حق را بسجودے، صنَماں را بطوافے
بہتر ہے چراغِ حَرم و دَیر بُجھا دو
میں ناخوش و بیزار ہُوں مَرمَر کی سِلوں سے
میرے لیے مٹّی کا حرم اور بنا دو
تہذیبِ نوی کارگہِ شیشہ گراں ہے
آدابِ جُنوں شاعرِ مشرِق کو سِکھا دو!
سُلطانیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کُہَن تم کو نظر آئے، مِٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسرّ نہیں روزی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پِیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دو
wow..
today I got more then five likes..🧐
hurrrraaaaay 🤩😉
اُٹھّو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
Rise, and from their slumber wake the poor ones of My world!
کاخِ اُمَرا کے در و دیوار ہِلا دو
Shake the walls and windows of the mansions of the great!
گرماؤ غلاموں کا لہُو سوزِ یقیں سے
Kindle with the fire of faith the slow blood of the slaves!
کُنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
Make the fearful sparrow bold to meet the falcon’s hate!
تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کُوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی
دانش و دِین و علم و فن بندگیِ ہُوس تمام
عشقِ گرہ کشاے کا فیض نہیں ہے عام ابھی
جوہرِ زندگی ہے عشق، جوہرِ عشق ہے خودی
آہ کہ ہے یہ تیغِ تیز پردگیِ نیام ابھی!
عقل ہے بے زمام ابھی، عشق ہے بے مقام ابھی
نقش گرِ اَزل! ترا نقش ہے نا تمام ابھی
خلقِ خدا کی گھات میں رِند و فقیہ و مِیر و پیر
تیرے جہاں میں ہے وہی گردشِ صُبح و شام ابھی
جب تک میں جِیا خیمۂ افلاک کے نیچے
کانٹے کی طرح دل میں کھٹکتی رہی یہ بات
گفتار کے اسلوب پہ قابُو نہیں رہتا
جب رُوح کے اندر متلاطم ہوں خیالات
وہ کون سا آدم ہے کہ تُو جس کا ہے معبود
وہ آدمِ خاکی کہ جو ہے زیرِ سماوات؟
کُشادِ درِ دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
دلِ مردِ مومن میں پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کہ تھی نعرۂ ’لَا تَذَر‘ میں
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کر دے!
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کِشور کشائی
خیاباں میں ہے مُنتظر لالہ کب سے
قبا چاہیے اس کو خُونِ عرب سے
یہ غازی، یہ تیرے پُر اسرار بندے
جنھیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سِمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی
کھُلے جاتے ہیں اسرارِ نہانی
گیا دَورِ حدیثِ ’لن ترانی‘
ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار
وہی مہدی، وہی آخر زمانی!
رگوں میں وہ لہُو باقی نہیں ہے
وہ دل، وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں، تُو باقی نہیں ہے
خود بخود زنجیر کی جانب کھِنچا جاتا ہے دل
تھی اسی فولاد سے شاید مری شمشیر بھی
جو مری تیغِ دو دم تھی، اب مری زنجیر ہے
شوخ و بے پروا ہے کتنا خالقِ تقدیر بھی!
اک فغانِ بے شرر سینے میں باقی رہ گئی
سوز بھی رُخصت ہُوا، جاتی رہی تاثیر بھی
مردِ حُر زنداں میں ہے بے نیزہ و شمشیر آج
مَیں پشیماں ہوں، پشیماں ہے مری تدبیر بھی
صُورت شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
نقش ہیں سب ناتمام خُونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خُونِ جگر کے بغیر
وادیِ کُہسار میں غرقِ شفَق ہے سحاب
لعلِ بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب
سادہ و پُرسوز ہے دُخترِ دہقاں کا گیت
کشتیِ دل کے لیے سَیل ہے عہدِ شباب
آبِ روانِ کبیر! * تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
دیدۂ انجم میں ہے تیری زمیں، آسماں
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل میں ہے
عشقِ بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں!
دیکھ چُکا المنی، شورشِ اصلاحِ دیں
جس نے نہ چھوڑے کہیں نقشِ کُہن کے نشاں
آج بھی اس دیس میں عام ہے چشمِ غزال
اور نگاہوں کے تِیر آج بھی ہیں دل نشیں
بُوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے
رنگِ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے
جن کی حکومت سے ہے فاش یہ رمزِ غریب
سلطنتِ اہلِ دل فقر ہے، شاہی نہیں
جن کی نگاہوں نے کی تربیَتِ شرق و غرب
ظُلمتِ یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں
جن کے لہُو کی طفیل آج بھی ہیں اندلسی
خوش دل و گرم اختلاط، سادہ و روشن جبیں
کعبۂ اربابِ فن! سطوَتِ دینِ مبیں
تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں
ہے تہِ گردُوں اگر حُسن میں تیری نظیر
قلبِ مسلماں میں ہے، اَور نہیں ہے کہیں
آہ وہ مردانِ حق! وہ عَربی شہسوار
حاملِ ’ خُلقِ عظِیم‘، صاحبِ صدق و یقیں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain