دنیا میں ترے عشق کا چرچا نہ کریں گے
مر جائیں گے لیکن تجھے رسوانہ کریں گے
قربان کریں گے کبھی دل جاں کبھی صدقے
تم اپنا بنا لو گی تو کیا کیا نہ کریں گے
گستاخ نگاہوں سے اگر تم کو گلہ ہے
ہم دور سے بھی اب تمہیں دیکھا نہ کریں گے
اختر یہ گھٹائیں یہ ہوائیں یہ فضائیں
توبہ کریں اس حال میں توبہ نہ کریں گے
اختر شیرانی
یہ منافق ریاکار بھکاری دنیا
ایسی دنیا نہیں ہو سکتی ہماری دنیا
لوگ دنیا کے لیے تخت بچھانے پر رہے
ہم نے جوتوں کی طرح پہنی اتاری دنیا
اک جیسے ہی لگے مجھے سات ارب چہرے
اک جیسی ہی لگی مجھے یہ ساری دنیا
میں نے دنیا کی طرف سنگ ملامت پھینکا
اب میری گھات میں رہتی ہے شکاری دنیا
تُو بھرے گی میرا کشکول ہنسی آتی ہے
اے ہوس زادی فقط بھوک کی ماری دنیا
اک تو تیرے لیے لوگ نئے وقت نیا
اک میں ، میرے لیے یہ گزری گزاری دنیا
🍁🇨🇦⭐🔥
وہ بھی نہ آیا عمر گزشتہ کے مثل ہی
ہم بھی کھڑے رہے در و دیوار کی طرح
پھر دل یہ کہے رہا ہے چلو آرزو کریں
کچھ اور ہے نصیب مگر جستجو کریں ۔
محفل سے بھی عزیز وہ تنہائی کیوں نہ ہو
جس میں ہم اپنے آپ سے کچھ گفتگو کریں
سب کچھ تیری رضا سے ہی مشروط ہے تو پھر
اب تجھ سے پوچھ کر ہی کوئی آرزو کریں ۔
اتنی کدورتیں ہیں تو کیونکر ملاے ہاتھ
جب ربط دل نہیں ہے تو کیوں گفتگو کریں۔
اب تار مصلحت سے الجھنے لگا ہے دل
عنبر لباس زیست کہاں تک رفو کریں ۔
جُستَجُو کھوئے ہوؤں کی عُمر بَھر کرتے رہے
چاند کے ہم رَاہ ہم ہر شَب سفر کرتے رہے
راستوں کا عِلم تھا ہم کو نہ سِمتوں کی خبر
شہر نا معلوم کی چاہت مگر کرتے رہے
ہم نے خُود سے بھی چُھپایا اور سارے شِہر کو
تیرے جانے کی خبر دیوار و دَر کرتے رہے
وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اُس شام بھی
اِنتظار اُس کا مگر کُچھ سُوچ کر کرتے رہے
آج آیا ہے ہمیں بھی اُن اُڑانوں کا خیال
جِن کو تیرے زُعْم میں بے بال و پر کرتے رہے
#پروین____شاکر
ضروری مشورے دینے سے پہلے
کوئی آ کر ہمارے دن گزارے
زمیں کی اُلجھنوں سے تھوڑا سا اوپر بنائیں گے
پہاڑوں پرکہیں اک خوبصورت گھر بنائیں گے
کبھی تو آپ جانِ جاں ہمارے بال سلجھانا
کبھی ہم اپنے ہاتھوں آپ کا بستر بنائیں گے
حمزہ حسام
کوئی دل جوئی نہیں، کوئی پذیرائی نہیں
زخم کا زخم مداوا ہے، مسیحائی نہیں
غور سے دیکھ ذرا دیکھے ہوئے چہروں کو
ایسے لگتا ہے کسی سے بھی شناسائی نہیں
ایک محفل ہے جو برپا ہی نہیں ہوتی کبھی
یعنی افسوس کہ تنہائی میں تنہائی نہیں
لٹ چکی بزمِ سخن لطفِ معانی والی
شعر میں درد نہیں، لفظ میں رعنائی نہیں
خواب میں چلتے ہوئے شخص ذرا دیکھ کے چل
یہ جگہ وہ ہے جہاں کھائی ہے، گہرائی نہیں
میں بھی اُس ملک میں خاموش ہوں جس ملک کے پاس
ایٹمی بم ہیں مگر قوتِ گویائی نہیں
مقصود وفا
🌹لفظ بن کر مرے ہونٹوں سے ادا ہو جانا
پھر جو چاہو تو بھلے مجھ سے خفا ہو جانا🌹
تو سکونت ہے تو ہر شب مجھے آغوش میں لے
گر تماشا ہے تو پھر روز بپا ہو جانا
🌹شہر کے سارے گلی کوچے ہیں ویراں، خاموش
ایسی خاموشی میں آنا تو صدا ہو جانا🌹
میں تو کمتر تھا، سو کمتر ہوں، رہوں گا کمتر
تجھے زیبا ہے مرے دوست! بڑا ہو جانا
میں بری ہونے کے آداب سے باغی ہوا ہوں
مرے زنداں میں جو آئے وہ ہوا ہو جانا
سلمان حیدر آفاق
مَـیکـدے بند ہُوئـے ، ڈُھونڈ رہا ہُوں تُجھکو
تو کہاں ہے مجھـے آنکھـوں سـے پلانے والے
کاش لے جاتے کبھی مانگ کے آنکھیں میری
یـہ مــصــور تِـیری تـصـویـر بـنــانـے والـے
قتیلؔ شفائی
ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی
اس رات دیر تک وہ رہا محو گفتگو
مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی
مجھ سے بچھڑ کے شہر میں گھل مل گیا وہ شخص
حالانکہ شہر بھر سے عداوت اسے بھی تھی
وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا
ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی
سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں
شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی
تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پہ کھلا یہ بھید
سائے سے پیار دھوپ سے نفرت اسے بھی تھی
محسنؔ میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حال دل
درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی
محسن نقوی
چاندنی شب ہے ستاروں کی ردائیں سی لو
عید آئی ہے بہاروں کی ردائیں سی لو
چشم ساقی سے کہو تشنہ امیدوں کے لیے
تم بھی کچھ بادہ گساروں کی ردائیں سی لو
ہر برس سوزن تقدیر چلا کرتی ہے
اب تو کچھ سینہ فگاروں کی ردائیں سی لو
لوگ کہتے ہیں تقدس کے سبو ٹوٹیں گے
جھومتی راہ گزاروں کی ردائیں سی لو
قلزم خلد سے ساغرؔ کی صدا آتی ہے
اپنے بے تاب کناروں کی ردائیں سی لو
ساغر صدیقی
ہم نے بڑے فریب میں ، کاٹی ہے زندگی
مقصد تمام عمر کا ، فِکرِ معاش تھا۔
تماشا کہ اے محوِ آئینہ داری
تجھے کس تمنّا سے ہم دیکھتے ہیں
مرزاغالب
منظر سے کبھی دل کے وہ ہٹتا ہی نہیں ہے
اک شہر جو بستے ہوئے دیکھا ہی نہیں ہے
کچھ منزلیں اب اپنا پتہ بھی نہیں دیتیں
اور راستہ ایسا ہے کہ کٹتا ہی نہیں ہے
اک نقش کہ بن بن کے بگڑتا ہی رہا ہے
اک خواب کہ پورا کبھی ہوتا ہی نہیں ہے
کیا ہم پہ گزرتی ہے تمہیں کیسے بتائیں
تم نے تو پلٹ کر کبھی پوچھا ہی نہیں ہے
اک عمر گنوائی ہے تو پھر دل کو ملا ہے
وہ درد کہ جس کا کوئی چارہ ہی نہیں ہے
یہ عشق کی وادی ہے ذرا سوچ سمجھ لو
اس راہ پہ پاؤں کوئی دھرتا ہی نہیں ہے
ڈھونڈے سے خدا ملتا ہے انسان ہے وہ تو
تم نے اسے شبنمؔ کبھی ڈھونڈا ہی نہیں ہے
#شبنم شکیل
ایک قبیلہ چھوڑ دیا اور اِک دُنیا آباد رکھی
میں نے پہلا شعر لکھا اور شجرے کی بُنیاد رکھی
تُو نے کہا تھا عشق میں تنہا کیسے جی سکتا ہے کوئی
تجھ کو بُھول گئے اور تیری بات ہمیشہ یاد رکھی
سلیم_کوثر
خوابوں میں ملوں گی نہ خیالوں میں ملوں گی
میں تم کو محبت کے حوالوں میں ملوں گی
کیوں ڈھونڈ تے رھتے ھو 'مجھے اہل زمین میں
میں عکس ھوں اور چاند کے ہالوں میں ملوں گی
محسوس کرو گے تو سدا پاؤ گے ھمراہ
راتوں میں کبھی دن کے اجالوں میں ملوں گی
تم بات بدل دو گے مرے ذکر پہ لیکن
ھر بار زمانے کے سوالوں میں ملوں گی
وعدہ ھے مرا مجھ کو قضا لے بھی گئی تو
پا کیزہ محبت کی مثالوں میں ملوں گی
پروین شاکر
رات کو مسمار ہوئے، دن کو تعمیر ہوئے۔۔!!
خواب ہی خواب فقط، روح کی جاگیر ہوئے۔۔!!
عمر بھر لکھتے رہے، پھر بھی ورق ساده رہا۔۔!!
جانے کیا لفظ تھے، جو ہم سے نا تحریر ہوئے۔۔!!
یہ الگ دکھ ہے کے، ہاں تیرے دکھوں سے آزاد۔۔!!
یہ الگ قید ہے ہم، کیوں نا زنجیر ہوئے۔۔!!
دیده و دل میں تیرے، عکس کی تشکیل سے ہم۔۔!!
دھول سے پھول ہوئے، رنگ سے تصویر ہوئے۔۔!!
کچھ نہیں یاد گزشتہ شب کی محفل میں فراز۔۔!!
ہم جدا کس سے ہوئے، کس سے بغل گیر ہوئے۔۔!!
✍️ احمد فراز🍁
🍁
ن م راشد
حسرت انتظار یار نہ پوچھ
ہائے وہ شدت انتظار نہ پوچھ
رنگ گلشن دم بہار نہ پوچھ
وحشت قلب بے قرار نہ پوچھ
صدمۂ عندلیب زار نہ پوچھ
تلخ انجامئ بہار نہ پوچھ
غیر پر لطف میں رہین ستم
مجھ سے آئین بزم یار نہ پوچھ
دے دیا درد مجھ کو دل کے عوض
ہائے لطف ستم شعار نہ پوچھ
پھر ہوئی یاد مے کشی تازہ
مستی ابر نو بہار نہ پوچھ
مجھ کو دھوکا ہے تار بستر کا
نا توانئ جسم یار نہ پوچھ
میں ہوں نا آشنائے وصل ہنوز
مجھ سے کیف وصال یار نہ پوچھ
میری چاہت کی بہت لمبی سزا دو مجھ کو
کرب تنہائی میں جینے کی دعا دو مجھ کو
فن تمہارا تو کسی اور سے منسوب ہوا
کوئی میری ہی غزل آ کر سنا دو مجھ کو
حال بے حال ہے تاریک ہے مستقبل بھی
بن پڑے تم سے تو ماضی مرا لا دو مجھ کو
آخری شمع ہوں میں بزم وفا کی لوگو
چاہے جلنے دو مجھے چاہے بجھا دو مجھ کو
خود کو رکھ کے میں کہیں بھول گئی ہوں شاید
تم مری ذات سے ایک بار ملا دو مجھ کو
نکہت افتخار
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain