نہ فلسفی سے، نہ مُلّا سے ہے غرض مجھ کو
یہ دل کی موت، وہ اندیشہ و نظر کا فساد
فقیہِ شہر کی تحقیر! کیا مجال مری
مگر یہ بات کہ مَیں ڈھُونڈتا ہوں دل کی کشاد
خرید سکتے ہیں دنیا میں عشرتِ پرویز
خدا کی دین ہے سرمایۂ غمِ فرہاد
کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سُوئے کوفہ و بغداد
یہ مدرسہ، یہ جواں، یہ سُرور و رعنائی
انھی کے دم سے ہے میخانۂ فرنگ آباد
خبر مِلی ہے خدایانِ بحر و بَر سے مجھے
فرنگ رہ گزرِ سیلِ بے پناہ میں ہے
تلاش اس کی فضاؤں میں کر نصیب اپنا
جہانِ تازہ مری آہِ صُبح گاہ میں ہے
وہی جہاں ہے تِرا جس کو تُو کرے پیدا
یہ سنگ و خِشت نہیں، جو تری نگاہ میں ہے
مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے جس کا
وہ مُشتِ خاک ابھی آوارگانِ راہ میں ہے
نہ تخت و تاج میں نَے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے
صنَمکدہ ہے جہاں اور مردِ حق ہے خلیل
یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لااِلٰہ میں ہے
یا شرعِ مسلمانی یا دَیر کی دربانی
یا نعرۂ مستانہ، کعبہ ہو کہ بُت خانہ!
مِیری میں فقیری میں، شاہی میں غلامی میں
کچھ کام نہیں بنتا بے جُرأتِ رِندانہ
یا حیرتِ فارابیؔ یا تاب و تبِ رومیؔ
یا فکرِ حکیمانہ یا جذبِ کلیمانہ!
یا عقل کی رُوباہی یا عشقِ یدُاللّٰہی
یا حِیلۂ افرنگی یا حملۂ ترکانہ!
یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہرِ یک دانہ
یک رنگی و آزادی اے ہمّتِ مردانہ!
یا سنجر و طغرل کا آئینِ جہاںگیری
یا مردِ قلندر کے اندازِ ملوکانہ!
عِلم کی حد سے پرے، بندۂ مومن کے لیے
لذّتِ شوق بھی ہے، نعمتِ دیدار بھی ہے
مکتبوں میں کہیں رعنائیِ افکار بھی ہے؟
خانقاہوں میں کہیں لذّتِ اسرار بھی ہے؟
منزلِ راہرواں دُور بھی، دشوار بھی ہے
کوئی اس قافلے میں قافلہ سالار بھی ہے؟
بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکۂ دین و وطن
اس زمانے میں کوئی حیدرِؓ کرّار بھی ہے؟
مجھے وہ درسِ فرنگ آج یاد آتے ہیں
کہاں حضور کی لذّت، کہاں حجابِ دلیل!
اندھیری شب ہے، جُدا اپنے قافلے سے ہے تُو
ترے لیے ہے مرا شُعلۂ نوا، قندیل
غریب و سادہ و رنگیِں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حُسینؓ، ابتدا ہے اسمٰعِیلؑ
فریب خوردۂ منزل ہے کارواں ورنہ
زیادہ راحتِ منزل سے ہے نشاطِ رحیل
نظر نہیں تو مرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ
کہ نُکتہہائے خودی ہیں مثالِ تیغِ اصیل
مجھے وہ درسِ فرنگ آج یاد آتے ہیں
کہاں حضور کی لذّت، کہاں حجابِ دلیل!
خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل
اگر ہو عشق سے محکم تو صُورِ اسرافیل
عذابِ دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ مَیں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل
عشق تری انتہا، عشق مری انتہا
تُو بھی ابھی ناتمام، میں بھی ابھی ناتمام
آہ کہ کھویا گیا تجھ سے فقیری کا راز
ورنہ ہے مالِ فقیر سلطنتِ روم و شام
گرچہ ہے افشائے راز، اہلِ نظر کی فغاں
ہو نہیں سکتا کبھی شیوۂ رِندانہ عام
حلقۂ صُوفی میں ذکر، بے نم و بے سوز و ساز
میں بھی رہا تشنہ کام، تُو بھی رہا تشنہ کام
پیرِ حرم نے کہا سُن کے مری رُوئداد
پُختہ ہے تیری فغاں، اب نہ اسے دل میں تھام
تھا اَرِنی گو کلیم، میں اَرِنی گو نہیں
اُس کو تقاضا روا، مجھ پہ تقاضا حرام
ڈھُونڈ رہا ہے فرنگ عیشِ جہاں کا دوام
وائے تمنّائے خام، وائے تمنّائے خام!
گئے دن کہ تنہا تھا مَیں انجمن میں
یہاں اب مِرے رازداں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں اُلجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
تو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain