نِگہ اُلجھی ہوئی ہے رنگ و بُو میں
خرد کھوئی گئی ہے چار سُو میں
نہ چھوڑ اے دِل فغانِ صُبح گاہی
اماں شاید مِلے، ’اللہ ھُو‘ میں!
خودی کی جلوَتوں میں مُصطفائی
خودی کی خلوَتوں میں کبریائی
زمین و آسمان و کُرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خُدائی!
نہ مومن ہے نہ مومن کی امیری
رہا صُوفی، گئی روشن ضمیری
خدا سے پھر وہی قلب و نظر مانگ
نہیں ممکن امیری بے فقیری
کوئی دیکھے تو میری نَے نوازی
نفس ہندی، مقامِ نغمہ تازی
نِگہ آلُودۂ اندازِ افرنگ
طبیعت غزنوی، قسمت ایازی!
عرب کے سوز میں سازِ عجم ہے
حرم کا راز توحیدِ اُمَم ہے
تہی وحدت سے ہے اندیشۂ غرب
کہ تہذیبِ فرنگی بے حرم ہے
یقیں، مثلِ خلیل آتش نشینی
یقیں، اللہ مستی، خود گُزینی
سُن، اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار
غلامی سے بَتر ہے بے یقینی
پریشاں کاروبارِ آشنائی
پریشاں تر مری رنگیں نوائی!
کبھی مَیں ڈھونڈتا ہوں لذّتِ وصل
خوش آتا ہے کبھی سوزِ جُدائی!
خودی کی خلوتوں میں گُم رہا مَیں
خدا کے سامنے گویا نہ تھا مَیں
نہ دیکھا آنکھ اٹھا کر جلوۂ دوست
قیامت میں تماشا بن گیا مَیں!
مکانی ہُوں کہ آزادِ مکاں ہُوں
جہاںبِیں ہُوں کہ خود سارا جہاں ہُوں
وہ اپنی لامکانی میں رہیں مست
مجھے اتنا بتا دیں مَیں کہاں ہُوں!
ظلامِ بحر میں کھو کر سنبھل جا
تڑپ جا، پیچ کھا کھا کر بدل جا
نہیں ساحل تری قسمت میں اے موج
اُبھر کر جس طرف چاہے نِکل جا!
رہ و رسمِ حرم نا محرمانہ
کلیسا کی ادا سوداگرانہ
تبرّک ہے مرا پیراہنِ چاک
نہیں اہلِ جُنوں کا یہ زمانہ
ہے یاد مجھے نکتۂ سلمانِ* خوش آہنگ
دنیا نہیں مردانِ جفاکش کے لیے تنگ
چیتے کا جگر چاہیے، شاہیں کا تجسّس
جی سکتے ہیں بے روشنیِ دانش و فرہنگ
کر بُلبل و طاؤس کی تقلید سے توبہ
بُلبل فقط آواز ہے، طاؤس فقط رنگ!
لذّتِ نغمہ کہاں مُرغِ خوش الحاں کے لیے
آہ، اس باغ میں کرتا ہے نفَس کوتاہی
ایک سرمستی و حیرت ہے سراپا تاریک
ایک سرمستی و حیرت ہے تمام آگاہی
لذّتِ نغمہ کہاں مُرغِ خوش الحاں کے لیے
آہ، اس باغ میں کرتا ہے نفَس کوتاہی
ایک سرمستی و حیرت ہے سراپا تاریک
ایک سرمستی و حیرت ہے تمام آگاہی
کھو نہ جا اس سحَر و شام میں اے صاحبِ ہوش!
اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش
نگاہ پاک ہے تیری تو پاک ہے دل بھی
کہ دل کو حق نے کِیا ہے نگاہ کا پَیرو
پنَپ سکا نہ خیاباں میں لالۂ دل سوز
کہ ساز گار نہیں یہ جہانِ گندم و جَو
رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقی
ہمیشہ تازہ و شیریں ہے نغمۂ خسروؔ
آزر کا پیشہ خارا تراشی
کارِ خلیلاں خارا گدازی
تُو زندگی ہے، پائندگی ہے
باقی ہے جو کچھ، سب خاکبازی
دل ہے مسلماں میرا نہ تیرا
تُو بھی نمازی، میں بھی نمازی!
میں جانتا ہوں انجام اُس کا
جس معرکے میں مُلّا ہوں غازی
تُرکی بھی شیریں، تازی بھی شیریں
حرفِ محبّت تُرکی نہ تازی
کی حق سے فرشتوں نے اقبالؔ کی غمّازی
گُستاخ ہے، کرتا ہے فطرت کی حِنابندی
خاکی ہے مگر اس کے انداز ہیں افلاکی
رومی ہے نہ شامی ہے، کاشی نہ سمرقندی
سِکھلائی فرشتوں کو آدم کی تڑپ اس نے
آدم کو سِکھاتا ہے آدابِ خداوندی!
کیے ہیں فاش رمُوزِ قلندری میں نے
کہ فکرِ مدرسہ و خانقاہ ہو آزاد
رِشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہَمن کا طِلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain