Damadam.pk
Farah-Malik's posts | Damadam

Farah-Malik's posts:

Farah-Malik
 

گُمشدہ شخص تھا سو میں پایا گیا وہیں کہیں
خواب کی لو جہاں پڑی، خاک کا رخ جدھر ہوا

Farah-Malik
 

اک دن اداسیوں کی دوا ڈھونڈ لیں گے لوگ
ہم لوگ ہوں گے یا نہیں تب تک نہیں پتہ
ہم کیا خوشی غمی کی محافل میں ہوں شریک
ہم کو تو فرقِ رنج و طرب تک نہیں پتہ

Farah-Malik
 

بے قراری تیری فطرت میں نہ ہوتی
تو سفر ختم تھا کب کا تیری بیماری کا
مجھ کو معلوم ہے تیری شریانوں میں اب خون نہی وحشت ہے
دل لگانا تیرا اوہام کی خوشحالی سے
خواب میں خواب بکھرنے کے سوا کچھ بھی نہیں
درد کے نیزوں کا، کمزور توقع میں ترازو کا عمل
جس طرح تو نے سہا ہے یہ کوئی کیا جانے
ہم بتائیں بھی کسی کو تو کوئی کیا مانے
تجھ سا بے چینی کے دامان میں پلنے والا
کب ہے یک لخت بدلنے والا
تیری معصوم تمناؤں کے زخموں پہ رکھوں اپنی دعا کے بوسے
جس طرح تو نے دلاسے لیے تنہائی سے
غیر لوگوں سے پناہیں مانگیں
سائبانوں کے لئے ہاتھ اٹھائے تو نے
یہ جو آیا ہے پڑاؤ سا تیرے رستے میں
یہ تو آغاز ہے لاچاری کا
بے قراری تیری فطرت میں نہ ہوتی
تو سفر ختم تھا کب کا تیری بیماری کا
دل لگانا تیرا اوہام کی خوشحالی سے
خواب میں خواب بکھرنے کے سوا کچھ بھی نہیں

Farah-Malik
 

کیا یہ عجیب نہیں کہ کچھ لوگ رات میں کسی کو یاد کرتے ہوئے جاگ رہے ہوتے ہیں اور دوسرے اس حقیقت سے غافل ہوتے ہیں کہ کوئی انہیں یاد کر رہا ہے۔ لوگوں کی زندگیوں اور تجربات کی اس مختلفیت کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے

Farah-Malik
 

اسکی فطرت میں نہ تها ترک تعلق لیکن
دوسرے شخص کو اس نہج پہ پہنچا دینا

Farah-Malik
 

کثرتِ غم بھی میرے غم کا مداوا نہ ہوئی
میرے بے چین خیالوں کو سکون مل نہ سکا
دل نے دنیا کے ہر اک درد کو اپنا تو لیا
مضمحل روح کو اندازِ جنوں مل نہ سکا
ساحر لدھیانوی

Farah-Malik
 

تیری آنکھوں کی سمت وہ دیکھے
جس نے خوابوں میں خواب دیکھے ہوں
اَدھ کھلے آفتاب دیکھے ہوں
تیری آنکھوں کا رَمز وہ سمجھے
جس نے ہستی کے بھید کھولے ہوں
دیوتاؤں کے دِل ٹٹولے ہوں
تیری آنکھوں کی وہ کرے پُوجا
کُفر جس کا جہاں پہ بھاری ہو
جس پہ بس لا اِلہ طاری ہو
تیری آنکھوں کو وہ بیان کرے
جو نئے لفظ ڈھال سکتا ہو
اپنی حیرت سنبھال سکتا ہو

Farah-Malik
 

بچھڑ کے تجھ سے ابھی تک یہ واہمہ ہے مجھے
ہر ایک شخص سے بڑھ کر تو چاہتا ہے مجھے
فلک پہ کس کو طلب ہے کہ اس خرابے میں
جلا کے دیپ کوئی روز ڈھونڈتا ہے مجھے
یہ کیسا وقت کا دریا ہے لمحہ لمحہ کوئی
مجھے خبر بھی نہیں اور بہا رہا ہے مجھے
ستارے ہیں کہ یہ نگران مجھ پہ آنکھیں ہیں
افق کے پار کوئی ہے جو دیکھتا ہے مجھے

Farah-Malik
 

رات جاگی تو کہیں صحن میں سوکھے پتے
چرمرائے کہ کوئی آیا، کوئی آیا ہے
اور ہم شوق کے مارے ہوئے دوڑے آئے
گو کہ معلوم ہے، تو ہے نہ تیرا سایہ ہے
ہم کہ دیکھیں کبھی دالان، کبھی سوکھا چمن
اس پہ دھیمی سی تمنا کہ پکارے جائیں
پھر سے اک بار تیری خواب سی آنکھیں دیکھیں
پھر تیرے ہجر کے ہاتھوں ہی بھلے مارے جائیں
ہم تجھے اپنی صداؤں میں بسانے والے
اتنا چیخیں کہ تیرے وہم لپٹ کر روئیں
پر تیرے وہم بھی تیری ہی طرح قاتل ہیں
سو وہی درد ہے جاناں، کہو کیسے سوئیں
بس اسی کرب کے پہلو میں گزارے ہیں پہر
بس یونہی غم کبھی کافی کبھی تھوڑے آئے
پھر اچانک کسی لمحے میں جو چٹخے پتے
ہم وہی، شوق کے مارے ہوئے دوڑے آئے

Farah-Malik
 

ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
وقت کے طولِ المناک کے پروردہ ہیں
ایک تاریک ازل، نورِ ابد سے خالی
ہم جو صدیوں سے چلے ہیں
تو سمجھتے ہیں کہ ساحل پایا
اپنی تہذیب کی پاکوبی کا حاصل پایا
ہم محبّت کے نہاں خانوں میں بسنے والے
اپنی پامالی کے افسانوں پہ ہنسنے والے
ہم سمجھتے ہیں نشانِ سرِ منزل پایا
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
کنجِ ماضی میں ہیں
باراں زدہ طائر کی طرح آسُودہ
اور کبھی فتنۂ ناگاہ سے ڈر کر چونکیں
تو رھیں سدِّ نگاہ نیند کے بھاری پردے
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
ریگِ دیروز میں خوابوں کے شجر بوتے رہے
سایہ ناپید تھا سائے کی تمنّا کے تلے سوتے رہے

Farah-Malik
 

ہمیں محبت نے کیا دیا ہے
یہ عمر بھر کے اجاڑ رستے اداس شامیں
یہ سوگواری یہ آه و زاری
میں جانتا ہوں میری طرح سے
خود اُس کے اندر گئے دنوں کی
رفاقتوں کے تمام موسم چٹخ رہے ہیں
وه سرد موسم میں کھڑکی کھولے
ہوا کی خنکی کو اپنے اندر اتارتی ہے تو سوچتی ہے
یہ سرد شامیں تو زندگی بھر ہمیں اکٹھے گزارنی تھیں
کہیں پہ کچھ تو غلط ہوا ہے جو اسطرح ہم
ٹھٹھرتے سورج کی زرد کرنوں
میں لپٹے وعدوں کو مصلحت کی
اندھیری قبروں میں دفن کر کے سسک رہے ہیں
کہیں پہ کچھ تو غلط ہوا ہے جو آج دونوں
ہم اپنے اپنے اداس کمروں میں سر نیہوڑے
سسکتی یادوں کا غم اٹھائے
بلک رہے ہیں بھٹک رہے ہیں

Farah-Malik
 

ہے خدا سے مناظرہ درپیش
آ گیا کون تیسرا جاناں
ہے وہ غربت کہ اب مرے دل میں
کچھ نہیں ہے مرے سوا جاناں
🥀___ جون ایلیاء

Farah-Malik
 

کیا تیرا حال بھی اے انجمن آرا ہے یہی
میں تیرے پاس ہوں لیکن وہی تنہائی ہے

Farah-Malik
 

اِس بار وہ تلخی ہے کہ رُوٹھے بھی نہیں ہم
اب کے وہ لڑائی ہے کہ جھگڑا نہ کریں گے
یاں اُس کے سلیقے کے ہیں آثار تو کیا ہم
اِس پر بھی یہ کمرا تہ و بالا نہ کریں گے
اب نغمہ طرازانِ بَراَفروختہ اے شہر
واسوخت کہیں گے غزل انشا نہ کریں گے
ایسا ہے کہ سینے میں سُلگتی ہیں خراشیں
اب سانس بھی ہم لیں گے تو اچھا نہ کریں گے
🥀___ جون ایلیاء

Farah-Malik
 

نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

Farah-Malik
 

اک کمال کی خواہش کس طرح سجاتے ہو
مصلحت کی شاموں میں محفلیں محبت کی
اور محبتیں بھی وہ سال بھر مہک جن کی
دل کی ساری گلیوں میں رقص کرتی پھرتی ہے
کس طرح جلاتے ہو آندھیوں کے موسم میں
تم دیے رفاقت کے، تم جو پیار کی دولت
اپنےدل کے ہاتھوں سے خوشبوؤں کی باتوں سے
اس طرح لٹاتے ہو جس طرح کوئی جگنو
شب کے ریگزاروں پر روشنی لٹاتا ہے
تم جو حبس موسم میں اک ہوا کا جھونکا ہو
کس طرح سجاتے ہو مصلحت کی شاموں میں
محفلیں محبت کی کچھ ہمیں بھی بتلاؤ
کچھ ہمیں بھی سکھلاؤ
ہم تو اپنے صحرا کے بےنوا مسافر ہیں
ہم تمہارے جزبوں کی نیک سی فضاؤں میں
پھول جیسے گیتوں کی رقص کرتی خوشبو کے
بے قرار شاعر ہیں

Farah-Malik
 

وہ جو تھا اس کو مِلا کیا مجھ سے
اس کو تو خواب ہی سمجھا میں نے
دل جلانا کوئی حاصل تو نہ تھا
آخرِ کار کیا کیا میں نے
🥀__ جون ایلیاء

Farah-Malik
 

زندگی کوُئے ملامت میں تو اب آئی ہے
اور کچھ چاہنے والوں کے سبب آئی ہے
میری پوشاک میں تارے سے اچانک چمکے
تیرے آنگن سے یہ ہوتی ہوئی شب آئی ہے
کون سے پھول تھے کل رات تیرے بستر پر
آج خوشبو تیرے پہلو سے عجب آئی ہے

Farah-Malik
 

اے میرے جذبہء اظہار کی بے نام کسک
صرف لذت تو نہیں حاصلِ رندی و گناہ
ذہن کی سطح پہ بہتے ہُوئے آنسو بھی تو ہیں
گنگناتے ہُوئے گاتے ہُوئے دِل کے ہمراہ
میں نے ان آنکھوں کو چوما ہے انہیں چاہا ہے
جن کی جنبش سے بدل جائیں کئی تقدیریں
نرم بالوں کے تصّور کا سہارا لے کر
توڑ دی ہیں میرے ہاتھوں نے کئی زنجیریں
اے کہن زادۂ اوہام و رسُوم و تقلید
میری بدنام شرافت کو تو سمجھا ہوتا
کتنے خوں خوار برافروختہ چہروں کی قطار
مجھکو ہر راہ پہ ہر صُبح و مسا دیکھتی ہے
جن کو جینے کا سلیقہ ہے نہ مرنے کا شعور
ان کی آنکھوں کے دریچے سے قضا دیکھتی ہے
کاش ان آنکھوں سے ایک دن کوئی یہ بھی
پوچھے
کون سی حور ہے جنت میں جو دنیا میں نہیں
کون سی آگ ہے گہوارۂ دوزخ میں کہ جو
اپنے نزدیک کے اَصحابِ دل آراء میں نہیں

Farah-Malik
 

لوگوں کے دل جنت تھوڑی ہیں جن میں بسنے کے لئے آپ خود کو تھکا رہے ہیں