Haaaaan.
Tab he kahun k Chand bara or chamakdar sa dikhai day Raha ta.
It's was super moon tonight.
They give it the name BLUE SUPER MOON.
ہر حال میں میرا دلِ بے قید ہے خُرّم
کیا چھینے گا غُنچے سے کوئی ذوقِ شکر خند!
چُپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبالؔ
کرتا کوئی اس بندۂ گستاخ کا مُنہ بند!
مشکل ہے کہ اک بندۂ حق بین و حق اندیش
خاشاک کے تودے کو کہے کوہِ دماوند
ہُوں آتشِ نمرود کے شُعلوں میں بھی خاموش
میں بندۂ مومن ہوں، نہیں دانۂ اسپند
پُر سوز و نظرباز و نِکوبین و کم آزار
آزاد و گرفتار و تہی کِیسہ و خورسند
درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دِلّی، نہ صفاہاں، نہ سمرقند
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے اَبلہِ مسجد ہُوں، نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہَلاہِل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسّر
تاویل سے قُرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند
فردوس جو تیرا ہے، کسی نے نہیں دیکھا
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند
مُدّت سے ہے آوارۂ افلاک مرا فکر
کر دے اسے اب چاند کی غاروں میں نظربند
یا رب! یہ جہانِ گزَراں خوب ہے لیکن
کیوں خوار ہیں مردانِ صفا کیش و ہُنرمند
گو اس کی خُدائی میں مہاجن کا بھی ہے ہاتھ
دنیا تو سمجھتی ہے فرنگی کو خداوند
حاضر ہیں کلیسا میں کباب و مئے گُلگوں
مسجد میں دھرا کیا ہے بجز مَوعظہ و پند
یہی آدم ہے سُلطاں بحر و بَر کا
This Adam—is he the sovereign of land and sea?
کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا
What can I say about such an incompetent being!
نہ خود بیں، نَے خدا بیں نے جہاں بیں
He is not able to see anything—himself, God, or the world!
یہی شہکار ہے تیرے ہُنر کا!
Is this the masterpiece of Your art?
تقدیر شکن قُوّت باقی ہے ابھی اس میں
ناداں جسے کہتے ہیں تقدیر کا زِندانی
تیرے بھی صنم خانے، میرے بھی صنم خانے
دونوں کے صنم خاکی، دونوں کے صنم فانی
اک دانشِ نُورانی، اک دانشِ بُرہانی
ہے دانشِ بُرہانی، حیرت کی فراوانی
اس پیکرِ خاکی میں اک شے ہے، سو وہ تیری
میرے لیے مشکل ہے اُس شے کی نگہبانی
اب کیا جو فغاں میری پہنچی ہے ستاروں تک
تُو نے ہی سِکھائی تھی مجھ کو یہ غزل خوانی
خدائی اہتمامِ خشک و تر ہے
To be God is to have charge of land and sea;
خداوندا! خدائی دردِ سر ہے
Being God is nothing but a headache!
و لیکن بندگی، استغفر اللہ!
But being a servant of God? God forbid!
یہ دردِ سر نہیں، دردِ جگر ہے
That is no headache—it is a heartache!
عشق کی اِک جَست نے طے کر دیا قصّہ تمام
اس زمین و آسماں کو بےکراں سمجھا تھا میں
کہہ گئیں رازِ محبّت پردہ دارِیہاے شوق
تھی فغاں وہ بھی جسے ضبطِ فغاں سمجھا تھا میں
تھی کسی درماندہ رہرو کی صداے دردناک
جس کو آوازِ رحیلِ کارواں سمجھا تھا میں
اپنی جولاںگاہ زیرِ آسماں سمجھا تھا میں
آب و گِل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں
بے حجابی سے تری ٹُوٹا نگاہوں کا طلسم
اک رِدائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں
کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں
خرد واقف نہیں ہے نیک و بد سے
بڑھی جاتی ہے ظالم اپنی حد سے
خدا جانے مجھے کیا ہو گیا ہے
خرد بیزار دل سے، دِل خرد سے!
مرے ہم صفیر اسے بھی اثَرِ بہار سمجھے
My comrades thought my song were of Spring’s kindling—
انھیں کیا خبر کہ کیا ہے یہ نوائے عاشقانہ
How should they know what in Love’s notes is told?
مرے خاک و خُوں سے تُونے یہ جہاں کِیا ہے پیدا
Out of my flesh and blood You made this earth;
صِلۂ شہید کیا ہے، تب و تابِ جاودانہ
Its quenchless fever the martyr’s crown of gold.
تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ زمانہ
وہ ادب گہِ محبّت، وہ نِگہ کا تازیانہ
یہ بُتانِ عصرِ حاضر کہ بنے ہیں مدرَسے میں
نہ ادائے کافرانہ، نہ تراشِ آزرانہ
نہیں اس کھُلی فضا میں کوئی گوشۂ فراغت
یہ جہاں عجب جہاں ہے، نہ قفَس نہ آشیانہ
کبھی تنہائیِ کوہ و دمن عشق
Love, sometimes, is the solitude of Nature;
کبھی سوز و سرُور و انجمن عشق
It is, sometime, merrymaking and company-seeking:
کبھی سرمایۂ محراب و منبر
Sometime the legacy of the mosque and the pulpit,
کبھی مولا علیؓ خیبر شکن عشق!
Sometime Lord Ali the Vanquisher of the Khyber!
مِری مشّاطگی کی کیا ضرورت حُسنِ معنی کو
Truth has no need of me for tiring-maid;
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حِنابندی
To stain the tulip red is Nature’s care.
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سِکھائے کس نے اسمٰعیلؑ کو آدابِ فرزندی
زیارتگاہِ اہلِ عزم و ہمّت ہے لحَد میری
کہ خاکِ راہ کو میں نے بتایا رازِ الوندی
حجاب اِکسیر ہے آوارۂ کوئے محبّت کو
مِری آتش کو بھڑکاتی ہے تیری دیر پیوندی
گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذلّت ہے کارِ آشیاںبندی
متاعِ بےبہا ہے درد و سوزِ آرزومندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی
ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain