زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
کل جنہیں چھو نہ سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں
ہمارے بڑوں نے شاید اس پاکستان کو آزاد کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا ہو کہ
ہم نے سوکھی ہوئی شاخوں پہ لہو چھڑکا تھا
پھول اگر اب نہ کھلتے تو قیامت کرتے
جن سے افسانئہ ہستی میں تسلسل تھا کبھی
ان محبت کی روایات نے دم توڑ دیا
اے دل بے قرار چپ ہو جا
جا چکی ہے بہار چپ ہو جا
چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچہ
تمھیں راتب مہیا کیوں کریں ہم
میری تعریف کرے یا مجھے بدنام کرے
جس نے جو بات کرنی ہے سر عام کرے
ہم سے روٹھا بھی گیا ہم کو منایا بھی گیا
پھر سبھی نقش تعلق کے مٹائے بھی گئے
اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائے ہم
یہ بھی بہت ہے تجھ کو اگر بھول جائیں ہم
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
روٹھ جانے کی ادا ہم کو بھی آتی ہے فراز
کاش ہوتا کوئی ہم کو بھی منانے والا
اپنی زوجہ کے تعارف میں کہا اک شخص نے
دل سے ان کا معترف ہوں میں زبانی ہی نہیں
چائے بھی اچھی بناتی ہے میری بیگم مگر
منہ بنانے میں تو ان کا کوئی ثانی ہی نہیں
آئینہ دیکھ زرا کیا میں غلط کہتا ہوں
تو نے خود سے بھی کوئی بات چھپا رکھی ہے
کبھی روٹی کے ٹکڑوں میں
کبھی سالن کے پیالے میں
تیری زلفوں کا دیدار
بیگم ہر نوالے میں
میں پیار لکھتی رہی وہ پیاز پڑھتا رہا
ایک نقطے نے میرے پیار کا سالن بنا دیا
ہاتھوں پر رکھ کر ہاتھ وہ پیار سے بولی
اسو ، پنجو ، ہار ، کبوتر ، ڈولی




submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain