ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
وقت کے طولِ المناک کے پروردہ ہیں
ایک تاریک ازل، نورِ ابد سے خالی
ہم جو صدیوں سے چلے ہیں
تو سمجھتے ہیں کہ ساحل پایا
اپنی تہذیب کی پاکوبی کا حاصل پایا
ہم محبّت کے نہاں خانوں میں بسنے والے
اپنی پامالی کے افسانوں پہ ہنسنے والے
ہم سمجھتے ہیں نشانِ سرِ منزل پایا
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
کنجِ ماضی میں ہیں
باراں زدہ طائر کی طرح آسُودہ
اور کبھی فتنۂ ناگاہ سے ڈر کر چونکیں
تو رھیں سدِّ نگاہ نیند کے بھاری پردے
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
ریگِ دیروز میں خوابوں کے شجر بوتے رہے
سایہ ناپید تھا سائے کی تمنّا کے تلے سوتے رہے
ہمیں محبت نے کیا دیا ہے
یہ عمر بھر کے اجاڑ رستے اداس شامیں
یہ سوگواری یہ آه و زاری
میں جانتا ہوں میری طرح سے
خود اُس کے اندر گئے دنوں کی
رفاقتوں کے تمام موسم چٹخ رہے ہیں
وه سرد موسم میں کھڑکی کھولے
ہوا کی خنکی کو اپنے اندر اتارتی ہے تو سوچتی ہے
یہ سرد شامیں تو زندگی بھر ہمیں اکٹھے گزارنی تھیں
کہیں پہ کچھ تو غلط ہوا ہے جو اسطرح ہم
ٹھٹھرتے سورج کی زرد کرنوں
میں لپٹے وعدوں کو مصلحت کی
اندھیری قبروں میں دفن کر کے سسک رہے ہیں
کہیں پہ کچھ تو غلط ہوا ہے جو آج دونوں
ہم اپنے اپنے اداس کمروں میں سر نیہوڑے
سسکتی یادوں کا غم اٹھائے
بلک رہے ہیں بھٹک رہے ہیں
کیا تیرا حال بھی اے انجمن آرا ہے یہی
میں تیرے پاس ہوں لیکن وہی تنہائی ہے
اِس بار وہ تلخی ہے کہ رُوٹھے بھی نہیں ہم
اب کے وہ لڑائی ہے کہ جھگڑا نہ کریں گے
یاں اُس کے سلیقے کے ہیں آثار تو کیا ہم
اِس پر بھی یہ کمرا تہ و بالا نہ کریں گے
اب نغمہ طرازانِ بَراَفروختہ اے شہر
واسوخت کہیں گے غزل انشا نہ کریں گے
ایسا ہے کہ سینے میں سُلگتی ہیں خراشیں
اب سانس بھی ہم لیں گے تو اچھا نہ کریں گے
🥀___ جون ایلیاء
نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے
اک کمال کی خواہش کس طرح سجاتے ہو
مصلحت کی شاموں میں محفلیں محبت کی
اور محبتیں بھی وہ سال بھر مہک جن کی
دل کی ساری گلیوں میں رقص کرتی پھرتی ہے
کس طرح جلاتے ہو آندھیوں کے موسم میں
تم دیے رفاقت کے، تم جو پیار کی دولت
اپنےدل کے ہاتھوں سے خوشبوؤں کی باتوں سے
اس طرح لٹاتے ہو جس طرح کوئی جگنو
شب کے ریگزاروں پر روشنی لٹاتا ہے
تم جو حبس موسم میں اک ہوا کا جھونکا ہو
کس طرح سجاتے ہو مصلحت کی شاموں میں
محفلیں محبت کی کچھ ہمیں بھی بتلاؤ
کچھ ہمیں بھی سکھلاؤ
ہم تو اپنے صحرا کے بےنوا مسافر ہیں
ہم تمہارے جزبوں کی نیک سی فضاؤں میں
پھول جیسے گیتوں کی رقص کرتی خوشبو کے
بے قرار شاعر ہیں
زندگی کوُئے ملامت میں تو اب آئی ہے
اور کچھ چاہنے والوں کے سبب آئی ہے
میری پوشاک میں تارے سے اچانک چمکے
تیرے آنگن سے یہ ہوتی ہوئی شب آئی ہے
کون سے پھول تھے کل رات تیرے بستر پر
آج خوشبو تیرے پہلو سے عجب آئی ہے
اے میرے جذبہء اظہار کی بے نام کسک
صرف لذت تو نہیں حاصلِ رندی و گناہ
ذہن کی سطح پہ بہتے ہُوئے آنسو بھی تو ہیں
گنگناتے ہُوئے گاتے ہُوئے دِل کے ہمراہ
میں نے ان آنکھوں کو چوما ہے انہیں چاہا ہے
جن کی جنبش سے بدل جائیں کئی تقدیریں
نرم بالوں کے تصّور کا سہارا لے کر
توڑ دی ہیں میرے ہاتھوں نے کئی زنجیریں
اے کہن زادۂ اوہام و رسُوم و تقلید
میری بدنام شرافت کو تو سمجھا ہوتا
کتنے خوں خوار برافروختہ چہروں کی قطار
مجھکو ہر راہ پہ ہر صُبح و مسا دیکھتی ہے
جن کو جینے کا سلیقہ ہے نہ مرنے کا شعور
ان کی آنکھوں کے دریچے سے قضا دیکھتی ہے
کاش ان آنکھوں سے ایک دن کوئی یہ بھی
پوچھے
کون سی حور ہے جنت میں جو دنیا میں نہیں
کون سی آگ ہے گہوارۂ دوزخ میں کہ جو
اپنے نزدیک کے اَصحابِ دل آراء میں نہیں
لوگوں کے دل جنت تھوڑی ہیں جن میں بسنے کے لئے آپ خود کو تھکا رہے ہیں
ہیں رواں اُس راہ پر جسکی کوئی منزل نہ ہو
جستجو کرتے ہیں اسکی جو ہمیں حاصل نہ ہو
دشتِ نجدِ یاس میں دیوانگی ہو ہر طرف
ہر طرف محمل کا شک ہو پر کہیں محمل نہ ہو
وہم یہ تجھ کو عجب ہے اے جمالِ کم نما
جیسے سب کچھ ہو مگر تُو دید کے قابل نہ ہو
وہ کھڑا ہے ایک بابِ علم کی دہلیز پر
میں یہ کہتا ہوں اُسے اِس خوف میں داخل نہ ہو
چاہتا ہُوں میں اِس عُمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
منیر نیازی
عجیب راہگزر تھی کہ جس پہ چلتے ہُوئے
قدم رُکے بھی نہیں راستہ کٹا بھی نہیں
میرے ہاتھوں سے یہ اٹھتا ہوا بے کیف دھواں
میرے افسردہ خیالات کی تشہیر سہی
لمحہ لمحہ یہ سلگتا ہوا کاغذ کا وجود
تیرے عارض ترے لب کی کوئی تعبیر سہی
اسی انگارہ جاں سے کوئی کش سا لے کر
روح جب دھند کے پردے میں لپٹ جاتی ہے
تو خراماں انہی راہوں سے گزر کر جاناں
میری جلتی ہوئی آنکھوں میں اتر آتی ہے
تیری تصویر بھی اس آخری دھوئیں کے سمیت
اپنا دامن میرے ہاتھوں سے جھٹک جائے گی
اور پھر روح میری درد کا سامان لے کر
انہی راہوں انہی رستوں میں بھٹک جائے گی
جب منڈیروں پہ چاند کے ہمراہ
بُجھتی جاتی تھیں آخری شمعیں
کیا تیرے واسطے نہیں ترسا
اس کا مجبور مُضمَحل چہرہ
کیا تیرے واسطے نہیں جاگیں
اُس کی بیمار رحم دل آنکھیں
کیا تجھے یہ خیال ہے کہ اُسے
اپنے لٹنے کا کوئی رَنج نہیں
اس نے دیکھی ہے دن کی خونخواری
اس پہ گزری ہے شب کی عیّاری
پھر بھی تیری طرح وہ بے چاری
ساری دنیا سے شکوہ سنج نہیں
زندہ باد اے انائے جذبۂ عشق
مَرحبا اے شِکوہِ خدّامی
اسکی قربت سے تجھ کو پُھول مِلے
زندگی کے نئے اصول ملے
تیری اُلفت سے کیا مِلا اُس کو
زحمتیں، اضطراب، بدنامی
رنجِ بے ادائی کیا زعمِ آشنائی کیا
ماسوائے تنہائی عشق کی کمائی کیا
خالی خالی آنکھیں ہیں کھوکھلے سے جسموں پر
بے یقیں رفاقت میں، وصل کیا جدائی کیا
ضبط سے تکلم تک سب کا سب ہی دھوکہ ہے
دل میں کیا سمایا تھا لب پہ بات آئی کیا
جون جیسے حلیے سے جون تو نہیں بنتا
دشتِ رائیگانی میں خاک بھی اڑائی کیا
کس کو خوفِ رسوائی عشق سر کا سودا ہے
جان پر بنے جس کی اس کو جگ ہنسائی کیا
میں لہو کی سرگوش، سن مجھے اکیلے میں
شور و غل میں دنیا کے دوں گا میں سنائی کیا
فصیل شہر پہ کتنے چراغ تھے روشن
سیاہ رات کا پہرا دلوں کے اندر تھا
نہ ہم رہے نہ وہ خوابوں کی زندگی ہی رہی
گُماں ،گُماں سی مہک خود کو ڈھونڈتی ہی رہی
سناؤں میں کسے افسانۂ خیالِ ملال
تیری کمی ہی رہی اور میری کمی ہی رہی
جون ایلیاء
زندگی تھی ہی نہیں زخم کسی یاد کے تھے
ہم نے وہ دن بھی گزارے جو ترے بعد کے تھے
ہم کبھی کر نہ سکے ورنہ سخن ایسے بھی
جو نہ تحسین کے تھے اور نہ کسی داد کے تھے
اب جو ویران ہوئے ہیں تو یقیں آتا نہیں
ہم وہی لوگ ہیں جو قریہء آباد کے تھے
آخرِ کار کسی بات پہ دل ٹوٹ گیا
ہم بھی انسان ہی تھے کون سے فولاد کے تھے
جب بھی ناکام ہوا میں تو میرے کام آئے
وہ زمانے جو کسی عرصہء برباد کے تھے
ہائے وہ شخص جو نیند کی وادی میں کہیں
تیری آواز سے بیدار ہو اور تُو نہ ملے
سانس لینا ہوا محال مجھے
اس محبت سے اب نکال مجھے
اب میں تیری ہی ذمہ داری ہوں
کھو نہ جاؤں کہیں سنبھال مجھے
صاف کہہ دے جو تیرے دل میں ہے
ان بہانوں سے اب نہ ٹال مجھے
جاتے جاتے وہ کس لیے پلٹا
اب ستائے گا یہ سوال مجھے
وہ جھوٹ بات پہ سیدھے سبھاؤ آیا تھا
سو دوستانہ فضا میں تناؤ آیا تھا
میں تلخ ہوتی تھی پہلے پہل بہت،مجھ میں
بڑی ہی مشکلوں سے رکھ رکھاؤ آیا تھا
ہوائے زرد سہی، سب سے دوستانہ ہے
میں کہہ کے آئی پرندے کو آؤ، آیا تھا
نہ اٹھ سکی کبھی امید سر اٹھاتی ہوئی
دل و دماغ پر ایسا دباؤ آیا تھا
تمہیں ہی شوق تھا اپنی انا گنوانے کا
جسے پکارا تھا تم نے، سناؤ، آیا تھا ؟؟
یہ چوٹ اس لئے ہے جان سے عزیز مجھے
کسی عزیز کی جانب سے گھاؤ آیا تھا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain