اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بُو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
تہی، زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
عیشِ منزل ہے غریبانِ محبّت پہ حرام
سب مسافر ہیں، بظاہر نظر آتے ہیں مقیم
عقل عیّار ہے، سَو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ مُلّا ہے نہ زاہد نہ حکیم!
کوئی تقدیر کی منطق سمجھ سکتا نہیں ورنہ
نہ تھے ترکانِ عثمانی سے کم ترکانِ تیموری
فقیرانِ حرم کے ہاتھ اقبالؔ آگیا کیونکر
میّسر میر و سُلطاں کو نہیں شاہینِ کافوری
کبھی حیرت، کبھی مستی، کبھی آہِ سحَرگاہی
بدلتا ہے ہزاروں رنگ میرا دردِ مہجوری
حدِ ادراک سے باہر ہیں باتیں عشق و مستی کی
سمجھ میں اس قدر آیا کہ دل کی موت ہے، دُوری
یہ پِیرانِ کلیسا و حرم، اے وائے مجبوری!
صِلہ ان کی کدوی کاوش کا ہے سینوں کی بے نوری
یقیں پیدا کر اے ناداں! یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی، کہ جس کے سامنے جھُکتی ہے فغفوری
تاروں کی فضا ہے بیکرانہ
تُو بھی یہ مقام آرزو کر
عُریاں ہیں ترے چمن کی حوریں
چاکِ گُل و لالہ کو رفو کر
بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا، وہ تُو کر!
فطرت کو خِرد کے رُوبرو کر
تسخیرِ مقامِ رنگ و بو کر
تُو اپنی خودی کو کھو چکا ہے
کھوئی ہوئی شے کی جُستجو کر
اسی اقبالؔ کی مَیں جُستجو کرتا رہا برسوں
بڑی مُدّت کے بعد آخر وہ شاہیں زیرِ دام آیا
دیا اقبالؔ نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا
یہ اک مردِ تنآساں تھا، تنآسانوں کے کام آیا
یہ مصرع لِکھ دیا کس شوخ نے محرابِ مسجد پر
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا
ذرا تقدیر کی گہرائیوں میں ڈُوب جا تُو بھی
کہ اس جنگاہ سے مَیں بن کے تیغِ بے نیام آیا
مجھے آہ و فغانِ نیم شب کا پھر پیام آیا
تھم اے رہرو کہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا
دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اَولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بُوئے اسَد اللّٰہی
نَومید نہ ہو ان سے اے رہبرِ فرزانہ!
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی
عطّارؔ ہو، رومیؔ ہو، رازیؔ ہو، غزالیؔ ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحَرگاہی
نوائے صُبحگاہی نے جگر خُوں کر دیا میرا
خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے، وہ خطا کیا ہے!
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain