مِری نوا میں نہیں ہے ادائے محبوبی کہ بانگِ صورِ سرافیل دل نواز نہیں سوالِ مے نہ کروں ساقیِ فرنگ سے میں کہ یہ طریقۂ رِندانِ پاک باز نہیں ہوئی نہ عام جہاں میں کبھی حکومتِ عشق سبب یہ ہے کہ محبّت زمانہ ساز نہیں
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں کہ درویشی بھی عیّاری ہے، سُلطانی بھی عیّاری مجھے تہذیبِ حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی کہ ظاہر میں تو آزادی ہے، باطن میں گرفتاری تُو اے مولائے یثرِبؐ! آپ میری چارہسازی کر مِری دانش ہے افرنگی، مرا ایماں ہے زُناّری
دلِ بیدار فاروقی، دلِ بیدار کرّاری مِسِ آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیداری دلِ بیدار پیدا کر کہ دل خوابیدہ ہے جب تک نہ تیری ضرب ہے کاری، نہ میری ضرب ہے کاری مَشامِ تیز سے ملتا ہے صحرا میں نشاں اس کا ظن و تخمیں سے ہاتھ آتا نہیں آہُوئے تاتاری
یہ حُوریانِ فرنگی، دل و نظر کا حجاب These Western nymphs A challenge to the eye and the heart, بہشتِ مغربیاں، جلوہ ہائے پا بہ رکاب Are bold of glance, In a paradise of instant bliss.
پُوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی تُو صاحبِ منزل ہے کہ بھٹکا ہوا راہی کافر ہے مسلماں تو نہ شاہی نہ فقیری مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
علاجِ ضعفِ یقیں ان سے ہو نہیں سکتا غریب اگرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق مُریدِ سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب خدا کرے کہ مِلے شیخ کو بھی یہ توفیق اُسی طلسمِ کُہن میں اسیر ہے آدم بغَل میں اس کی ہیں اب تک بُتانِ عہدِ عتیق
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق A host of peril though you face, Yet your tongue with heart ally: یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق From times antique and hoar Qalandars on this mode rely. ہجوم کیوں ہے زیادہ شرابخانے میں Men congregate in numbers large In the mart where wine is sold, فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق For polite and courteous seems The Head of Mart, the Magian Old.
کب تک رہے محکومیِ انجم میں مری خاک یا مَیں نہیں، یا گردشِ افلاک نہیں ہے بجلی ہوں، نظر کوہ و بیاباں پہ ہے میری میرے لیے شایاں خس و خاشاک نہیں ہے عالَم ہے فقط مومنِ جاںباز کی میراث مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہیِ!
دل سوز سے خالی ہے، نِگہ پاک نہیں ہے پھر اِس میں عجب کیا کہ تو بےباک نہیں ہے ہے ذوقِ تجلّی بھی اسی خاک میں پنہاں غافل! تُو نِرا صاحبِ ادراک نہیں ہے کیا صُوفی و مُلّا کو خبر میرے جُنوں کی اُن کا سرِ دامن بھی ابھی چاک نہیں ہے