چھوڑ جانے پر ہی یہ کہانی ____ ختم ہوئ
مطلب میں اور تم بھی اوروں کی طرح تھے؟
نینو بٹ 🖤
دوسروں کا درد اخترؔ میرے دل کا درد ہے
مبتلائے غم ہے دنیا اور میں غم خوار ہوں
اختر انصاری
غمِ حبیب شکایت ہے زندگی سے مجھے
ترے بغیر بھی کٹتی رہی ذرا نہ رُکی !!
#kk💔⚘️
دلوں سے ترک تعلق کا ڈر نکل جائے
ترا مزاج ذرا سا اگر بدل جائے
سبھی کے سامنے ہے اک ہجوم رشتوں کا
وہ کامراں ہے جو اس بھیڑ سے نکل جائے
اس ارتکاب تمنا پہ کیا سزا دو گے
تمہارے قدموں پہ کوئی اگر مچل جائے
مرے سلام کا رسماً بھی دیجئے نہ جواب
مری طرف سے کبھی ذہن اگر بدل جائے
سوائے اک ترے چہرے کے بھول کر میں نے
اگر نگاہ اٹھائی ہو آنکھ جل جائے
ہوش نعمانی رامپوری
#hiba____writes
اُسے لگتا ہے جب چاہے لوٹ آئے گا میرے پاس
اُسے معلوم نہیں کہانی ختم ہو رہی ہے اس بار🔥
فسردہ رخ، لبوں پر اک نیاز آمیز خاموشی
تبسم مضمحل تھا، مرمریں ہاتھوں میں لرزش تھی
وہ کیسی بے کسی تھی تیری پر تمکیں نگاہوں میں
وہ کیا دکھ تھا تری سہمی ہوئی خاموش آہوں میں
فیض احمد فیض
تیرے تکبر سے زیادہ ہے گستاخ میرا لہجہ
میرا ظرف نہ آزما مجھے خاموش رہنے دے 🖤🙂
ٹُوٹ گئے __سبھی بَھرم ، کیسا وجُود ، کیا عدم _!
اب نہ سنبھال پائے گا ____ تیرا خیال بھی مجھے
وفا سے وعدہ نہیں، وعدہ دگر بھی نہیں
وہ مجھ سے روٹھے تو تھے لیکن اس قدر بھی نہیں
برس رہی ہے حریم ہوس میں دولت حسن
گدائے عشق کے کاسے میں اک نظر بھی نہیں
نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہگزر بھی نہیں
نگاہ شوق سر بزم بے حجاب نہ ہو
وہ بے خبر ہی سہی اتنے بے خبر بھی نہیں
یہ عہد ترک محبت ہے کس لیے آخر
سکون قلب ادھر بھی نہیں، ادھر بھی نہیں
فیض احمد فیض
کتابِ عُمر کا اِک اور باب ختم ھوا
شباب ختم ھوا اِک عذاب ختم ھوا
ھوئی نجات سفر میں فریبِ صحرا سے
سراب ختم ھوا اِضطراب ختم ھوا
بَرس کے کھُل گیا بادل ہَوائے شب کی طرح
فلک پہ برق کا وہ پیچ و تاب ختم ھوا
جوابدہ نہ رھا میں کسی کے آگے مُنیرؔ
وہ اِک سوال اور ، اُس کا جواب ختم ھوا
منیر نیازی
ہاں! یہ سچ ہے کہ ترستے تھے تکلّم کو کبھی
اب یہ کوشش کہ تیرا ذکر نہ ہو، بات نہ ہو
کاش ڈھونڈے تُو مجھے گھوم کے بستی بستی
اور دعا میری، کبھی تجھ سے ملاقات نہ ہو
شمع طاہر
ذوقِ بربادیء دل کو بھی نہ کر تُو برباد
دل کی اُجڑی ہوئی بگڑی ہوئی دنیا نہ بنا
عشق میں دیدہ و دل شیشہ و پیمانہ بنا
جُھوم کر بیٹھ گئے ہم وہیں میخانہ بنا
نگہِ ناز سے پوچھیں گے کسی دن یہ ذہین
تُو نے کیا کیا نہ بنایا کوئی کیا کیا نہ بنا
بابا ذہین شاہ تاجیؒ
موجیں بہم ہُوئیں ، تو کِنارہ نہیں رہا
آنکھوں میں کوئی خُواب دوبارہ نہیں رہا
گھر بچ گیا کہ دور تھے، کُچھ صاعقہ مزاج
کُچھ آسمان کا بھی اِشارہ نہیں رہا
بُھولا ہے کون ایڑ لگا کر حیات کو
رُکنا ہی رخشِ جاں کو گوارا نہیں رہا
جب تک وُہ بے نشان رہا، دسترس میں تھا
خُوش نام ہو گیا ــــــ تو ہمارا نہیں رہا
گم گشتۂ سفر کو جب اپنی خبر مِلی
رَستہ دِکھانے والا سِتارہ نہیں رہا
کیسی گھڑی میں ترکِ سفر کا خیال ہے
جب ہم میں لوٹ آنے کا یارا نہیں رہا
پروینؔ شاکر
بدن تو جل گئے، سائے بچا لیے ہم نے
جہاں بھی دھُوپ ملی، گھر بنا لیے ہم نے
اُس امتحان میں سنگِین کِس طرح اُٹھتی
دُعا کے واسطے جب ہاتھ اُٹھا لیے ہم نے
کٹھن تھی شرطِ رَہِ مسُتقِیم، کیا کرتے!
ہر ایک موڑ پہ کُتبے سجا لیے ہم نے
ہمارے بس میں کہاں تھا ،کہ ہم لُہو دیتے
یہی بہت ہے کہ، آنسُو بہا لیے ہم نے
سمندروں کی مُسافت پہ جِن کو جانا تھا
وہ بادباں، سَرِ ساحِل جلا لیے ہم نے
بڑے تپاک سے کُچھ لوگ ملِنے آئے تھے
بڑے خلُوص سے دُشمن بنا لیے ہم نے
محسن ؔبھوپالی
ایک پل میں زندگی بھر کی اداسی دے گیا
وہ جدا ہوتے ہوئے کچھ پھول باسی دے گیا
نوچ کر شاخوں کے تن سے خشک پتوں کا لباس
زرد موسم بانجھ رت کو بے لباسی دے گیا
صبح کے تارے مری پہلی دعا تیرے لیے
تو دل بے صبر کو تسکیں ذرا سی دے گیا
لوگ ملبوں میں دبے سائے بھی دفنانے لگے
زلزلہ اہل زمیں کو بد حواسی دے گیا
تند جھونکے کی رگوں میں گھول کر اپنا دھواں
اک دیا اندھی ہوا کو خود شناسی دے گیا
لے گیا محسنؔ وہ مجھ سے ابر بنتا آسماں
اس کے بدلے میں زمیں صدیوں کی پیاسی دے گیا
محسن نقوی ✍
وہ چھت پہ آئے تو مہتاب دیکھتا ہی رہا
وہ چھت پہ آئے تھے مہتاب دیکھنے کے لئے
دعا کرو نہ ہوں وہ نیند سے کبھی محروم
جو جی رہے ہیں فقط خواب دیکھنے کے لئے
راجیش ریڈی
حدود ذات سے باہر نکل کر دیکھ ذرا
نہ کوئی غیر نہ کوئی رقیب لگتا ہے
اور یہ دوستی ، یہ مراسم
یہ چاہتیں ،یہ خلوص
کبھی کبھی مجھے سب کچھ عجیب لگتا ہے
✨🤍
#نورچشم
تُم نے بھی ٹھکرا ہی دیا ہے دُنیا سے بھی دُور ہوُئے
اپنی اَنا کے سارے شیشے آخر چکنا چور ہوئے
ہم نے جن پر غزلیں سوچیں اُن کو چاہا لوگوں نے
ہم کتنے بدنام ہوُئے تھے، وہ کتنے مشہور ہوئے
ترکِ وفا کی ساری قسمیں اُن کو دیکھ کے ٹوٹ گئیں
اُن کا ناز سلامت ٹھہرا، ہم ہی ذرا مجبور ہوئے
ایک گھڑی کو رُک کر پوچھا اُس نے تو احوال مگر
باقی عُمر نہ مُڑ کر دیکھا، ہم ایسے مغرور ہوئے
اب کے اُن کی بزم میں جانے کا گر محسنؔ اذن ملے
زخم ہی ان کی نذر گزاریں اشک تو نا منظور ہوئے
محسن نقوی
(عذابِ دید)
ساقی میں اپنے بخت پہ قانع تو ہوں مگر..
اتنی بھی کم نہ دے کہ مری شب بسر نہ ہو___!!✌️🖤
سلام سندیلوی
بچھڑ کے تجھ سے یہ سوچوں کہ دل کہاں جائے
سحر اداس کرے ، شام رائیگاں جائے
زمیں بدر جو ہوئے ہو تو میرے ہمسفرو !
چلے چلو کہ جہاں تک یہ آسماں جائے
بچھڑ چلا ہے تو میری دعا بھی لیتا جا
وہاں وہاں مجھے پائے جہاں جہاں جائے
جلوں تو یوں کہ ازل جگمگا اٹھے مجھ سے
بجھوں تو یوں کہ ابد تک میرا دھواں جائے
میں اپنے گھر کی طرف جا رہا ہوں یوں محسن
کہ جیسے لٹ کے کسی بن میں کارواں جائے
محسن نقوی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain