم ٹوٹ گیا تھا پھر چاہتوں کا دل سے اترا تھا خمار وفاؤں کا ہاتھ رہے خالی بھری بہار میں بھی اکثر دل میں موجزن ہوا طوفان جذبوں کا دیکھتے ہیں پرندے پنجرے کے در کو غور سے نگاہ شوق میں جگمگاتاہے ستارا شبوں کا کروٹوں سے لپٹ گئیں تھیں نیندیں بھی میری ہر زبان پہ تھی روداد وصل کے فسوں کا میرے ساتھ تھا تو غم حیات اکثیر تھی سناتا ہے سر محفل فسانہ خوشبوں کا در پہ آئے سوالی کو لٹایا خالی رابعہ نے ہجر کے پار تعلق تھا جیسے رنگو و بوں کا
جن کے دلوں میں رحم طبیعت میں سادگی احساس میں خلوص ملنے میں اپنا پن دلوں میں محبت اور سوچوں میں سچائی ہے ایسے انسانوں کا وجود 🍃اللہ🍃کی طرف سے مخلوق کے لئے نعمت ہے.
مِلیں پھر آکے اِسی موڑ پر، دُعا کرنا کڑا ہے اب کے ہمارا سفر، دُعا کرنا دیارِ خواب کی گلیوں کا، جو بھی نقشہ ہو! مکینِ شہر نہ بدلیں نظر، دُعا کرنا چراغ جاں پہ ، اِس آندھی میں خیریت گُزرے کوئی اُمید نہیں ہے، مگر دُعا کرنا تمہارے بعد مِرے زخمِ نارَسائی کو نہ ہو نصِیب کوئی چارہ گر ، دُعا کرنا مُسافتوں میں، نہ آزار جی کو لگ جائے! مِزاج داں نہ مِلیں ہمسفر، دُعا کرنا دُکھوں کی دُھوپ میں، دامن کشا مِلیں سائے گھنے، ہر ے ہی رہَیں سب شجر، دُعا کرنا نشاطِ قُرب میں، آئی ہے ایسی نیند مجھے! کُھلے، نہ آنکھ مِری عُمر بھر ، د ُعا کرنا