نہ مے، نہ شعر، نہ ساقی، نہ شورِ چنگ و رباب
Now I find no charm or grace in song and ale, or harp and lute:
سکُوتِ کوہ و لبِ جُوے و لالۂ خودرُو!
To me appeal the tulips wild, the riverside and mountains mute.
مِٹا دیا مرے ساقی نے عالمِ من و تو
پِلا کے مجھ کو مئے ’لاَ اِلٰہَ اِلاَّ ھُو‘
وہی اصلِ مکان و لامکاں ہے
To be God is to have charge of land and sea;
مکاں کیا شے ہے، اندازِ بیاں ہے
Being God is nothing but a headache!
خِضَر کیونکر بتائے، کیا بتائے
But being a servant of God? God forbid!
اگر ماہی کہے دریا کہاں ہے
That is no headache—it is a heartache!
نہیں ہے نا اُمید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بہت زرخیز ہے ساقی
فقیرِ راہ کو بخشے گئے اسرارِ سُلطانی
بَہا میری نوا کی دولتِ پرویز ہے ساقی
حرم کے دل میں سوزِ آرزو پیدا نہیں ہوتا
کہ پیدائی تری اب تک حجاب آمیز ہے ساقی
نہ اُٹھّا پھر کوئی رومیؔ عجم کے لالہزاروں سے
وہی آب و گِلِ ایراں، وہی تبریز ہے ساقی
Nikamo koi to Kam ki bt BTA do
k category section me subscribed category me post kesy dalon??????? 
دِگرگُوں ہے جہاں، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
دل ہر ذرّہ میں غوغائے رستاخیز ہے ساقی
متاعِ دین و دانش لُٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خُوںریز ہے ساقی
وہی دیرینہ بیماری، وہی نا محکمی دل کی
علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی
بنایا عشق نے دریائے ناپیدا کراں مجھ کو
یہ میری خود نِگہداری مرا ساحل نہ بن جائے
کہیں اس عالمِ بے رنگ و بُو میں بھی طلب میری
وہی افسانۂ دُنبالۂ محمل نہ بن جائے
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹُوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے
پریشاں ہوکے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
جو مشکل اب ہے یا رب پھر وہی مشکل نہ بن جائے
نہ کر دیں مجھ کو مجبورِ نوا فردوس میں حُوریں
مرا سوزِدُروں پھر گرمیِ محفل نہ بن جائے
کبھی چھوڑی ہُوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
کھٹک سی ہے جو سینے میں، غمِ منزل نہ بن جائے
وہ عشق جس کی شمع بُجھا دے اجل کی پھُونک
اُس میں مزا نہیں تپش و انتظار کا
کر پہلے مجھ کو زندگیِ جاوداں عطا
پھر ذوق و شوق دیکھ دلِ بے قرار کا
کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو
یا رب، وہ درد جس کی کسک لازوال ہو!