ہیں رواں اُس راہ پر جسکی کوئی منزل نہ ہو
جستجو کرتے ہیں اسکی جو ہمیں حاصل نہ ہو
دشتِ نجدِ یاس میں دیوانگی ہو ہر طرف
ہر طرف محمل کا شک ہو پر کہیں محمل نہ ہو
وہم یہ تجھ کو عجب ہے اے جمالِ کم نما
جیسے سب کچھ ہو مگر تُو دید کے قابل نہ ہو
وہ کھڑا ہے ایک بابِ علم کی دہلیز پر
میں یہ کہتا ہوں اُسے اِس خوف میں داخل نہ ہو
چاہتا ہُوں میں اِس عُمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
منیر نیازی
عجیب راہگزر تھی کہ جس پہ چلتے ہُوئے
قدم رُکے بھی نہیں راستہ کٹا بھی نہیں
میرے ہاتھوں سے یہ اٹھتا ہوا بے کیف دھواں
میرے افسردہ خیالات کی تشہیر سہی
لمحہ لمحہ یہ سلگتا ہوا کاغذ کا وجود
تیرے عارض ترے لب کی کوئی تعبیر سہی
اسی انگارہ جاں سے کوئی کش سا لے کر
روح جب دھند کے پردے میں لپٹ جاتی ہے
تو خراماں انہی راہوں سے گزر کر جاناں
میری جلتی ہوئی آنکھوں میں اتر آتی ہے
تیری تصویر بھی اس آخری دھوئیں کے سمیت
اپنا دامن میرے ہاتھوں سے جھٹک جائے گی
اور پھر روح میری درد کا سامان لے کر
انہی راہوں انہی رستوں میں بھٹک جائے گی
جب منڈیروں پہ چاند کے ہمراہ
بُجھتی جاتی تھیں آخری شمعیں
کیا تیرے واسطے نہیں ترسا
اس کا مجبور مُضمَحل چہرہ
کیا تیرے واسطے نہیں جاگیں
اُس کی بیمار رحم دل آنکھیں
کیا تجھے یہ خیال ہے کہ اُسے
اپنے لٹنے کا کوئی رَنج نہیں
اس نے دیکھی ہے دن کی خونخواری
اس پہ گزری ہے شب کی عیّاری
پھر بھی تیری طرح وہ بے چاری
ساری دنیا سے شکوہ سنج نہیں
زندہ باد اے انائے جذبۂ عشق
مَرحبا اے شِکوہِ خدّامی
اسکی قربت سے تجھ کو پُھول مِلے
زندگی کے نئے اصول ملے
تیری اُلفت سے کیا مِلا اُس کو
زحمتیں، اضطراب، بدنامی
رنجِ بے ادائی کیا زعمِ آشنائی کیا
ماسوائے تنہائی عشق کی کمائی کیا
خالی خالی آنکھیں ہیں کھوکھلے سے جسموں پر
بے یقیں رفاقت میں، وصل کیا جدائی کیا
ضبط سے تکلم تک سب کا سب ہی دھوکہ ہے
دل میں کیا سمایا تھا لب پہ بات آئی کیا
جون جیسے حلیے سے جون تو نہیں بنتا
دشتِ رائیگانی میں خاک بھی اڑائی کیا
کس کو خوفِ رسوائی عشق سر کا سودا ہے
جان پر بنے جس کی اس کو جگ ہنسائی کیا
میں لہو کی سرگوش، سن مجھے اکیلے میں
شور و غل میں دنیا کے دوں گا میں سنائی کیا
فصیل شہر پہ کتنے چراغ تھے روشن
سیاہ رات کا پہرا دلوں کے اندر تھا
نہ ہم رہے نہ وہ خوابوں کی زندگی ہی رہی
گُماں ،گُماں سی مہک خود کو ڈھونڈتی ہی رہی
سناؤں میں کسے افسانۂ خیالِ ملال
تیری کمی ہی رہی اور میری کمی ہی رہی
جون ایلیاء
زندگی تھی ہی نہیں زخم کسی یاد کے تھے
ہم نے وہ دن بھی گزارے جو ترے بعد کے تھے
ہم کبھی کر نہ سکے ورنہ سخن ایسے بھی
جو نہ تحسین کے تھے اور نہ کسی داد کے تھے
اب جو ویران ہوئے ہیں تو یقیں آتا نہیں
ہم وہی لوگ ہیں جو قریہء آباد کے تھے
آخرِ کار کسی بات پہ دل ٹوٹ گیا
ہم بھی انسان ہی تھے کون سے فولاد کے تھے
جب بھی ناکام ہوا میں تو میرے کام آئے
وہ زمانے جو کسی عرصہء برباد کے تھے
ہائے وہ شخص جو نیند کی وادی میں کہیں
تیری آواز سے بیدار ہو اور تُو نہ ملے
سانس لینا ہوا محال مجھے
اس محبت سے اب نکال مجھے
اب میں تیری ہی ذمہ داری ہوں
کھو نہ جاؤں کہیں سنبھال مجھے
صاف کہہ دے جو تیرے دل میں ہے
ان بہانوں سے اب نہ ٹال مجھے
جاتے جاتے وہ کس لیے پلٹا
اب ستائے گا یہ سوال مجھے
وہ جھوٹ بات پہ سیدھے سبھاؤ آیا تھا
سو دوستانہ فضا میں تناؤ آیا تھا
میں تلخ ہوتی تھی پہلے پہل بہت،مجھ میں
بڑی ہی مشکلوں سے رکھ رکھاؤ آیا تھا
ہوائے زرد سہی، سب سے دوستانہ ہے
میں کہہ کے آئی پرندے کو آؤ، آیا تھا
نہ اٹھ سکی کبھی امید سر اٹھاتی ہوئی
دل و دماغ پر ایسا دباؤ آیا تھا
تمہیں ہی شوق تھا اپنی انا گنوانے کا
جسے پکارا تھا تم نے، سناؤ، آیا تھا ؟؟
یہ چوٹ اس لئے ہے جان سے عزیز مجھے
کسی عزیز کی جانب سے گھاؤ آیا تھا
تمہارے پیار میں جتنا بھی اختصار کریں
ستارے کم پڑیں انکو اگر شمار کریں
یہ بے وفائی کہیں چال تو نہیں اس کی
ہم اس کے بعد کسی پر نہ اعتبار کریں
ہمارے بعد کہیں پر بھی اسکا دل نہ لگے
کسی سے پیار کریں ہم تو اتنا پیار کریں
ہمارے پاس دعائیں نہ کوئی کشتی ہے
ہم ایسے لوگ سمندر کو کیسے پار کریں
تمہارے شہر کے وحشی تو بس ترستے ہیں
کہیں پہ جنگ چھڑے اور یہ جا کے وار کریں
میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
اجنبی سی ہو مگر غیر نہیں لگتی ہو
وہم سے بھی جو ہو نازک وہ یقیں لگتی ہو
دیکھ کر تم کو کسی رات کی یاد آتی ہے
ایک خاموش ملاقات کی یاد آتی ہے
ذہن میں حُسن کی ٹھنڈک کا اثر جاگتا ہے
آنچ دیتی ہوئی برسات کی یاد آتی ہے
میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
میری آنکھوں پہ جُھکی رہتی ہیں پلکیں جس کی
تم وہی میرے خیالوں کی پَری ہو کہ نہیں
کہیں پہلے کی طرح پھر تو نہ کھو جاؤ گی
جو ہمیشہ کے لیے ہو وہ خوشی ہو کہ نہیں
میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
ساحر لدھیانوی
یہ بد دعا تو نہیں ہے مگر میں چاہتا ہوں
تُو اِک دفعہ تو محبت میں بے بسی کو مِلے
ہزار غم ہوں مگر ایسے شخص کا دُکھ جو
کسی کے ہاتھ سے ہوتا ہوا کسی کو مِلے
زندگی، کیسے بتاؤں کہ سفر کیسا رہا
دھُول اتنی ہے کہ لہجوں سے نکل آئے گی
خزاں کی دھوپ بہاروں کی نرم چھاؤں میں
کبھی جو ہم کو پکارو گے ہم نہیں ہوں گے
لبوں پہ لاکھ سجا لو گے مسکراہٹ تم
محبتوں کے خسارے تو کم نہیں ہوں گے
وہ نہیں تھی تو دل اِک شہرِ وفا تھا جس میں
اس کے ہونٹوں کے تصور سے تپش آتی تھی
اس کے انکار پہ بھی پُھول کِھلے رہتے تھے
اس کے انفاس سے بھی شمع جلی جاتی تھی
دِن اس اُمید پہ کٹتا تھا کہ دِن ڈھلتے ہی
اس نے کچھ دیر کو مِل لینے کی مُہلت دی ہے
انگلیاں برق زدہ رہتی تھیں جیسے اس نے
اپنے رخساروں کو چھونے کی اجازت دی ہے
اس سے اِک لمحہ الگ رہ کے جُنوں ہوتا تھا
جی میں تھی اسکو نہ پائیں گے تو مر جائیں گے
پھر ہوا یہ کہ لپکتے ہوئے انگاروں میں
ہم تو جلتے تھے مگر اس کا نشیمن بھی جلا
بجلیاں جس کی کنیزوں میں رہا کرتی تھیں
دیکھنے والوں نے دیکھا کہ وہ خرمن بھی جلا
اس میں اِک یُوسفِ گم گشتہ کے ہاتھوں کے سوا
اِک زلیخائے خود آگاہ کا دامن بھی جلا
بات تھی محبت کی
عمر بھر کی چاہت کی
بھیڑ میں زمانے کی
ساتھ ساتھ چلنا تھا
امتحان بھی آنے تھے
زندگی کے سب ہی پل
ساتھ ہی بیتانے تھے
جانے اس نے کیا سوچا
ایک پل میں ہی اس نے
بات ختم کر ڈالی
زندگی جو پوری تھی
وہ ادھوری کر ڈالی
کون اس کو سمجھائے
محبتوں کے موسم بھی
روز تو نہیں آتے
زندگی میں اپنوں کو
چھوڑ تو نہیں جاتے
When we have someone, we don't care about them, we don't see their good deeds but when they are gone, we remember all their deeds. But everything remains only memories
Like the moon, we must go through phases of emptiness to be full again
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain