Damadam.pk
Farah-Malik's posts | Damadam

Farah-Malik's posts:

Farah-Malik
 

ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
وقت کے طولِ المناک کے پروردہ ہیں
ایک تاریک ازل، نورِ ابد سے خالی
ہم جو صدیوں سے چلے ہیں
تو سمجھتے ہیں کہ ساحل پایا
اپنی تہذیب کی پاکوبی کا حاصل پایا
ہم محبّت کے نہاں خانوں میں بسنے والے
اپنی پامالی کے افسانوں پہ ہنسنے والے
ہم سمجھتے ہیں نشانِ سرِ منزل پایا
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
کنجِ ماضی میں ہیں
باراں زدہ طائر کی طرح آسُودہ
اور کبھی فتنۂ ناگاہ سے ڈر کر چونکیں
تو رھیں سدِّ نگاہ نیند کے بھاری پردے
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
ریگِ دیروز میں خوابوں کے شجر بوتے رہے
سایہ ناپید تھا سائے کی تمنّا کے تلے سوتے رہے

Farah-Malik
 

ہمیں محبت نے کیا دیا ہے
یہ عمر بھر کے اجاڑ رستے اداس شامیں
یہ سوگواری یہ آه و زاری
میں جانتا ہوں میری طرح سے
خود اُس کے اندر گئے دنوں کی
رفاقتوں کے تمام موسم چٹخ رہے ہیں
وه سرد موسم میں کھڑکی کھولے
ہوا کی خنکی کو اپنے اندر اتارتی ہے تو سوچتی ہے
یہ سرد شامیں تو زندگی بھر ہمیں اکٹھے گزارنی تھیں
کہیں پہ کچھ تو غلط ہوا ہے جو اسطرح ہم
ٹھٹھرتے سورج کی زرد کرنوں
میں لپٹے وعدوں کو مصلحت کی
اندھیری قبروں میں دفن کر کے سسک رہے ہیں
کہیں پہ کچھ تو غلط ہوا ہے جو آج دونوں
ہم اپنے اپنے اداس کمروں میں سر نیہوڑے
سسکتی یادوں کا غم اٹھائے
بلک رہے ہیں بھٹک رہے ہیں

Farah-Malik
 

کیا تیرا حال بھی اے انجمن آرا ہے یہی
میں تیرے پاس ہوں لیکن وہی تنہائی ہے

Farah-Malik
 

اِس بار وہ تلخی ہے کہ رُوٹھے بھی نہیں ہم
اب کے وہ لڑائی ہے کہ جھگڑا نہ کریں گے
یاں اُس کے سلیقے کے ہیں آثار تو کیا ہم
اِس پر بھی یہ کمرا تہ و بالا نہ کریں گے
اب نغمہ طرازانِ بَراَفروختہ اے شہر
واسوخت کہیں گے غزل انشا نہ کریں گے
ایسا ہے کہ سینے میں سُلگتی ہیں خراشیں
اب سانس بھی ہم لیں گے تو اچھا نہ کریں گے
🥀___ جون ایلیاء

Farah-Malik
 

نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

Farah-Malik
 

اک کمال کی خواہش کس طرح سجاتے ہو
مصلحت کی شاموں میں محفلیں محبت کی
اور محبتیں بھی وہ سال بھر مہک جن کی
دل کی ساری گلیوں میں رقص کرتی پھرتی ہے
کس طرح جلاتے ہو آندھیوں کے موسم میں
تم دیے رفاقت کے، تم جو پیار کی دولت
اپنےدل کے ہاتھوں سے خوشبوؤں کی باتوں سے
اس طرح لٹاتے ہو جس طرح کوئی جگنو
شب کے ریگزاروں پر روشنی لٹاتا ہے
تم جو حبس موسم میں اک ہوا کا جھونکا ہو
کس طرح سجاتے ہو مصلحت کی شاموں میں
محفلیں محبت کی کچھ ہمیں بھی بتلاؤ
کچھ ہمیں بھی سکھلاؤ
ہم تو اپنے صحرا کے بےنوا مسافر ہیں
ہم تمہارے جزبوں کی نیک سی فضاؤں میں
پھول جیسے گیتوں کی رقص کرتی خوشبو کے
بے قرار شاعر ہیں

Farah-Malik
 

زندگی کوُئے ملامت میں تو اب آئی ہے
اور کچھ چاہنے والوں کے سبب آئی ہے
میری پوشاک میں تارے سے اچانک چمکے
تیرے آنگن سے یہ ہوتی ہوئی شب آئی ہے
کون سے پھول تھے کل رات تیرے بستر پر
آج خوشبو تیرے پہلو سے عجب آئی ہے

Farah-Malik
 

اے میرے جذبہء اظہار کی بے نام کسک
صرف لذت تو نہیں حاصلِ رندی و گناہ
ذہن کی سطح پہ بہتے ہُوئے آنسو بھی تو ہیں
گنگناتے ہُوئے گاتے ہُوئے دِل کے ہمراہ
میں نے ان آنکھوں کو چوما ہے انہیں چاہا ہے
جن کی جنبش سے بدل جائیں کئی تقدیریں
نرم بالوں کے تصّور کا سہارا لے کر
توڑ دی ہیں میرے ہاتھوں نے کئی زنجیریں
اے کہن زادۂ اوہام و رسُوم و تقلید
میری بدنام شرافت کو تو سمجھا ہوتا
کتنے خوں خوار برافروختہ چہروں کی قطار
مجھکو ہر راہ پہ ہر صُبح و مسا دیکھتی ہے
جن کو جینے کا سلیقہ ہے نہ مرنے کا شعور
ان کی آنکھوں کے دریچے سے قضا دیکھتی ہے
کاش ان آنکھوں سے ایک دن کوئی یہ بھی
پوچھے
کون سی حور ہے جنت میں جو دنیا میں نہیں
کون سی آگ ہے گہوارۂ دوزخ میں کہ جو
اپنے نزدیک کے اَصحابِ دل آراء میں نہیں

Farah-Malik
 

لوگوں کے دل جنت تھوڑی ہیں جن میں بسنے کے لئے آپ خود کو تھکا رہے ہیں

Farah-Malik
 

ہیں رواں اُس راہ پر جسکی کوئی منزل نہ ہو
جستجو کرتے ہیں اسکی جو ہمیں حاصل نہ ہو
دشتِ نجدِ یاس میں دیوانگی ہو ہر طرف
ہر طرف محمل کا شک ہو پر کہیں محمل نہ ہو
وہم یہ تجھ کو عجب ہے اے جمالِ کم نما
جیسے سب کچھ ہو مگر تُو دید کے قابل نہ ہو
وہ کھڑا ہے ایک بابِ علم کی دہلیز پر
میں یہ کہتا ہوں اُسے اِس خوف میں داخل نہ ہو
چاہتا ہُوں میں اِس عُمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
منیر نیازی

Farah-Malik
 

عجیب راہگزر تھی کہ جس پہ چلتے ہُوئے
قدم رُکے بھی نہیں راستہ کٹا بھی نہیں

Farah-Malik
 

میرے ہاتھوں سے یہ اٹھتا ہوا بے کیف دھواں
میرے افسردہ خیالات کی تشہیر سہی
لمحہ لمحہ یہ سلگتا ہوا کاغذ کا وجود
تیرے عارض ترے لب کی کوئی تعبیر سہی
اسی انگارہ جاں سے کوئی کش سا لے کر
روح جب دھند کے پردے میں لپٹ جاتی ہے
تو خراماں انہی راہوں سے گزر کر جاناں
میری جلتی ہوئی آنکھوں میں اتر آتی ہے
تیری تصویر بھی اس آخری دھوئیں کے سمیت
اپنا دامن میرے ہاتھوں سے جھٹک جائے گی
اور پھر روح میری درد کا سامان لے کر
انہی راہوں انہی رستوں میں بھٹک جائے گی

Farah-Malik
 

جب منڈیروں پہ چاند کے ہمراہ
بُجھتی جاتی تھیں آخری شمعیں
کیا تیرے واسطے نہیں ترسا
اس کا مجبور مُضمَحل چہرہ
کیا تیرے واسطے نہیں جاگیں
اُس کی بیمار رحم دل آنکھیں
کیا تجھے یہ خیال ہے کہ اُسے
اپنے لٹنے کا کوئی رَنج نہیں
اس نے دیکھی ہے دن کی خونخواری
اس پہ گزری ہے شب کی عیّاری
پھر بھی تیری طرح وہ بے چاری
ساری دنیا سے شکوہ سنج نہیں
زندہ باد اے انائے جذبۂ عشق
مَرحبا اے شِکوہِ خدّامی
اسکی قربت سے تجھ کو پُھول مِلے
زندگی کے نئے اصول ملے
تیری اُلفت سے کیا مِلا اُس کو
زحمتیں، اضطراب، بدنامی

Farah-Malik
 

رنجِ بے ادائی کیا زعمِ آشنائی کیا
ماسوائے تنہائی عشق کی کمائی کیا
خالی خالی آنکھیں ہیں کھوکھلے سے جسموں پر
بے یقیں رفاقت میں، وصل کیا جدائی کیا
ضبط سے تکلم تک سب کا سب ہی دھوکہ ہے
دل میں کیا سمایا تھا لب پہ بات آئی کیا
جون جیسے حلیے سے جون تو نہیں بنتا
دشتِ رائیگانی میں خاک بھی اڑائی کیا
کس کو خوفِ رسوائی عشق سر کا سودا ہے
جان پر بنے جس کی اس کو جگ ہنسائی کیا
میں لہو کی سرگوش، سن مجھے اکیلے میں
شور و غل میں دنیا کے دوں گا میں سنائی کیا

Farah-Malik
 

فصیل شہر پہ کتنے چراغ تھے روشن
سیاہ رات کا پہرا دلوں کے اندر تھا

Farah-Malik
 

نہ ہم رہے نہ وہ خوابوں کی زندگی ہی رہی
گُماں ،گُماں سی مہک خود کو ڈھونڈتی ہی رہی
سناؤں میں کسے افسانۂ خیالِ ملال
تیری کمی ہی رہی اور میری کمی ہی رہی
جون ایلیاء

Farah-Malik
 

زندگی تھی ہی نہیں زخم کسی یاد کے تھے
ہم نے وہ دن بھی گزارے جو ترے بعد کے تھے
ہم کبھی کر نہ سکے ورنہ سخن ایسے بھی
جو نہ تحسین کے تھے اور نہ کسی داد کے تھے
اب جو ویران ہوئے ہیں تو یقیں آتا نہیں
ہم وہی لوگ ہیں جو قریہء آباد کے تھے
آخرِ کار کسی بات پہ دل ٹوٹ گیا
ہم بھی انسان ہی تھے کون سے فولاد کے تھے
جب بھی ناکام ہوا میں تو میرے کام آئے
وہ زمانے جو کسی عرصہء برباد کے تھے

Farah-Malik
 

ہائے وہ شخص جو نیند کی وادی میں کہیں
تیری آواز سے بیدار ہو اور تُو نہ ملے

Farah-Malik
 

سانس لینا ہوا محال مجھے
اس محبت سے اب نکال مجھے
اب میں تیری ہی ذمہ داری ہوں
کھو نہ جاؤں کہیں سنبھال مجھے
صاف کہہ دے جو تیرے دل میں ہے
ان بہانوں سے اب نہ ٹال مجھے
جاتے جاتے وہ کس لیے پلٹا
اب ستائے گا یہ سوال مجھے

Farah-Malik
 

وہ جھوٹ بات پہ سیدھے سبھاؤ آیا تھا
سو دوستانہ فضا میں تناؤ آیا تھا
میں تلخ ہوتی تھی پہلے پہل بہت،مجھ میں
بڑی ہی مشکلوں سے رکھ رکھاؤ آیا تھا
ہوائے زرد سہی، سب سے دوستانہ ہے
میں کہہ کے آئی پرندے کو آؤ، آیا تھا
نہ اٹھ سکی کبھی امید سر اٹھاتی ہوئی
دل و دماغ پر ایسا دباؤ آیا تھا
تمہیں ہی شوق تھا اپنی انا گنوانے کا
جسے پکارا تھا تم نے، سناؤ، آیا تھا ؟؟
یہ چوٹ اس لئے ہے جان سے عزیز مجھے
کسی عزیز کی جانب سے گھاؤ آیا تھا