ابراہیم اشکؔ
روبرو ان کے کوئی حرف ادا کیا کرتے
درد تو ہم کو چھپانا تھا صدا کیا کرتے
بے وفائی بھی وفا ہی کی طرح کی اس نے
ایسے انسان سے کرتے تو گلہ کیا کرتے
چھن گئیں ہاتھ اٹھانے سے دعائیں مہنگی
حوصلہ پھر وہ دعاؤں کا بھلا کیا کرتے
کچھ تو آتے رہے امید کے جھونکے ورنہ
اتنا شاداب مجھے آب و ہوا کیا کرتے
اپنے معیار سے گرنا نہیں آیا ہم کو
اپنے کردار کو ہم اس سے سوا کیا کرتے
جب بھی آیا کوئی اچھا ہی خیال آیا ہے
اشکؔ ہم جیسے زمانے کا برا کیا کرتے
ہنستا ہوں تیرے بغیر بھی کتنے غرور سے
اے امیر شہر دیکھ ہار کے ہارا نہیں ہوں میں
میں نے یک طرفہ محبت بھی نباہی اُس سے
یعنی ایک ہاتھ سے تالی کو بجایا برسوں ..
یاد آجاتا ہے اک دوست نما راز فروش
ہم نیا دوست بناتے ہوئے رہ جاتے ہیں
بینائیوں کو کھا گئیں دیمک کی ٹولیاں، 🍁
آنکھوں سے آج بھی تیرا چہرہ نہیں گیا🖤
یہ اور بات کہ آگے ہوا کے رکھے ہیں
چراغ رکھے ہیں جتنے جلا کے رکھے ہیں
نظر اٹھا کے انہیں ایک بار دیکھ تو لو
ستارے پلکوں پہ ہم نے سجا کے رکھے ہیں
کریں گے آج کی شب کیا یہ سوچنا ہوگا
تمام کام تو کل پر اٹھا کے رکھے ہیں
کسی بھی شخص کو اب ایک نام یاد نہیں
وہ نام سب نے جو مل کر خدا کے رکھے ہیں
انہیں فسانے کہو دل کی داستانیں کہو
یہ آئینے ہیں جو کب سے سجا کے رکھے ہیں
خلوص درد محبت وفا رواداری
یہ نام ہم نے کسی آشنا کے رکھے ہیں
تمہارے در کے سوالی بنیں تو کیسے بنیں
تمہارے در پہ تو کانٹے انا کے رکھے ہیں
کشمیری لال ذاکر
تو نے دیکھا کبھی مریض ہجر
رنگ چہرے کا ذرد ہوتا ہے
آپ کہتے ہیں شاعری جس کو
وہ میرے دل کا درد ہوتا ہے
معین علی
کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر ✍️
ان اشکوں کو پانی کہنا بھول نہیں نادانی ہے،
تن من میں جو آگ لگا دے یہ تو ایسا پانی ہے،،
ہجر کی گھڑیاں دیکھ چکے ہیں موت کا ہم کو خوف نہیں،
یہ صورت تو دیکھی بھالی ہے جانی پہچانی ہے،،
کیسے تم سے عشق ہوا تھا کیا کیا ہم پر بیت رہی ہے،
سن لو تو سچا افسانہ ورنہ ایک کہانی ہے،،
مفلس بندوں پر مت ہنسنا دھن دولت کے پہرے دارو،
یہ دنیا ہے اس دنیا کی ہر شے آنی جانی ہے،،
شیخ و برہمن زاہد و واعظ بوڑھے کھوسٹ کیا جانیں،
بھول بھی ہو جاتی ہے اس میں اس کا نام جوانی ہے،،
دکھ سکھ سہنا اور خوش رہنا عشق میں لازم ہے یہ سحر،
دل والے ہو مت گھبراؤ یہ تو ریت پرانی ہے،،!!
انتخاب و کلیکشن: شہزاد قریشی 🫡
کرو گے کیا ؟ جو کبھی سچ کا باب کھولا گیا
تمہارے شہر میں تو اتنا جھوٹ بولا گیا
کہاں سے قتل کے سارے ثبوت ملنے تھے
کہ قاتلوں کو تو ؛ میزانِ زر میں تولا گیا
یہ آگ لگتا ھے اب آسماں کو چھو لے گی
جو ابتدا بنا اس کی ؛ کہاں وہ شعلہ گیا؟
مجھے یقیں ھے ؛ تری دھجیاں اڑیں گی یہاں
جو تیرے واسطے در واپسی کا کھولا گیا
کوئی سنے نہ سنے ؛ بات میں سناؤں گا
میں اتنا بولوں گا جتنا بھی مجھ سے بولا گیا
محمود غزنی
خود کو مغالطے میں رکھا ہے تمام عمر.!!
دنیا تمھارے ساتھ تو دھوکا نہیں کیا.!!
لوگوں کو جانے مجھ سے شکایت رہی ہے کیوں.!!
میں نے تو اپنے ساتھ بھی اچھا نہیں کیا.!!🥀🖤
یوں ہی تنہائی میں ہم دل کو سزا دیتے ہیں
نام لکھتے ہیں تیرا، لکھ کے مٹا دیتے ہیں
جب بھی ناکامِ محبت کا کوئی ذکر کرے
لوگ ہنستے ہیں،میرا نام بتا دیتے ہیں
اب خوشی کی کوئی ترکیب نہ سوچے دنیا
اب یہ عالم ہے کچھ غم بھی مزہ دیتے ہیں
اب تسلی نہیں دی جاتی مریضِ غم کو
دیکھنے والے بھی مرنے کی دعا دیتے ہیں
کیا ضرورت ہے رفیق برق کو یہ زحمت ہو
لاؤ ہم خود ہی نشیمن کو جلا دیتے ہیں ...
~نام لکھتے ہیں تیرا، لکھ کے مٹا دیتے ہیں ۔۔۔!!!~
🌹عشق💔 ممنوع🌹
ہر وقت میسر کی بھی وقعت نہیں رہتی
ہر وقت محبت کا بھی نقصان یہی ہے
اپنوں کے بدلتے ہوئے اندازِ تکلّم
اے دوست بُرے وقت کی پہچان یہی ہے
فیصل محمود
#HIJRZADI
ہمیں تو راس نہیں آیا وصل کا ملبوس🍁
جسے لبادہ یہ خوش آئے وہ قبول کرے🖤
دیا ہے ترک تعلق کا مشورہ دل کو🍁
سو اب پسند اسے ہو نہ ہو قبول کرے🖤
کومل جوئیہ
مجھے سب لوگ کہتے ہیں پڑھو تم صبر کی آیت
اسے کوئی نہیں کہتا کہ وہ واپس چلا آئے۔🖤
کومل جوئیہ
ایک مدت سے اُجڑتے ہی چلے آئے ہیں
ایک لمحے میں کہاں ہم نے سنور جانا ہے
جس طرح رات کٹی دن بھی گیا ہاتھوں سے
ِاس طرح ہم نے بھی اک شام گُزر جانا ہے
دیوار پہ لرزہ ھے ؛ تو دَر کانپ رہا ھے
بچھڑے ہو تو اُجڑا ہُوا گھر کانپ رہا ھے
تم آنکھ کی پتلی میں چُھپے سچ کو بھی دیکھو
مجرم تو نہیں ھے ؛ وہ اگر کانپ رہا ھے۔۔۔۔۔۔!
ویران ھے اس درجہ ترے بعد مرا دِل۔۔؛
اِس شہر میں آتے ہُوئے ڈر کانپ رہا ھے
اِک مَیں کہ جُدائی نے مجھے کر دیا ساکت
اِک تُو ھے کہ صدمے سے اُدھر کانپ رہا ھے
آنگن کو پلٹ جاؤں نہ مَیں چھوڑ کے اُس کو
صحرا میں مرا خوابِ سفر کانپ رہا ھے
یا تو مری بینائی پہ ھے خوف مُسلط
یا نہر کے پانی میں شجر کانپ رہا ھے
بُجھنے نہیں دُوں گا مَیں کبھی ہجر کے صدمے
دِل میں تری یادوں کا شرر کانپ رہا ھے۔۔!
وصی شاہ
ھمارے ساتھ ٫ کوئی بیٹھ کر نہیں رویا
سبھی نے جان چُھڑائی ٫ دُعائیں دیتے ھٗوئے
حرفِ غلط نہ تھا مجھے سمجھا گیا غلط
لکھا گیا غلط ؛ کبھی بولا گیا غلط۔۔۔..!
میں بھی غلط نہ تھا میری باتیں غلط نہ تھیں
مجھ کو ؛ میرے کلام کو ؛ جانچا گیا غلط
میزان ٹھیک تھا ؛ پلڑے بھی تھے درست
لیکن یہ کون دیکھے ؟ کہ تولا گیا غلط۔۔!
مجھ میں نہیں تھے عیب کسوٹی میں عیب تھے
میرا تھا یہ قصور ؛ مجھے پرکھا گیا غلط۔۔۔۔!!
طوفاں کے بعد ؛ ابل تدبر کو ھے یہ فکر
ساحل کا تھا قصور ؛ کہ دریا گیا غلط
افراد ہیں غلط ؛ یا غلط ہیں تصورات
یا اس معاشرے کو ہی ڈھالا گیا غلط
عبداللہ جاوید
.
تُمھارے ساتھ تَخیُّل کے کورے کاغذ پر
میں دن بناتا رہا ----اور شام ہوتی رہی
شام غم تجھ سے جو ڈر جاتے ہیں
شب گزر جائے تو گھر جاتے ہیں
وقت رخصت انہیں رخصت کرنے
ہم بھی تا حد نظر جاتے ہیں
یوں نمایاں ہیں تیرے کوچے میں
ہم جھکائے ہوے سر جاتے ہیں
اب انا کا بھی ہمیں پاس نہیں
وہ بلاتے نہیں پر جاتے ہیں
وقت سے پوچھ رہا ہے کوئی
زخم کیا واقعی بهر جاتے ہیں
زندگی تیرے تعاقب میں ہم
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
مجھ کو تنقید بھلی لگتی ہے
آپ تو حد سے گزر جاتے ہیں
طاہر فراز
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain