گُمشدہ شخص تھا سو میں پایا گیا وہیں کہیں
خواب کی لو جہاں پڑی، خاک کا رخ جدھر ہوا
اک دن اداسیوں کی دوا ڈھونڈ لیں گے لوگ
ہم لوگ ہوں گے یا نہیں تب تک نہیں پتہ
ہم کیا خوشی غمی کی محافل میں ہوں شریک
ہم کو تو فرقِ رنج و طرب تک نہیں پتہ
بے قراری تیری فطرت میں نہ ہوتی
تو سفر ختم تھا کب کا تیری بیماری کا
مجھ کو معلوم ہے تیری شریانوں میں اب خون نہی وحشت ہے
دل لگانا تیرا اوہام کی خوشحالی سے
خواب میں خواب بکھرنے کے سوا کچھ بھی نہیں
درد کے نیزوں کا، کمزور توقع میں ترازو کا عمل
جس طرح تو نے سہا ہے یہ کوئی کیا جانے
ہم بتائیں بھی کسی کو تو کوئی کیا مانے
تجھ سا بے چینی کے دامان میں پلنے والا
کب ہے یک لخت بدلنے والا
تیری معصوم تمناؤں کے زخموں پہ رکھوں اپنی دعا کے بوسے
جس طرح تو نے دلاسے لیے تنہائی سے
غیر لوگوں سے پناہیں مانگیں
سائبانوں کے لئے ہاتھ اٹھائے تو نے
یہ جو آیا ہے پڑاؤ سا تیرے رستے میں
یہ تو آغاز ہے لاچاری کا
بے قراری تیری فطرت میں نہ ہوتی
تو سفر ختم تھا کب کا تیری بیماری کا
دل لگانا تیرا اوہام کی خوشحالی سے
خواب میں خواب بکھرنے کے سوا کچھ بھی نہیں
کیا یہ عجیب نہیں کہ کچھ لوگ رات میں کسی کو یاد کرتے ہوئے جاگ رہے ہوتے ہیں اور دوسرے اس حقیقت سے غافل ہوتے ہیں کہ کوئی انہیں یاد کر رہا ہے۔ لوگوں کی زندگیوں اور تجربات کی اس مختلفیت کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے
اسکی فطرت میں نہ تها ترک تعلق لیکن
دوسرے شخص کو اس نہج پہ پہنچا دینا
کثرتِ غم بھی میرے غم کا مداوا نہ ہوئی
میرے بے چین خیالوں کو سکون مل نہ سکا
دل نے دنیا کے ہر اک درد کو اپنا تو لیا
مضمحل روح کو اندازِ جنوں مل نہ سکا
ساحر لدھیانوی
تیری آنکھوں کی سمت وہ دیکھے
جس نے خوابوں میں خواب دیکھے ہوں
اَدھ کھلے آفتاب دیکھے ہوں
تیری آنکھوں کا رَمز وہ سمجھے
جس نے ہستی کے بھید کھولے ہوں
دیوتاؤں کے دِل ٹٹولے ہوں
تیری آنکھوں کی وہ کرے پُوجا
کُفر جس کا جہاں پہ بھاری ہو
جس پہ بس لا اِلہ طاری ہو
تیری آنکھوں کو وہ بیان کرے
جو نئے لفظ ڈھال سکتا ہو
اپنی حیرت سنبھال سکتا ہو
بچھڑ کے تجھ سے ابھی تک یہ واہمہ ہے مجھے
ہر ایک شخص سے بڑھ کر تو چاہتا ہے مجھے
فلک پہ کس کو طلب ہے کہ اس خرابے میں
جلا کے دیپ کوئی روز ڈھونڈتا ہے مجھے
یہ کیسا وقت کا دریا ہے لمحہ لمحہ کوئی
مجھے خبر بھی نہیں اور بہا رہا ہے مجھے
ستارے ہیں کہ یہ نگران مجھ پہ آنکھیں ہیں
افق کے پار کوئی ہے جو دیکھتا ہے مجھے
رات جاگی تو کہیں صحن میں سوکھے پتے
چرمرائے کہ کوئی آیا، کوئی آیا ہے
اور ہم شوق کے مارے ہوئے دوڑے آئے
گو کہ معلوم ہے، تو ہے نہ تیرا سایہ ہے
ہم کہ دیکھیں کبھی دالان، کبھی سوکھا چمن
اس پہ دھیمی سی تمنا کہ پکارے جائیں
پھر سے اک بار تیری خواب سی آنکھیں دیکھیں
پھر تیرے ہجر کے ہاتھوں ہی بھلے مارے جائیں
ہم تجھے اپنی صداؤں میں بسانے والے
اتنا چیخیں کہ تیرے وہم لپٹ کر روئیں
پر تیرے وہم بھی تیری ہی طرح قاتل ہیں
سو وہی درد ہے جاناں، کہو کیسے سوئیں
بس اسی کرب کے پہلو میں گزارے ہیں پہر
بس یونہی غم کبھی کافی کبھی تھوڑے آئے
پھر اچانک کسی لمحے میں جو چٹخے پتے
ہم وہی، شوق کے مارے ہوئے دوڑے آئے
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
وقت کے طولِ المناک کے پروردہ ہیں
ایک تاریک ازل، نورِ ابد سے خالی
ہم جو صدیوں سے چلے ہیں
تو سمجھتے ہیں کہ ساحل پایا
اپنی تہذیب کی پاکوبی کا حاصل پایا
ہم محبّت کے نہاں خانوں میں بسنے والے
اپنی پامالی کے افسانوں پہ ہنسنے والے
ہم سمجھتے ہیں نشانِ سرِ منزل پایا
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
کنجِ ماضی میں ہیں
باراں زدہ طائر کی طرح آسُودہ
اور کبھی فتنۂ ناگاہ سے ڈر کر چونکیں
تو رھیں سدِّ نگاہ نیند کے بھاری پردے
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
ریگِ دیروز میں خوابوں کے شجر بوتے رہے
سایہ ناپید تھا سائے کی تمنّا کے تلے سوتے رہے
ہمیں محبت نے کیا دیا ہے
یہ عمر بھر کے اجاڑ رستے اداس شامیں
یہ سوگواری یہ آه و زاری
میں جانتا ہوں میری طرح سے
خود اُس کے اندر گئے دنوں کی
رفاقتوں کے تمام موسم چٹخ رہے ہیں
وه سرد موسم میں کھڑکی کھولے
ہوا کی خنکی کو اپنے اندر اتارتی ہے تو سوچتی ہے
یہ سرد شامیں تو زندگی بھر ہمیں اکٹھے گزارنی تھیں
کہیں پہ کچھ تو غلط ہوا ہے جو اسطرح ہم
ٹھٹھرتے سورج کی زرد کرنوں
میں لپٹے وعدوں کو مصلحت کی
اندھیری قبروں میں دفن کر کے سسک رہے ہیں
کہیں پہ کچھ تو غلط ہوا ہے جو آج دونوں
ہم اپنے اپنے اداس کمروں میں سر نیہوڑے
سسکتی یادوں کا غم اٹھائے
بلک رہے ہیں بھٹک رہے ہیں
ہے خدا سے مناظرہ درپیش
آ گیا کون تیسرا جاناں
ہے وہ غربت کہ اب مرے دل میں
کچھ نہیں ہے مرے سوا جاناں
🥀___ جون ایلیاء
کیا تیرا حال بھی اے انجمن آرا ہے یہی
میں تیرے پاس ہوں لیکن وہی تنہائی ہے
اِس بار وہ تلخی ہے کہ رُوٹھے بھی نہیں ہم
اب کے وہ لڑائی ہے کہ جھگڑا نہ کریں گے
یاں اُس کے سلیقے کے ہیں آثار تو کیا ہم
اِس پر بھی یہ کمرا تہ و بالا نہ کریں گے
اب نغمہ طرازانِ بَراَفروختہ اے شہر
واسوخت کہیں گے غزل انشا نہ کریں گے
ایسا ہے کہ سینے میں سُلگتی ہیں خراشیں
اب سانس بھی ہم لیں گے تو اچھا نہ کریں گے
🥀___ جون ایلیاء
نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے
اک کمال کی خواہش کس طرح سجاتے ہو
مصلحت کی شاموں میں محفلیں محبت کی
اور محبتیں بھی وہ سال بھر مہک جن کی
دل کی ساری گلیوں میں رقص کرتی پھرتی ہے
کس طرح جلاتے ہو آندھیوں کے موسم میں
تم دیے رفاقت کے، تم جو پیار کی دولت
اپنےدل کے ہاتھوں سے خوشبوؤں کی باتوں سے
اس طرح لٹاتے ہو جس طرح کوئی جگنو
شب کے ریگزاروں پر روشنی لٹاتا ہے
تم جو حبس موسم میں اک ہوا کا جھونکا ہو
کس طرح سجاتے ہو مصلحت کی شاموں میں
محفلیں محبت کی کچھ ہمیں بھی بتلاؤ
کچھ ہمیں بھی سکھلاؤ
ہم تو اپنے صحرا کے بےنوا مسافر ہیں
ہم تمہارے جزبوں کی نیک سی فضاؤں میں
پھول جیسے گیتوں کی رقص کرتی خوشبو کے
بے قرار شاعر ہیں
وہ جو تھا اس کو مِلا کیا مجھ سے
اس کو تو خواب ہی سمجھا میں نے
دل جلانا کوئی حاصل تو نہ تھا
آخرِ کار کیا کیا میں نے
🥀__ جون ایلیاء
زندگی کوُئے ملامت میں تو اب آئی ہے
اور کچھ چاہنے والوں کے سبب آئی ہے
میری پوشاک میں تارے سے اچانک چمکے
تیرے آنگن سے یہ ہوتی ہوئی شب آئی ہے
کون سے پھول تھے کل رات تیرے بستر پر
آج خوشبو تیرے پہلو سے عجب آئی ہے
اے میرے جذبہء اظہار کی بے نام کسک
صرف لذت تو نہیں حاصلِ رندی و گناہ
ذہن کی سطح پہ بہتے ہُوئے آنسو بھی تو ہیں
گنگناتے ہُوئے گاتے ہُوئے دِل کے ہمراہ
میں نے ان آنکھوں کو چوما ہے انہیں چاہا ہے
جن کی جنبش سے بدل جائیں کئی تقدیریں
نرم بالوں کے تصّور کا سہارا لے کر
توڑ دی ہیں میرے ہاتھوں نے کئی زنجیریں
اے کہن زادۂ اوہام و رسُوم و تقلید
میری بدنام شرافت کو تو سمجھا ہوتا
کتنے خوں خوار برافروختہ چہروں کی قطار
مجھکو ہر راہ پہ ہر صُبح و مسا دیکھتی ہے
جن کو جینے کا سلیقہ ہے نہ مرنے کا شعور
ان کی آنکھوں کے دریچے سے قضا دیکھتی ہے
کاش ان آنکھوں سے ایک دن کوئی یہ بھی
پوچھے
کون سی حور ہے جنت میں جو دنیا میں نہیں
کون سی آگ ہے گہوارۂ دوزخ میں کہ جو
اپنے نزدیک کے اَصحابِ دل آراء میں نہیں
لوگوں کے دل جنت تھوڑی ہیں جن میں بسنے کے لئے آپ خود کو تھکا رہے ہیں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain