یہ دکھ الگ کہ ہمیں رائیگاں گزرنا ہے
الگ یہ رنج کہ ہیں دکھ بھی رائیگاں اپنے
ہم ایسے لوگ کہاں منزلوں کو پاتے ہیں
ہم ایسے لوگ فقط راستے بناتے ہیں
یہ تیرے جسم کو چھو کر پتہ چلا ھے مجھے
کہ نرم پھول بہت جلد سوکھ جاتے ہیں
یہ کام ہجر میں بدعت شمار ہوتا ہے
مگر یہ دیکھ کہ ہم پھر بھی مسکراتے ہیں
ترا تو خیر کوئی تجھ سے دور ہی نہ گیا
تجھے خبر ہی نہیں سانس کیسے آتے ہیں
نظر نہ آئیں گے تجھ کو غبار اُڑنے دے
ترے لیے جو مجھے راہ سے ہٹاتے ہیں
تمہارے خواب غنیمت ہیں بجھتی آنکھوں کو
مگر یہ خواب ہمیں نیند سے جگاتے ہیں
ہمیں تو ایک اذیت ملی ہوئی ہے مگر
بتانے والے اسے زندگی بتاتے ہیں
عجب موجودگی ہے جو کمی پر مشتمل ہے
کسی کا شور میری خامشی پر مشتمل ہے
نہیں مل پاتی کوئی بھی ہنسی میری ہنسی میں
یہ واحد رنج ہے جو رنج ہی پر مشتمل ہے
کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یہ ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے ، میرے بھی دن گزر گئے
تو بھی کچھ اور،اور ہے ہم بھی کچھ اوراور ہیں
جانے وہ تو کدھر گیا، جانے وہ ہم کدھر گئے
راہوں میں ملے تھے ہم ، راہیں نصیب بن گئیں
تو بھی نہ اپنے گھر گیا، ہم بھی نہ اپنے گھر گئے
وہ بھی غبارِ خاک تھا، ہم بھی غبارِ خاک تھے
وہ بھی کہیں بکھر گیا، ہم بھی کہیں بکھر گئے
کوئی کنارِآبِ جو بیٹھا ہوا ہے سرنگوں
کشتی کدھر چلی گئی، جانے کدھر بھنور گئے
تیرے لئے چلے تھے ہم ، تیرے لئے ٹھہر گئے
تو نے کہا تو جی اٹھے، تو نے کہا تو مر گئے
وقت ہی جدائی کا اتنا طویل ہو گیا
دل میں ترے وصال کے جتنے تھے زخم بھر گئے
بارش وصل وہ ہوئی سارا غبار دُھل گیا
وہ بھی نکھر نکھر گیا ہم بھی نکھر نکھر گئے
عجیب چیز ہے یہ شوق آرزو مندی
حیات مٹ کے رہی دل خراب ہو کے رہا
روشنی ان دنوں کی بات ہے جب
دے رہا تھا کوئی دکھائی ہمیں
وہ تو ہم کب کے مر چکے ہوتے
جی رہی ہے کوئی جدائی ہمیں
گُمشدہ شخص تھا سو میں پایا گیا وہیں کہیں
خواب کی لو جہاں پڑی، خاک کا رخ جدھر ہوا
اک دن اداسیوں کی دوا ڈھونڈ لیں گے لوگ
ہم لوگ ہوں گے یا نہیں تب تک نہیں پتہ
ہم کیا خوشی غمی کی محافل میں ہوں شریک
ہم کو تو فرقِ رنج و طرب تک نہیں پتہ
بے قراری تیری فطرت میں نہ ہوتی
تو سفر ختم تھا کب کا تیری بیماری کا
مجھ کو معلوم ہے تیری شریانوں میں اب خون نہی وحشت ہے
دل لگانا تیرا اوہام کی خوشحالی سے
خواب میں خواب بکھرنے کے سوا کچھ بھی نہیں
درد کے نیزوں کا، کمزور توقع میں ترازو کا عمل
جس طرح تو نے سہا ہے یہ کوئی کیا جانے
ہم بتائیں بھی کسی کو تو کوئی کیا مانے
تجھ سا بے چینی کے دامان میں پلنے والا
کب ہے یک لخت بدلنے والا
تیری معصوم تمناؤں کے زخموں پہ رکھوں اپنی دعا کے بوسے
جس طرح تو نے دلاسے لیے تنہائی سے
غیر لوگوں سے پناہیں مانگیں
سائبانوں کے لئے ہاتھ اٹھائے تو نے
یہ جو آیا ہے پڑاؤ سا تیرے رستے میں
یہ تو آغاز ہے لاچاری کا
بے قراری تیری فطرت میں نہ ہوتی
تو سفر ختم تھا کب کا تیری بیماری کا
دل لگانا تیرا اوہام کی خوشحالی سے
خواب میں خواب بکھرنے کے سوا کچھ بھی نہیں
کیا یہ عجیب نہیں کہ کچھ لوگ رات میں کسی کو یاد کرتے ہوئے جاگ رہے ہوتے ہیں اور دوسرے اس حقیقت سے غافل ہوتے ہیں کہ کوئی انہیں یاد کر رہا ہے۔ لوگوں کی زندگیوں اور تجربات کی اس مختلفیت کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے
اسکی فطرت میں نہ تها ترک تعلق لیکن
دوسرے شخص کو اس نہج پہ پہنچا دینا
کثرتِ غم بھی میرے غم کا مداوا نہ ہوئی
میرے بے چین خیالوں کو سکون مل نہ سکا
دل نے دنیا کے ہر اک درد کو اپنا تو لیا
مضمحل روح کو اندازِ جنوں مل نہ سکا
ساحر لدھیانوی
تیری آنکھوں کی سمت وہ دیکھے
جس نے خوابوں میں خواب دیکھے ہوں
اَدھ کھلے آفتاب دیکھے ہوں
تیری آنکھوں کا رَمز وہ سمجھے
جس نے ہستی کے بھید کھولے ہوں
دیوتاؤں کے دِل ٹٹولے ہوں
تیری آنکھوں کی وہ کرے پُوجا
کُفر جس کا جہاں پہ بھاری ہو
جس پہ بس لا اِلہ طاری ہو
تیری آنکھوں کو وہ بیان کرے
جو نئے لفظ ڈھال سکتا ہو
اپنی حیرت سنبھال سکتا ہو
بچھڑ کے تجھ سے ابھی تک یہ واہمہ ہے مجھے
ہر ایک شخص سے بڑھ کر تو چاہتا ہے مجھے
فلک پہ کس کو طلب ہے کہ اس خرابے میں
جلا کے دیپ کوئی روز ڈھونڈتا ہے مجھے
یہ کیسا وقت کا دریا ہے لمحہ لمحہ کوئی
مجھے خبر بھی نہیں اور بہا رہا ہے مجھے
ستارے ہیں کہ یہ نگران مجھ پہ آنکھیں ہیں
افق کے پار کوئی ہے جو دیکھتا ہے مجھے
رات جاگی تو کہیں صحن میں سوکھے پتے
چرمرائے کہ کوئی آیا، کوئی آیا ہے
اور ہم شوق کے مارے ہوئے دوڑے آئے
گو کہ معلوم ہے، تو ہے نہ تیرا سایہ ہے
ہم کہ دیکھیں کبھی دالان، کبھی سوکھا چمن
اس پہ دھیمی سی تمنا کہ پکارے جائیں
پھر سے اک بار تیری خواب سی آنکھیں دیکھیں
پھر تیرے ہجر کے ہاتھوں ہی بھلے مارے جائیں
ہم تجھے اپنی صداؤں میں بسانے والے
اتنا چیخیں کہ تیرے وہم لپٹ کر روئیں
پر تیرے وہم بھی تیری ہی طرح قاتل ہیں
سو وہی درد ہے جاناں، کہو کیسے سوئیں
بس اسی کرب کے پہلو میں گزارے ہیں پہر
بس یونہی غم کبھی کافی کبھی تھوڑے آئے
پھر اچانک کسی لمحے میں جو چٹخے پتے
ہم وہی، شوق کے مارے ہوئے دوڑے آئے
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
وقت کے طولِ المناک کے پروردہ ہیں
ایک تاریک ازل، نورِ ابد سے خالی
ہم جو صدیوں سے چلے ہیں
تو سمجھتے ہیں کہ ساحل پایا
اپنی تہذیب کی پاکوبی کا حاصل پایا
ہم محبّت کے نہاں خانوں میں بسنے والے
اپنی پامالی کے افسانوں پہ ہنسنے والے
ہم سمجھتے ہیں نشانِ سرِ منزل پایا
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
کنجِ ماضی میں ہیں
باراں زدہ طائر کی طرح آسُودہ
اور کبھی فتنۂ ناگاہ سے ڈر کر چونکیں
تو رھیں سدِّ نگاہ نیند کے بھاری پردے
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
ریگِ دیروز میں خوابوں کے شجر بوتے رہے
سایہ ناپید تھا سائے کی تمنّا کے تلے سوتے رہے
ہمیں محبت نے کیا دیا ہے
یہ عمر بھر کے اجاڑ رستے اداس شامیں
یہ سوگواری یہ آه و زاری
میں جانتا ہوں میری طرح سے
خود اُس کے اندر گئے دنوں کی
رفاقتوں کے تمام موسم چٹخ رہے ہیں
وه سرد موسم میں کھڑکی کھولے
ہوا کی خنکی کو اپنے اندر اتارتی ہے تو سوچتی ہے
یہ سرد شامیں تو زندگی بھر ہمیں اکٹھے گزارنی تھیں
کہیں پہ کچھ تو غلط ہوا ہے جو اسطرح ہم
ٹھٹھرتے سورج کی زرد کرنوں
میں لپٹے وعدوں کو مصلحت کی
اندھیری قبروں میں دفن کر کے سسک رہے ہیں
کہیں پہ کچھ تو غلط ہوا ہے جو آج دونوں
ہم اپنے اپنے اداس کمروں میں سر نیہوڑے
سسکتی یادوں کا غم اٹھائے
بلک رہے ہیں بھٹک رہے ہیں
ہے خدا سے مناظرہ درپیش
آ گیا کون تیسرا جاناں
ہے وہ غربت کہ اب مرے دل میں
کچھ نہیں ہے مرے سوا جاناں
🥀___ جون ایلیاء
کیا تیرا حال بھی اے انجمن آرا ہے یہی
میں تیرے پاس ہوں لیکن وہی تنہائی ہے
اِس بار وہ تلخی ہے کہ رُوٹھے بھی نہیں ہم
اب کے وہ لڑائی ہے کہ جھگڑا نہ کریں گے
یاں اُس کے سلیقے کے ہیں آثار تو کیا ہم
اِس پر بھی یہ کمرا تہ و بالا نہ کریں گے
اب نغمہ طرازانِ بَراَفروختہ اے شہر
واسوخت کہیں گے غزل انشا نہ کریں گے
ایسا ہے کہ سینے میں سُلگتی ہیں خراشیں
اب سانس بھی ہم لیں گے تو اچھا نہ کریں گے
🥀___ جون ایلیاء
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain