تجھے خود اپنی نگاہوں پہ اعتماد نہیں میرے قریب نہ آؤ بڑا اندھیرا ہے وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں انہیں کہیں سے بلاؤ بڑا اندھیرا ہے ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے ابھی فریب نہ کھاؤ بڑا اندھیرا ہے
یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں تیری محفل کا بہرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں دور تک کوئی ستارہ ہے نہ جگنو مرگ امید کے آثار نظر آتے ہیں میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں کل جنہیں چھو نہ سکتی تھی فرشتوں کی نظر آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں حشر میں کون میری گواہی دے گا ساغر سب تمہارے ہی طرف دار نظر آتے ہیں
روداد محبت کیا کہئے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے وہ دن کی مسرت کیا کہئے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں وہ ہوش کی مدت کیا کہئے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے اب وقت کے نازک ہونٹوں پر مجروح ترنم رقصاں ہے بیداد مشیت کیا کہئے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے احساس کے میخانے میں کہاں اب فکر نظر کی قندیلیں آلام کی شدت کیا کہئے کچھ یاد رہی کچھ بھول کچھ حال کے اندھے ساتھی تھے کچھ ماضی کے عیار سجن احباب کی چاہت کیا کہئے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے کانٹوں سے بھرا ہے دامن دل شبنم کی سلگتیں ہیں آنکھیں پھولوں کی سخاوت کیا کہئے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے اب اپنی حقیقت بھی ساغر بے ربط کہانی لگتی ہے دنیا کی حقیقت کیا کہئے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
بات پھولوں کی سنا کرتے تھے ہم کبھی شعر کہا کرتے تھے مشعلیں لے کہ تمہارے غم کی ہم اندھیروں میں چلا کرتے تھے اب کہاں ایسی طبیعت والے چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے بکھری بکھری زلفوں والے قافلے روک لیا کرتے تھے
پرکھنا مت۔۔ پرکھنے میں کوئی اپنا نہیں رہتا کسی بھی آئینہ میں دیر تک چہرہ نہیں رہتا بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا جہاں دریا سمندر سے ملا ، دریا نہیں رہتا تمہارا شہر تو بالکل نئے انداز والا ہے ہمارے شہر میں بھی اب ، کوئی ہم سا نہیں رہتا محبت میں تو خوشبو ہے ہمیشہ ساتھ چلتی ہے کوئی انسان تنہائی میں بھی ، تنہا نہیں رہتا
ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے جو آج تو ہوتے ہیں مگر کل نہیں ہوتے اندر کی فضاؤں کے کرشمے بھی عجب ہیں مینہ ٹوٹ کے برسے بھی تو بادل نہیں ہوتے کچھ مشکلیں ایسی ہیں کہ آسان نہیں ہوتی کچھ ایسے معمے ہیں کہ کبھی حل نہیں ہوتے شائستگئ غم کے سبب آنکھوں کے صحرا نمناک تو ہو جاتے ہیں جل تھل نہیں ہوتے کیسے ہی تلاطم ہوں مگر قلزم جاں میں کچھ یاد جزیرے ہیں کہ اوجھل نہیں ہوتے عشاق کے مانند کئی اہل ہوس بھی پاگل تو نظر آتے ہیں پاگل نہیں ہوتے سب خواہشیں پوری ہوں ایسا نہیں ہے جیسے کئی اشعار مکمل نہیں ہوتے
روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے ایک دیوانہ مسافر ہے میری آنکھوں میں وقت بے وقت ٹھہر جاتا ہے چل پڑتا ہے اپنی تعبیر کے چکر میں میرا جاگتا خواب روز سورج کی طرح گھر سے نکل پڑتا ہے روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں روز شیشوں سی کوئی کام نکل پڑتا ہے اس کی یاد آئی ہے سانسوں زرا آہستہ چلو دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے منزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیں منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے میری نگاہ شوق سے ہرگل ہے دیوتا میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجیے نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیے گم سم کھڑی ہیں، دونوں جہاں کی حقیقتیں میں ان سے کہہ رہا ہوں مجھے یاد کیجیے ساغر کسی کے حسن تغافل شعار کی بہکی ہوئی ادا ہوں مجھے یاد کیجیے
کہا تھا کس نے عہد وفا کرو اس سے جو یوں کیا ہے تو پھر کیوں گلہ کرو اس سے نصیب پھر کوئی تقریب قرب ہو کہ نہ ہو جو دل میں ہو وہی باتیں کرو اس سے یہ اہل بزم تنک حوصلہ سہی پھر بھی ذرا فسانئہ دل ابتدا کرو اس سے یہ کیا کہ تم ہی غم ہجر کے فسانے کہو کبھی تو اس کے بہانے سنا کرو اس سے فراز ترک تعلق تو خیر کیا یو گا یہی بہت ہے کہ کم کم ملا کرو اس سے
اب کی ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی یہ خزانے تجھے ممکن ہے خوابوں میں ملیں غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو نشہ بڑھتا ہے شرابیں تو شرابوں میں ملیں تو خدا ہے نہ میرا عشق فرشتوں جیسا دونوں انسان ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں آج ہم دار پر کھینچے گئے جن باتوں پر کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں اب وہ نہ میں ہوں نہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فراز جیسے وہ سائے تمنا کے سرابوں میں ملیں
وہ جو بھولے ہیں تو پھر یاد نہ کرواؤ اس ویرانے میں آج میرا تماشہ نہ بناؤ ہاں مجھے مان ہے اس پر لیکن پھر بھی اس کے نام سے مت ستاؤ اگر کچھ کر نہیں سکتے تو بہرحال میری مشکل بھی مت بڑھاؤ چلو چھوڑو ساری باتوَں کو اس کے نئے گھر کا پتہ معلوم ہو تو بتاؤ
پرانی محبوبہ کے نام اس طرح ستانے کی ضرورت کیا تھی کمینی۔۔ دل کو جلانے کی ضرورت کیا تھی جو نہیں تھا عشق تو بھونک دیتی اپنی اوقات دکھانے کی ضرورت کیا تھی معلوم تھا کہ یہ خواب ٹوٹ جائے گا او منحوس۔۔۔ تو پھر نیند میں آنے کی ضرورت کیا تھی مان لوں کہ یہ ایک طرفہ محبت تھی تو پھر چوہی کے منہہ والی مجھے دیکھ کر مسکرانے کی ضرورت کیا تھی