* محبت محسوس کرنے کا نام ہے۔ کسی کی بے چینی سے۔ کسی کے رونے سے۔ کسی کے غصے سے۔ کسی کے لہجے کی تپِش سے۔ کسی کے ہر طرح کے حالات کے باوجود بھی آپ سے جُڑے رہنے سے۔ کسی کے آپ سے بات کرنے کے طریقے سے۔ محبت مختلف انداز میں محسوس کرنے کا نام ہے صرف کہنے سے محسوس نہیں ہوتی۔❤🩹
ایک مدت کی ریاضت سے کمائے ہوئے لوگ.!! کیسے بچھڑے ہیں مرے دل میں سمائے ہوئے لوگ تلخ گوئی سے ہماری تُو پریشان نہ ہو.! ہم ہیں دنیا کے مصائب کے ستائے ہوئے لوگ اس زمانے میں مرے یار کہاں ملتے ہیں .! اپنے دامن میں محبت کو بسائے ہوئے لوگ تجھ کو اے شخص کبھی زیست کی تنہائی میں یاد آئیں گے ہم عجلت میں گنوائے ہوئے لوگ .!! اُن کے رستے میں بچھا دیتے ہیں پلکیں اپنی .!!!! جب بھی ملتے ہیں ترے شہر سے آئے ہوئے لوگ یہ غنیمت ہیں جو آزاد نظر آتے ہیں.!! خواب پلکوں کے دریچوں میں سجائے ہوئے لوگ
بعض اوقات کسی شخص کی محبت ہمارے دل کو تھکا دیتی ہے۔ جب دل مکمل تھک جائے، تو روح تھکنے لگتی ہے! اور دل و روح مکمل تھک جائیں، تو جسم ٹوٹنے پھوٹنے لگتا ہے، روح بھی بیمار ہو جاتی ہے۔ کوئی کہتا ہے علاج کروا لو! کوئی کہتا ہے دم کروا لو! دعا کرا لو۔۔! اور محبت میں تھکے ہوئے اس انسان کی بس اتنی سی تمنا ہوتی ہے کہ کوئی اس کے مسیحا سے کہہ دے کہ اسکی فکر کر لے بس۔۔۔۔۔ اور وہ اتنے میں ہی آرام پا کر مکمل صحتیاب ہو جائے۔
ہم سے وفا کے بارے میں جو چاہے پوچھ لو لیکن وفا کی کیا ہے سزا یہ نہ پوچھنا راہ وفا میں ہم پہ جو گزری وہ پوچھ لو منزل پہ کیا سلوک ہوا یہ نہ پوچھنا رستہ میں کون کون ملا پوچھو شوق سے کس کس کا ساتھ چھوٹ گیا یہ نہ پوچھنا چاہت کی داستان ہے ذاتی معاملہ توڑا ہے کس نے عہد وفا یہ نہ پوچھنا سچ بولنا بھی تم کو سکھا دیں گے ہم مگر سچ بولنے کی کیا ہے سزا یہ نہ پوچھنا
اک دشت کی نوا تھے صداؤں میں رہ گئے ہم لوگ بے بسی کی ہواؤں میں رہ گئے تنہا ہی کاٹنا تھا کڑی دھوپ کا سفر جو لوگ میرے ساتھ تھے چھاؤں میں رہ گئے اس شہر روزگار میں تنہائیاں ہیں بس بچپن کے دوست یار تو گاؤں میں رہ گئے جو لوگ ٹھہر پاۓ نہ مشکل کے سامنے پھر بوجھ کی مثال وہ پاؤں میں رہ گئے کہنے کو اک مثال محبت کی ہم بھی تھے بے کار سی وجہ کو اناؤں میں رہ گئے پھر شام بھی افق سے سمندر میں جابسی ہم لوگ طاق شب کی دعاؤں میں رہ گئے گلشن کی آب و تاب کو سازش نے آلیا جو پھول کھل رہے تھے خزاؤں میں رہ گئے اس طور تشنگی کو میسر تھا آج وہ کچھ نقش حسرتوں کی سراؤں میں رہ گئے
اسیری کے نشاں سارے کے سارے برمحل رکھنا جہاں چھنکی ہوں زنجیریں وہیں زُلفوں کے بل رکھنا تُمھیں بے کیف کرنے کو نہ جانے کب بدل جائیں اُن آنکھوں کا تم اپنے پاس کُچھ نعم البدل رکھنا رہا ہے ربط میری شاعری کا اُس کے ہونٹوں سے مکر جائے تو اُس کے سامنے میری غزل رکھنا کبھی اپنی جفا پر وہ پشیماں ہو بھی سکتا ہے مگر تم فیصلہ ترکِ محبت کا اٹل رکھنا ہزاروں آرزوؤں کو بسا بیٹھے ہو کیوں دل میں نہیں آسان گھر میں اتنے مہماں آج کل رکھنا ہواؤں سے بھی پڑ جاتے ہیں اکثر دائرے جس میں قتیلؔ اُس جھیل میں ہولے سے یادوں کے کنول رکھنا...! قتیلؔ شفائی
سینے میں الجھنوں کا جوبن کمال است آہا ہہ زندگی سے ان بن کمال است وہ اک بشر جو خود کو سمجھتا ہے ماوراء وہ ہی بنے گا آگ کا ایندھن کمال است ٹوٹے ہوئے بدن میں وحشت کی سسکیاں اور پھر دل_خراب کی چھن چھن کمال است تصویر-حسن-یار سے مرغوب ہوکے پھر کمرے میں منھ چڑاتا درپن کمال است لفظوں سے اس نے میری چوٹوں کو یوں چھوا ہر زخم لگ رہا ہے کندن کمال است اے پیاری تو بھی عشق کی باتوں میں آگئی تو نے بھی چن لیا اک "رہزن" کمال است.....
na dua aese qabool hoti na ba dua aese qabool hoti chahy din rat aik kardo dua aese qabool hoti ke aesa kam kar jao ke agle insan se kahy bina hi dil se dua nikal jaye wo dua sat aasmanu ka seena cheer ke KHUDA tak puhanchti hai... aur agar kisi ka dil dukhao aur wo ba dua na dy to us se bari ba dua koi nhi... by deewana...