JuMa MuBarak..
آں عزمِ بلند آور آں سوزِ جگر آور
Nourish that lofty will and burning heart,
شمشیرِ پدر خواہی بازوے پدر آور
get back your father’s arms if thou wish’st to have his sword.
خود آگاہی نے سِکھلا دی ہے جس کو تن فراموشی
حرام آئی ہے اُس مردِ مجاہد پر زِرہ پوشی
سرما کی ہواؤں میں ہے عُریاں بدن اس کا
دیتا ہے ہُنر جس کا امیروں کو دوشالہ
اُمّید نہ رکھ دولتِ دنیا سے وفا کی
رَم اس کی طبیعت میں ہے مانندِ غزالہ
حاجت نہیں اے خطّۂ گُل شرح و بیاں کی
تصویر ہمارے دلِ پُر خوں کی ہے لالہ
تقدیر ہے اک نام مکافاتِ عمل کا
دیتے ہیں یہ پیغام خدایانِ ہمالہ
مری اسیری پہ شاخِ گُل نے یہ کہہ کے صیّاد کو رُلایا
کہ ایسے پُرسوز نغمہ خواں کا گراں نہ تھا مجھ پہ آشیانہ
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہُوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
1st day of new job wasn't too good neither too bad..
Should I continue 🤔
غلام قوموں کے علم و عرفاں کی ہے یہی رمزِ آشکارا
زمیں اگر تنگ ہے تو کیا ہے، فضائے گردُوں ہے بے کرانہ
حریف اپنا سمجھ رہے ہیں مجھے خدایانِ خانقاہی
اُنھیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ ہو سنگِ آستانہ
کنارِ دریا خضَر نے مجھ سے کہا بہ اندازِ محرمانہ
سکندری ہو، قلندری ہو، یہ سب طریقے ہیں ساحرانہ
ضمیرِ مغرب ہے تاجرانہ، ضمیرِ مشرق ہے راہبانہ
وہاں دِگرگُوں ہے لحظہ لحظہ، یہاں بدلتا نہیں زمانہ
شکوہِ عید کا منکر نہیں ہوں مَیں، لیکن
قبولِ حق ہیں فقط مردِ حُر کی تکبیریں
حکیم میری نواؤں کا راز کیا جانے
ورائے عقل ہیں اہلِ جُنوں کی تدبیریں
قلندرانہ ادائیں، سکندرانہ جلال
یہ اُمّتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں
خودی سے مردِ خود آگاہ کا جمال و جلال
کہ یہ کتاب ہے، باقی تمام تفسیریں
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صُبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کمالِ صدق و مروّت ہے زندگی ان کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
ضمیرِ جہاں اس قدر آتشیں ہے
کہ دریا کی موجوں سے ٹُوٹے ستارے
زمیں کو فراغت نہیں زلزلوں سے
نُمایاں ہیں فِطرت کے باریک اشارے
ہمالہ کے چشمے اُبلتے ہیں کب تک
خضَر سوچتا ہے وُلر کے کنارے!
دِگرگُوں جہاں اُن کے زورِ عمل سے
بڑے معرکے زندہ قوموں نے مارے
مُنجّم کی تقویمِ فردا ہے باطل
گرے آسماں سے پُرانے ستارے
تمام عارف و عامی خودی سے بیگانہ
کوئی بتائے یہ مسجد ہے یا کہ میخانہ
یہ راز ہم سے چھُپایا ہے میر واعظ نے
کہ خود حرم ہے چراغِ حرم کا پروانہ
طلسمِ بے خَبری، کافری و دِیں داری
حدیثِ شیخ و برہِمن فُسون و افسانہ
آزاد کی رگ سخت ہے مانندِ رگِ سنگ
محکوم کی رگ نرم ہے مانندِ رگِ تاک
محکوم کا دل مُردہ و افسردہ و نومید
آزاد کا دل زندہ و پُرسوز و طرب ناک
آزاد کی دولت دلِ روشن، نفسِ گرم
محکوم کا سرمایہ فقط دیدۂ نم ناک
سمجھا لہُو کی بوند اگر تُو اسے تو خیر
دِل آدمی کا ہے فقط اک جذبۂ بلند
گردش مہ و ستارہ کی ہے ناگوار اسے
دل آپ اپنے شام و سحَر کا ہے نقش بند
جس خاک کے ضمیر میں ہے آتشِ چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند
حیات است در آتشِ خود تپیدن
life is to burn in one’s fire:
خوش آں دم کہ ایں نکتہ را بازیابی
happy is the man who grasps this truth.
اگر زآتشِ دل شرارے بگیری
If thou snatch’st a spark from heart’s fire,
تواں کرد زیرِ فلک آفتابی
thou canst be a sun under the sky.
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain