جھوٹے الزام میری جان لگایا نہ کرو
دل ہے نازک اسے تم ایسے دکھایا نہ کرو
Da yo Nazar sumra Tawan ghware
Zra Rana ghware ka Grewan ghware
Pa de granay ke da khpal sar pa Badal
Da yar deedan sumra Arzaan ghware
دیکھنا حشر میں جب تم پہ مچل جاؤں گا
میں بھی کیا وعدہ تمہارا ہوں کہ ٹل جاؤں گا
تلاش اس کو نہ کر بُتوں میں
وہ ہے بدلتی ہوئی رُتوں میں
جو دن کو رات اور رات کو دن
بنا رہا ہے وہ ہی خدا ہے
تو امیرِ حرم میں فقیرِ عجم
تیرے گُن اور یہ لب
میں طلب ہی طلب
میرا گھر خاک پر
اور تیری راہ گزر
صدرة المُنتہا
تو کجا من کجا
مجھے لہجے سمجھ میں آتے ہیں
اپنے الفاظ کو اب ترتیب نہ دے
مستقل بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں میں اندر سے
رشتے نبھانے کا ظرف نہ ہو تو
!رشتے بنانے سے بھی گریز کیجئے
جو شخص ایک مرتبہ رسول اللہؐ پر درود پڑھتا ہے وہ گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسے کبھی گناہ کیا ہی نہیں اور ایک لاکھ نیکیاں اُس کے نامہ ٔاعمال پر لکھی جاتی ہیں اور اُس کا شمار اولیا اللہ میں ہوتا ہے پھر فرمایا کہ صحابہ و تابعین اور مشائخ طبقات نے درود شریف کا وظیفہ مقرر کیا تھا۔ اگر کسی دن ان کا یہ وظیفہ فوت ہوجاتا تو وہ اپنے تئیں مردہ سمجھتے اور ماتم کرتے کہ آج کی رات ہم مر گئے تھے۔ اگر زندہ ہوتے تو سروَر کائینات پر درود بھیجتے
درویش کو چاہئے کہ یہ چار باتیں اختیار کرلے۔ اول آنکھیں اندھی کرلے تاکہ لوگوں کے معائب نہ دیکھ سکے۔ دوسرے کان بہرے کرلے تاکہ فضول اور لغو باتیں سننے سے بچ جائے ۔تیسرے زبان گونگی کرلے تاکہ ناحق باتیں بولنے سے بچارہے۔چوتھے پیَر توڑ کر بیٹھ جائے تاکہ ناجائز جگہوں پر نہ جاسکے۔ پس اگر کسی میں یہ خصلتیں پائی جائیں تو بلا شک اس کو درویش تسلیم کرنا چاہئے۔
دل کہ پاک است زبان بیباک است
خدا نے مجھ کو سلیقہ عطا کیا ہے بہت
ہر ایک بات کا حاضر صنم جواب رہے
عجب نہیں کوئی مسلم کرے جو دعویٔ عشق
قسم کے واسطے اللہ کی کتاب رہے
امیرؔ کیجیے توبہ کی فکر پیری میں
مزے شراب کے تا عالم شباب رہے
توبہ کو مانگتا ہوں سرور شباب میں
ساغر لیے کھڑا ہوں خدا کی جناب میں
نہ کسی کی آنکھ کا نُور ہوں، نہ کسی کے دِل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے، میں وہ ایک مُشتِ غُبار ہوں
میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فزا، مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا، میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
مرا رنگ روپ بگڑ گیا‘ مرا بخت مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا، میں اسی کی فصل بہار ہوں
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں، کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی شمع آ کے جلائے کیوں کہ میں بے کسی کا مزار ہوں
نہ میں مضطر ان کا حبیب ہوں، نہ میں مضطر ان کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں، جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں
وہ مہرباں ہے تو اقرار کیوں نہیں کرتا
وہ بدگماں ہے تو سو بار آزمائے مجھے
قلفی کا بھی قلفہ ہے
ایک میں ہی سنگل ہوں
جے دل پڑھے جاندے
تے سارے پھڑے جاندے
جب ہم مسکرا کے دیکھیں گے
با خدا ہار مان جاؤ گے
جنہیں بھروسا کرنا ہو وہ دلیلیں نہیں مانگتے
فردوسِ بَریں کے پُر کیف نظاروں کی قسم
چشمِ کائینات نے دیکھا نہ "محمد" جیسا
صلّى الله عَلٌَيهِ و آلِه وسلّم
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain