محبّت کا گھانا بادل بنا دیتا تو اچّھا تھا مجھے اس آنکھ کا کاجل بنا دیتا تو اچّھا تھا اسے پانے کی خاہش اب مجھے جینے نہیں دیتا خدایا تو مجھے پاگل بنا دیتا تو اچّھا تھا
تعریف کیا کروں میں اب اس کے کمال کی تصویر کھینچ دیتا ہے خالد ، خیال کی اس عکس گر کی آنکھ سے کب کوئی بچ سکا درویش کی ادا ہو کہ صورت جمال کی مغلوں کا دور سر بہ سر آنکھوں میں پھر گیا ہیبت تمام آ گئی جاہ و جلال کی غربت کی شام اجنبی چہرے میں بس گئی صورت تمام ہو گئی رنج و ملال کی درویش جھومتا ہوا صحنِ مزار میں خواہش بھی ختم ہو گئی اب اندمال کی چہرے کی جھریاں ہوں کہ غربت کے پیرہن کیا صورتیں ہیں جبر کی، دست_سوال کی
نہ جسم تیڈا نہ جان تیڈی اے ترکہ رب رحمان دا ہے اوندے حکم بغیر تو بے وس ھئیں اے فیصلہ پڑھ قرآن دا ہے میڈے جسم تے میڈی مرضی ہے اے وہم گمان انسان دا ہے تیڈی روح ہے آصف مالک دی تیڈا ڈھانچہ قبرستان دا ہے