اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاجِ ملوک
If man denies his God, On kings he has to fawn:
اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جم
By trust in God, the kings To his door are drawn.
دل کی آزادی شہنشاہی، شِکَم سامانِ موت
Free heart lends kingly state, To belly death is due:
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم!
Decide which of the two Is better in your view.
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زِیر و بم
Through Love the song of Life Begets its rhythmic flow:
عشق سے مٹّی کی تصویروں میں سوزِ وم بہ دم
From Love the shapes of clay Derive an endless glow.
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق
Love makes its way to all The pores in human flesh,
شاخِ گُل میں جس طرح بادِ سحَرگاہی کا نَم
Like dewy wind of morn That makes the rose twig fresh.
بہت مدّت کے نخچیروں کا اندازِ نگہ بدلا
These victims of the past have seen the dawn of hope,
کہ مَیں نے فاش کر ڈالا طریقہ شاہبازی کا
When I revealed to them the eagle’s ways.
قلندر جُز دو حرفِ لااِلہ کچھ بھی نہیں رکھتا
The man of God knows but two words of faith;
فقیہِ شہر قاروں ہے لُغَت ہائے حجازی کا
The scholar has tomes of knowledge old and new.
حدیثِ بادہ و مینا و جام آتی نہیں مجھ کو
About wine and women I know not how to write;
نہ کر خارا شگافوں سے تقاضا شیشہ سازی کا
Ask not a stone-breaker to work on glass.
کہاں سے تُونے اے اقبالؔ سِیکھی ہے یہ درویشی
O Iqbal! From where did you learn to be such a dervish:
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
Even among the kings there is talk about your contentment!
مسلماں کے لہُو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا
Muslims are born with a gift to charm, to persuade;
مرّوت حُسنِ عالمگیر ہے مردانِ غازی کا
Brave men—they are endowed with a noble courtesy.
شکایت ہے مجھے یا رب! خداوندانِ مکتب سے
Slaves of custom are all the schools of old;
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
They teach the eaglet to grovel in the dust.
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے، آتا ہے دَھَن جاتا ہے دَھَن
من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے مَیں نے شیخ و برہَمن
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تُو جھُکا جب غیر کے آگے، نہ من تیرا نہ تن
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
من کی دنیا! من کی دنیا سوز و مستی، جذب و شوق
تن کی دنیا! تن کی دنیا سُود و سودا، مکر و فن
برگِ گُل پر رکھ گئی شبنم کا موتی بادِ صبح
اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن
حُسنِ بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھّے کہ بَن
پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اُکسانے لگا مُرغِ چمن
پھُول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اُودے اُودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن
امینِ راز ہے مردانِ حُر کی درویشی
کہ جبرئیلؑ سے ہے اس کو نسبتِ خویشی
کسے خبر کہ سفینے ڈبو چُکی کتنے
فقِیہ و صوفی و شاعر کی نا خوش اندیشی
طبیبِ عشق نے دیکھا مجھے تو فرمایا
ترا مَرض ہے فقط آرزو کی بے نیشی
کوہ شگاف تیری ضرب، تجھ سے کُشادِ شرق و غرب
تیغِ ہلال کی طرح عیش نیام سے گزر
تیرا امام بے حضور، تیری نماز بے سُرور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر!
تُو ابھی رہ گزر میں ہے، قیدِ مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر، پارس و شام سے گزر
جس کا عمل ہے بے غرض، اُس کی جزا کچھ اور ہے
حُور و خِیام سے گزر، بادہ و جام سے گزر
کس کی نمود کے لیے شام و سحر ہیں گرمِ سَیر
شانۂ روزگار پر بارِ گراں ہے تُو کہ مَیں
تُو کفِ خاک و بے بصر، مَیں کفِ خاک و خودنِگر
کِشتِ وجود کے لیے آبِ رواں ہے تُو کہ مَیں
عالِم آب و خاک و باد! سِرِّ عیاں ہے تُو کہ مَیں
وہ جو نظر سے ہے نہاں، اُس کا جہاں ہے تُو کہ مَیں
وہ شبِ درد و سوز و غم، کہتے ہیں زندگی جسے
اُس کی سحَر ہے تو کہ مَیں، اُس کی اذاں ہے تُو کہ مَیں
عجب مزا ہے، مجھے لذّتِ خودی دے کر
وہ چاہتے ہیں کہ مَیں اپنے آپ میں نہ رہوں
ضمیرِ پاک و نگاہِ بلند و مستیِ شوق
نہ مال و دولتِ قاروں، نہ فکرِ افلاطوں
سبق مِلا ہے یہ معراجِ مصطفیٰؐ سے مجھے
کہ عالمِ بشَرِیّت کی زد میں ہے گردُوں
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے ’کُنْ فَیَکُوںْ‘
علاج آتشِ رومیؔ کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
Dono tangain = injured
Right arm = injured
Fever 🤢 + headache
Dua krain k Allah mujh par apni nazr.e.rehmat jari rakhay farmaen pory ramzan or bahd me b..
یہ کون غزل خواں ہے پُرسوز و نشاط انگیز
اندیشۂ دانا کو کرتا ہے جُنوں آمیز
گو فقر بھی رکھتا ہے اندازِ ملوکانہ
نا پُختہ ہے پرویزی بے سلطنتِ پرویز
اب حُجرۂ صوفی میں وہ فقر نہیں باقی
خُونِ دلِ شیراں ہو جس فقر کی دستاویز
کرتی ہے ملوکیّت آثارِ جُنوں پیدا
اللہ کے نشتر ہیں تیمور ہو یا چنگیز
یوں دادِ سخن مجھ کو دیتے ہیں عراق و پارس
یہ کافرِ ہندی ہے بے تیغ و سناں خُوںریز
اے حلقۂ درویشاں! وہ مردِ خدا کیسا
ہو جس کے گریباں میں ہنگامۂ رستاخیز
جو ذکر کی گرمی سے شُعلے کی طرح روشن
جو فکر کی سُرعت میں بجلی سے زیادہ تیز!
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain