Damadam.pk
Farah-Malik's posts | Damadam

Farah-Malik's posts:

Farah-Malik
 

ہیں رواں اُس راہ پر جسکی کوئی منزل نہ ہو
جستجو کرتے ہیں اسکی جو ہمیں حاصل نہ ہو
دشتِ نجدِ یاس میں دیوانگی ہو ہر طرف
ہر طرف محمل کا شک ہو پر کہیں محمل نہ ہو
وہم یہ تجھ کو عجب ہے اے جمالِ کم نما
جیسے سب کچھ ہو مگر تُو دید کے قابل نہ ہو
وہ کھڑا ہے ایک بابِ علم کی دہلیز پر
میں یہ کہتا ہوں اُسے اِس خوف میں داخل نہ ہو
چاہتا ہُوں میں اِس عُمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
منیر نیازی

Farah-Malik
 

عجیب راہگزر تھی کہ جس پہ چلتے ہُوئے
قدم رُکے بھی نہیں راستہ کٹا بھی نہیں

Farah-Malik
 

میرے ہاتھوں سے یہ اٹھتا ہوا بے کیف دھواں
میرے افسردہ خیالات کی تشہیر سہی
لمحہ لمحہ یہ سلگتا ہوا کاغذ کا وجود
تیرے عارض ترے لب کی کوئی تعبیر سہی
اسی انگارہ جاں سے کوئی کش سا لے کر
روح جب دھند کے پردے میں لپٹ جاتی ہے
تو خراماں انہی راہوں سے گزر کر جاناں
میری جلتی ہوئی آنکھوں میں اتر آتی ہے
تیری تصویر بھی اس آخری دھوئیں کے سمیت
اپنا دامن میرے ہاتھوں سے جھٹک جائے گی
اور پھر روح میری درد کا سامان لے کر
انہی راہوں انہی رستوں میں بھٹک جائے گی

Farah-Malik
 

جب منڈیروں پہ چاند کے ہمراہ
بُجھتی جاتی تھیں آخری شمعیں
کیا تیرے واسطے نہیں ترسا
اس کا مجبور مُضمَحل چہرہ
کیا تیرے واسطے نہیں جاگیں
اُس کی بیمار رحم دل آنکھیں
کیا تجھے یہ خیال ہے کہ اُسے
اپنے لٹنے کا کوئی رَنج نہیں
اس نے دیکھی ہے دن کی خونخواری
اس پہ گزری ہے شب کی عیّاری
پھر بھی تیری طرح وہ بے چاری
ساری دنیا سے شکوہ سنج نہیں
زندہ باد اے انائے جذبۂ عشق
مَرحبا اے شِکوہِ خدّامی
اسکی قربت سے تجھ کو پُھول مِلے
زندگی کے نئے اصول ملے
تیری اُلفت سے کیا مِلا اُس کو
زحمتیں، اضطراب، بدنامی

Farah-Malik
 

رنجِ بے ادائی کیا زعمِ آشنائی کیا
ماسوائے تنہائی عشق کی کمائی کیا
خالی خالی آنکھیں ہیں کھوکھلے سے جسموں پر
بے یقیں رفاقت میں، وصل کیا جدائی کیا
ضبط سے تکلم تک سب کا سب ہی دھوکہ ہے
دل میں کیا سمایا تھا لب پہ بات آئی کیا
جون جیسے حلیے سے جون تو نہیں بنتا
دشتِ رائیگانی میں خاک بھی اڑائی کیا
کس کو خوفِ رسوائی عشق سر کا سودا ہے
جان پر بنے جس کی اس کو جگ ہنسائی کیا
میں لہو کی سرگوش، سن مجھے اکیلے میں
شور و غل میں دنیا کے دوں گا میں سنائی کیا

Farah-Malik
 

فصیل شہر پہ کتنے چراغ تھے روشن
سیاہ رات کا پہرا دلوں کے اندر تھا

Farah-Malik
 

نہ ہم رہے نہ وہ خوابوں کی زندگی ہی رہی
گُماں ،گُماں سی مہک خود کو ڈھونڈتی ہی رہی
سناؤں میں کسے افسانۂ خیالِ ملال
تیری کمی ہی رہی اور میری کمی ہی رہی
جون ایلیاء

Farah-Malik
 

زندگی تھی ہی نہیں زخم کسی یاد کے تھے
ہم نے وہ دن بھی گزارے جو ترے بعد کے تھے
ہم کبھی کر نہ سکے ورنہ سخن ایسے بھی
جو نہ تحسین کے تھے اور نہ کسی داد کے تھے
اب جو ویران ہوئے ہیں تو یقیں آتا نہیں
ہم وہی لوگ ہیں جو قریہء آباد کے تھے
آخرِ کار کسی بات پہ دل ٹوٹ گیا
ہم بھی انسان ہی تھے کون سے فولاد کے تھے
جب بھی ناکام ہوا میں تو میرے کام آئے
وہ زمانے جو کسی عرصہء برباد کے تھے

Farah-Malik
 

ہائے وہ شخص جو نیند کی وادی میں کہیں
تیری آواز سے بیدار ہو اور تُو نہ ملے

Farah-Malik
 

سانس لینا ہوا محال مجھے
اس محبت سے اب نکال مجھے
اب میں تیری ہی ذمہ داری ہوں
کھو نہ جاؤں کہیں سنبھال مجھے
صاف کہہ دے جو تیرے دل میں ہے
ان بہانوں سے اب نہ ٹال مجھے
جاتے جاتے وہ کس لیے پلٹا
اب ستائے گا یہ سوال مجھے

Farah-Malik
 

وہ جھوٹ بات پہ سیدھے سبھاؤ آیا تھا
سو دوستانہ فضا میں تناؤ آیا تھا
میں تلخ ہوتی تھی پہلے پہل بہت،مجھ میں
بڑی ہی مشکلوں سے رکھ رکھاؤ آیا تھا
ہوائے زرد سہی، سب سے دوستانہ ہے
میں کہہ کے آئی پرندے کو آؤ، آیا تھا
نہ اٹھ سکی کبھی امید سر اٹھاتی ہوئی
دل و دماغ پر ایسا دباؤ آیا تھا
تمہیں ہی شوق تھا اپنی انا گنوانے کا
جسے پکارا تھا تم نے، سناؤ، آیا تھا ؟؟
یہ چوٹ اس لئے ہے جان سے عزیز مجھے
کسی عزیز کی جانب سے گھاؤ آیا تھا

Farah-Malik
 

تمہارے پیار میں جتنا بھی اختصار کریں
ستارے کم پڑیں انکو اگر شمار کریں
یہ بے وفائی کہیں چال تو نہیں اس کی
ہم اس کے بعد کسی پر نہ اعتبار کریں
ہمارے بعد کہیں پر بھی اسکا دل نہ لگے
کسی سے پیار کریں ہم تو اتنا پیار کریں
ہمارے پاس دعائیں نہ کوئی کشتی ہے
ہم ایسے لوگ سمندر کو کیسے پار کریں
تمہارے شہر کے وحشی تو بس ترستے ہیں
کہیں پہ جنگ چھڑے اور یہ جا کے وار کریں

Farah-Malik
 

میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
اجنبی سی ہو مگر غیر نہیں لگتی ہو
وہم سے بھی جو ہو نازک وہ یقیں لگتی ہو
دیکھ کر تم کو کسی رات کی یاد آتی ہے
ایک خاموش ملاقات کی یاد آتی ہے
ذہن میں حُسن کی ٹھنڈک کا اثر جاگتا ہے
آنچ دیتی ہوئی برسات کی یاد آتی ہے
میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
میری آنکھوں پہ جُھکی رہتی ہیں پلکیں جس کی
تم وہی میرے خیالوں کی پَری ہو کہ نہیں
کہیں پہلے کی طرح پھر تو نہ کھو جاؤ گی
جو ہمیشہ کے لیے ہو وہ خوشی ہو کہ نہیں
میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
ساحر لدھیانوی

Farah-Malik
 

یہ بد دعا تو نہیں ہے مگر میں چاہتا ہوں
تُو اِک دفعہ تو محبت میں بے بسی کو مِلے
ہزار غم ہوں مگر ایسے شخص کا دُکھ جو
کسی کے ہاتھ سے ہوتا ہوا کسی کو مِلے

Farah-Malik
 

زندگی، کیسے بتاؤں کہ سفر کیسا رہا
دھُول اتنی ہے کہ لہجوں سے نکل آئے گی

Farah-Malik
 

خزاں کی دھوپ بہاروں کی نرم چھاؤں میں
کبھی جو ہم کو پکارو گے ہم نہیں ہوں گے
لبوں پہ لاکھ سجا لو گے مسکراہٹ تم
محبتوں کے خسارے تو کم نہیں ہوں گے

Farah-Malik
 

وہ نہیں تھی تو دل اِک شہرِ وفا تھا جس میں
اس کے ہونٹوں کے تصور سے تپش آتی تھی
اس کے انکار پہ بھی پُھول کِھلے رہتے تھے
اس کے انفاس سے بھی شمع جلی جاتی تھی
دِن اس اُمید پہ کٹتا تھا کہ دِن ڈھلتے ہی
اس نے کچھ دیر کو مِل لینے کی مُہلت دی ہے
انگلیاں برق زدہ رہتی تھیں جیسے اس نے
اپنے رخساروں کو چھونے کی اجازت دی ہے
اس سے اِک لمحہ الگ رہ کے جُنوں ہوتا تھا
جی میں تھی اسکو نہ پائیں گے تو مر جائیں گے
پھر ہوا یہ کہ لپکتے ہوئے انگاروں میں
ہم تو جلتے تھے مگر اس کا نشیمن بھی جلا
بجلیاں جس کی کنیزوں میں رہا کرتی تھیں
دیکھنے والوں نے دیکھا کہ وہ خرمن بھی جلا
اس میں اِک یُوسفِ گم گشتہ کے ہاتھوں کے سوا
اِک زلیخائے خود آگاہ کا دامن بھی جلا

Farah-Malik
 

بات تھی محبت کی
عمر بھر کی چاہت کی
بھیڑ میں زمانے کی
ساتھ ساتھ چلنا تھا
امتحان بھی آنے تھے
زندگی کے سب ہی پل
ساتھ ہی بیتانے تھے
جانے اس نے کیا سوچا
ایک پل میں ہی اس نے
بات ختم کر ڈالی
زندگی جو پوری تھی
وہ ادھوری کر ڈالی
کون اس کو سمجھائے
محبتوں کے موسم بھی
روز تو نہیں آتے
زندگی میں اپنوں کو
چھوڑ تو نہیں جاتے

Farah-Malik
 

When we have someone, we don't care about them, we don't see their good deeds but when they are gone, we remember all their deeds. But everything remains only memories

Farah-Malik
 

Like the moon, we must go through phases of emptiness to be full again