نُقطۂ پرکارِ حق، مردِ خدا کا یقیں
اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز
عقل کی منزل ہے وہ، عشق کا حاصل ہے وہ
حلقۂ آفاق میں گرمیِ محفل ہے وہ
خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز
اس کی اُمیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب، اس کی نِگہ دل نواز
نرم دمِ گُفتگو، گرم دمِ جُستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز
تجھ سے ہُوا آشکار بندۂ مومن کا راز
اس کے دنوں کی تپِش، اس کی شبوں کا گداز
اس کا مقامِ بلند، اس کا خیالِ عظیم
اس کا سُرور اس کا شوق، اس کا نیاز اس کا ناز
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکُشا، کارساز
تیرا جلال و جمال، مردِ خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تُو بھی جلیل و جمیل
تیری بِنا پائدار، تیرے سُتوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہُجومِ نخیل
تیرے در و بام پر وادیِ اَیمن کا نور
تیرا منارِ بلند جلوہ گہِ جبرئیل
مِٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سرِّ کلیمؑ و خلیلؑ
اس کی زمیں بے حدود، اس کا اُفُق بے ثُغور
اس کے سمندر کی موج، دجلہ و دنیوب و نیل
اس کے زمانے عجیب، اس کے فسانے غریب
عہدِ کُہن کو دیا اس نے پیامِ رحیل
ساقیِ اربابِ ذوق، فارسِ میدانِ شوق
بادہ ہے اس کا رحیق، تیغ ہے اس کی اصیل
مردِ سپاہی ہے وہ اس کی زِرہ ’لَا اِلہ‘
سایۂ شمشیر میں اس کہ پنہ ’لَا اِلہ‘
پیکرِ نُوری کو ہے سجدہ میّسر تو کیا
اس کو میّسر نہیں سوز و گدازِ سجود
کافرِ ہندی ہُوں مَیں، دیکھ مرا ذوق و شوق
دل میں صلٰوۃ و دُرود، لب پہ صلوٰۃ و دُرود
شوق مری لَے میں ہے، شوق مری نَے میں ہے
نغمۂ ’اللہھوٗ‘ میرے رَگ و پَے میں ہے
عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰؐ
عشق خدا کا رُسول، عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گِل تابناک
عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاسُ الکِرام
عشق فقیہِ حرم، عشق امیرِ جُنود
عشق ہے ابن السّبیل، اس کے ہزاروں مقام
عشق کے مِضراب سے نغمۂ تارِ حیات
عشق سے نُورِ حیات، عشق سے نارِ حیات
اوّل و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقشِ کُہن ہو کہ نَو، منزِل آخر فنا
تیری خدائی سے ہے میرے جُنوں کو گِلہ
اپنے لیے لامکاں، میرے لیے چار سُو!
فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرفِ تمنّا، جسے کہہ نہ سکیں رُو بُرو
پاس اگر تُو نہیں، شہر ہے ویراں تمام
تُو ہے تو آباد ہیں اُجڑے ہُوئے کاخ و کُو
پھر وہ شرابِ کُہن مجھ کو عطا کر کہ مَیں
ڈھُونڈ رہا ہوں اُسے توڑ کے جام و سُبو
چشمِ کرم ساقیا! دیر سے ہیں منتظر
جلوَتیوں کے سُبو، خلوَتیوں کے کُدو
میرا نشیمن نہیں درگہِ میر و وزیر
میرا نشیمن بھی تُو، شاخِ نشیمن بھی تُو
تجھ سے گریباں مرا مطلعِ صُبحِ نشور
تجھ سے مرے سینے میں آتشِ ’اللہھوٗ‘
تجھ سے مری زندگی سوز و تب و درد و داغ
تُو ہی مری آرزو، تُو ہی مری جُستجو
ہے یہی میری نماز، ہے یہی میرا وضو
میری نواؤں میں ہے میرے جگر کا لہُو
صُحبتِ اہلِ صفا، نُور و حضور و سُرور
سر خوش و پُرسوز ہے لالہ لبِ آبُجو
راہِ محبّت میں ہے کون کسی کا رفیق
ساتھ مرے رہ گئی ایک مری آرزو
خرد سے راہرو روشن بصر ہے
خرد کیا ہے، چراغِ رہ گزر ہے
درُونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغِ رہ گزر کو کیا خبر ہے!
چمن میں رختِ گُل شبنم سے تر ہے
سمن ہے، سبزہ ہے، بادِ سحَر ہے
مگر ہنگامہ ہو سکتا نہیں گرم
یہاں کا لالہ بے سوزِ جگر ہے
خودی کے زور سے دُنیا پہ چھا جا
مقامِ رنگ و بُو کا راز پا جا
برنگِ بحر ساحل آشنا رہ
کفِ ساحل سے دامن کھینچتا جا
محبّت کا جُنوں باقی نہیں ہے
مسلمانوں میں خُوں باقی نہیں ہے
صفیں کج، دل پریشاں، سجدہ بے ذوق
کہ جذبِ اندرُوں باقی نہیں ہے
ترا جوہر ہے نُوری، پاک ہے تُو
فروغِ دیدۂ افلاک ہے تُو
ترے صیدِ زبوں افرشتہ و حُور
کہ شاہینِ شہِ لولاکؐ ہے تُو!
ترے سِینے میں دَم ہے، دل نہیں ہے
ترا دَم گرمیِ محفل نہیں ہے
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نُور
چراغِ راہ ہے، منزل نہیں ہے
وہ میرا رونقِ محفل کہاں ہے
مری بجلی، مرا حاصل کہاں ہے
مقام اس کا ہے دل کی خلوَتوں میں
خدا جانے مقامِ دل کہاں ہے!
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain