کہاں پہ رکھنا تھا آباد کہاں پشیماں رکھنا تھا؟
اے دل بَتلا ناں آخرش تُجھے کہاں رکھنا تھا؟
جانے کیوں کر بیٹھا ہے تُو اک حَسرت پر تَوکل
مُجھے تو ان قدموں میں سارا جہاں رکھنا تھا
✍️ عاصم حجازی
فقط ادا ہی نہیں، دل میں جو اتر جائے
ادا ادا میں وہ رعنائیاں بھی ہوتی ہیں
سنوار دیتا ہے یکسر یہ کارِ عشق ہمیں
یہ اور بات کہ رسوائیاں بھی ہوتی ہیں...
#Charسan
آنکھوں کو انتظار کی عادت تو ہے مگر
پتھرا ہی جائیں اتنا تغافُل نہ کیجئے 🍁🖤
وہ میرا دشمنِ جاں ایسا ہے مہرباں مجھ پر
خفا بھی ہو کے وہ مجھ سے خفا نہیں ہوتا
ذرا سا ہجر کی وحشت کو کم کیا جائے
کہ ہم پہ سورہ ء یٰسیں کا دم کیا جائے
سوال پوچھ کے سب لوگ جان کھا لیں گے
سمجھ کے ، سوچ کے ، آنکھوں کو نم کیا جائے
ہوائیں منزلیں بھٹکانے آئیں گی ساری
کہ زادِ راہ کو نقشِ قدم کیا جائے
کبھی بھی جراتِ گفتار کم نہیں ہو گی
مری زبان کو چاہے قلم کیا جائے
ہمیں تو مسئلے لاحق ہیں رزق کے اور تو
یہ چاہتا ہے محبت کا غم کیا جائے
دیبا کرن ✍
آرزوئے دیدِ جاناں بزم میں لائی مجھے
بزم سے میں آرزوۓ دیدِ جاناں لے چلا
میرے گھر تک پاؤں پڑ کر ان کو لایا تھا نیاز
ناز دامن کھینچتا سوئے رقیباں لے چلا
دل کو جاناں سے حسن سمجھا بجھا کر لائے تھے
دل ہمیں سمجھا بجھا کر سوئے جاناں لے چلا
حسن بریلوی
اک ہی دُکھ ہے__ جس پہ رونا ھے رات دن
اِک ہی غَم ہے جِسے دل سے لگا کے رکھنا ہے
اِک ہی خواب ہے جو بھٹکتا ہے نیندوں میں
اِک تعبیر ہے جسے آنکھوں میں بَسا کے رکھنا ہے
اک ہی حسرت کہ عِشق مَچلتا رہے سینے میں
اِک یہی راز ہے جو سَب سے چُھپا کے رکھنا ہے
✍️ عاصم حجازی
دو چار باتیں وہ لوگ بھی سُنا کر گئے ہم کو
جن کی قمیضوں پر اپنا گریبان تھا ہی نہیں🍁
اتنے پارساٶں میں پھر دم نہ گُھٹتا تو کیا ہوتا
جو بھی ملا فرشتہ ہی ملا انسان تھا ہی نہیں....
🥀🖤🔥
کچھ وصال آخر تک ، معتبر نہیں ہوتے
ساتھ چلنے والے بھی ، ہمسفر نہیں ہوتے
کچھ کہے بنا اکثر ، بولتی ہیں آنکھیں بھی
گفتگو کے سب لمحے، حرف گر نہیں ہوتے
کتنا خوف ہوتا ھے ، شام کے اندھیرے میں
پوچھ ان پرندوں سے ، جن کے گھر نہیں ہوتے
عمر بھر نہیں ملتا واپسی کا دروازہ
آگہی کے زنداں میں بام و در نہیں ہوتے❤
بہتے ہوئے اشکوں کی روانی نہیں لکھی
میں نے غم ہجراں کی کہانی نہیں لکھی
جس دن سے ترے ہاتھ سے چھوٹا ہے مرا ہاتھ
اس دن سے کوئی شام سہانی نہیں لکھی
کیا جانئے کیا سوچ کے افسردہ ہوا دل
میں نے تو کوئی بات پرانی نہیں لکھی
الفاظ سے کاغذ پہ سجائی ہے جو دنیا
جز اپنے کوئی چیز بھی فانی نہیں لکھی
تشہیر تو مقصود نہیں قصۂ دل کی
سو تجھ کو لکھا تیری نشانی نہیں لکھی
عنبرین حسیب عنبر
#حمزہ
چھوڑ جانے پہ پرندوں کی مذمت کی ہو
تم نے دیکھا ہے کبھی پیڑ نے ہجرت کی ہو
جھولتی شاخ سے چپ چاپ جدا ہونے پر
زرد پتوں نے ہواؤں سے شکایت کی ہو
اب تو اتنا بھی نہیں یاد کہ کب آخری بار
دل نے کچھ ٹُوٹ کے چاہا کوئی حسرت کی ہو
عمر چھوٹی سی مگر شکل پہ جُھریاں اتنی
عین ممکن ہے کبھی ہم نے محبت کی ہو
ایسا ہمدرد تِرے بعد کہاں تھا، جس نے
لغزشوں پر بھی مِری کُھل کے حمایت کی ہو
دل شکستہ ہے، کوئی ایسا ہنر مند بتا
جس نے ٹوٹے ہوئے شیشوں کی مرمت کی ہو
شب کے دامن میں وہی نور بھریں گے احمد
جن چراغوں نے اندھیرے سے بغاوت کی ہو
شاعر: ڈاکٹر احمد خلیل خان
آپ اِس طرح تو ہوش اُڑایا نہ کیجیئے
یوں بن سنور کے سامنے آیا نہ کیجیئے
یا سَر پہ آدمی کو بٹھایا نہ کیجیئے
یا پھر نظر سے اُس کو گِرایا نہ کیجیئے
یُوں مَدھ بھری نگاہ اُٹھایا نہ کیجیئے
پینا حرام ہے تو پِلایا نہ کیجیئے
کہیئے تو آپ محو ہیں کس کے خیال میں
ہم سے تو دل کی بات چُھپایا نہ کیجیئے
تیغِ ستم سے کام جو لینا تھا، لے چکے
اہلِ وفا کا یوں تو صفایا نہ کیجیئے
میں آپ کا، گھر آپ کا، آئیں ہزار بار
لیکن کسی کی بات میںآیا نہ کیجیئے
اُٹھ جائیں گے ہم آپ ہی محفل سے آپ کی
دشمن کے رُوبرو تو بٹھایا نہ کیجیئے
دل دور ہوں تو ہاتھ مِلانے سے فائدہ؟
رسماً کسی سے ہاتھ ملایا نہ کیجیئے
محروم ہوں لطافتِ فطرت سے جو نصیر
اُن بے حِسوں کو شعر سُنایا نہ کیجیئے
سیّد نصیر الدین نصیر
جَیسے بچپن میں بھی بچپن نہیں دیکھا ہم نے
وَیسے ہم لوگ جوانی سے نکل آئے ہیں
(مسعود احمد اوکاڑا)
دو چار دن تو روئی کہ کیوں خرچ کردیا
سوچے بغیر سارا سکوں خرچ کردیا
پوچھے کوئی اثاثہ محبت کا کیا ہوا
چٹکی بجا کے کہنا کہ یوں خرچ کردیا
اب خالی ہاتھ رہ گیا زعم جمال یار
جتنا کما لیا تھا فسوں ، خرچ کردیا
مدت ہوئی سنبھال کے رکھی تھیں وحشتیں
جب قحط غم پڑا تو جنوں خرچ کردیا
تھوڑا سا عکس ، تھوڑی محبت ، بہت سے خواب
جو کچھ تھا آئینے کے دروں ، خرچ کردیا
کومل جوئیہ
تازہ غزل۔۔۔
جو درد تم نے سہارے سمجھ میں آ ہی گئے
جو بوجھ ہم نے اتارے سمجھ میں آ ہی گئے
ملا ہے جب سے تمھیں منصب۔مسیحائی
ہمیں بھی درد ہمارے سمجھ میں آ ہی گئے
ہماری فہم و فراست کی کب پہنچ تھی وہاں
مگر تمھارے اشارے سمجھ میں آ ہی گئے
میں جب سے موجہء طوفاں کی زد میں آئی ہوں
یہ پر سکون کنارے سمجھ میں آ ہی گئے
ہیں کس قدر یہ کٹھن مرحلے محبت کے
قدم قدم پہ جو ہارے سمجھ میں آ ہی گئے
ہمارے سامنے کچھ اور پیٹھ پیچھے کچھ
ہیں کیسے دوست یہ سارے سمجھ میں آ ہی گئے
وہ جن کو بات ہماری سمجھ نہ آئی کبھی
انہیں یہ شعر ہمارے سمجھ میں آ ہی گئے
تھا جن پہ ناز ہمیں آج تک بہت رضیہ
وہ کس قدر ہیں ہمارے سمجھ میں آ ہی گئے
رضیہ سبحان
جُدائیاں ہوں تو ایسی کہ عمر بھر نہ مِلیں
فریب دو تو ذرا__ سلسلے بڑھا کے مجھے
نشے سے کم تو نہیں_____ یادِ یار کا عالم
کہ لے اڑا ھے کوئی دوش پر ھوا کے مجھے
میں خود کو بُھول چُکا تھا، مگر جہاں والے
اُداس چھوڑ گئے____ آئینہ دِکھا کے مجھے
لفظ خالی ھوں تو آواز بہت کرتے ہیں
بس وھی شور سنا اور سنا کچھ بھی نہیں
پہلے دو پل کی جدائی سے بھی جاں جاتی تھی
کب کے بچھڑے ہیں مگر دیکھ ھوا کچھ بھی نہیں
کالے بال، رم جھم بارش
نیلا آنچل، تم اور میں
کندھا تیرا، اور سر میرا
پاگل سی چپ،تم اور میں
دور کہیں بارش میں بھیگی
پیلی سرسوں، تم اور میں
اونچے پربت، نیلے ساگر
پاگل بارش، تم اور میں
سوچو تو کیا لمحہ ہو گا
بارش چھتری تم اور میں 🙂
میں ہوں شکوہ کناں، کروں کیسے
زخم دل کے عیاں کروں کیسے
درد نے سی دیئے ہیں لب میرے
اپنی حالت بیاں کروں کیسے
شکیلہ شفق گل 🌹
تاریخ کی قبروں میں اُتر کیوں نہیں جاتے
یہ گزرے ہوئے لوگ،گزر کیوں نہیں جاتے
جون ایلیا | کتاب : کیوں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain