تو یہ کہہ کے ہم نے دِل کو ٹالا ہوا رکے گی تو دیکھ لیں گے ہم اس کے رستوں کو ڈھونڈ لیں گے مگر ہماری یہ خوش خیالی جو ہم کو برباد کر گئی تھی ہوا تھمی تھی ضرور لیکن بڑی ہی مدت گزر چکی تھی ہمارے بالوں کے جنگلوں میں سفید چاندی اُتَر چکی تھی فلک پہ تارے نہیں رہے تھے گلاب پیارے نہیں رہے تھے وہ جن سے بستی تھی دِل کی بستی وہ لوگ سارے نہیں رہے تھے یہ المیہ سب سے بالاتر تھا کہ ہم تمھارے نہیں رہے تھے کہ تم ہمارے نہیں رہے تھے
ہوا تھمی تھی ضرور لیکن وہ شام جیسے سسک رہی تھی کہ زَرْد پتوں کو آندھیوں نے عجیب قصہ سنا دیا تھا کہ جس کو سن کر تمام پتے سسک رہے تھے، بِلک رہے تھے جانے کس سانحے کے غم میں شجر جڑوں سے اُکھڑ چکے تھے بہت تلاش تھا ہم نے تم کو ہر ایک رستہ ،ہر ایک وادی ہر ایک پربت ،ہر ایک گھاٹی ، کہیں سے تیری خبر نا آئی