خمار بارہ بنکوی
مجھ کو شکست دل کا مزا یاد آ گیا
تم کیوں اداس ہو گئے کیا یاد آ گیا
کہنے کو زندگی تھی بہت مختصر مگر
کچھ یوں بسر ہوئی کہ خدا یاد آ گیا
واعظ سلام لے کہ چلا مے کدے کو میں
فردوس گم شدہ کا پتا یاد آ گیا
برسے بغیر ہی جو گھٹا گھر کے کھل گئی
اک بے وفا کا عہد وفا یاد آ گیا
مانگیں گے اب دعا کہ اسے بھول جائیں ہم
لیکن جو وہ بوقت دعا یاد آ گیا
حیرت ہے تم کو دیکھ کے مسجد میں اے خمارؔ
کیا بات ہو گئی جو خدا یاد آ گیا
تم سے میں اتنی محبت جو کیا کرتا ہوں
اپنے ہی دل کے میں زخموں کو سیا کرتا ہوں
غمِ اُلفت میں تنہائی بھی نشہ دیتی ہے
بند کمرے میں یہ مہ، میں بھی پیا کرتا ہوں
کس طرح لوگ بدلتے ہیں کبھی سوچا ہے
دل سے کیسے وہ نکلتے ہیں کبھی سوچا ہے
تجربہ کتنا انہیں ہوگا میاں دیکھو جو
ٹھوکریں کھا کے سنبھلتے ہیں کبھی سوچا ہے
آپ کے پیار میں دل ٹوٹ گیا ہو جن کا
یاد کر کر کے تڑپتے ہیں کبھی سوچا ہے
تو قدر دوست ہماری نہ کرے پھر بھی تجھے
جان سے بڑھ کے سمجھتے ہیں کبھی سوچا ہے
کیوں کسی غیر کو بدنام کروں میں اشنال
اپنے ہی اپنوں کو ڈستے ہیں کبھی سوچا ہے
اشنال سید
ہَر لغزش ہر ہیجان مُسترد کیا جا سکتا ہے
ہر سارق ہر نگہباں مُسترد کیا جا سکتا ہے
میں دیکھ رہا ہوں کہ سرمایۂ چین و قرار
کب کیسے اور کہاں مُسترد کیا جا سکتا ہے
پھول کھل جائیں جب ہتھیلی پہ تو پھر
زمیں کا ہر گلستاں مُسترد کیا جا سکتا ہے
تُو جو آ جائے مُیسر تا اَزل و اَبد تو پھر؟
عاصم یہ سارا جہاں مُسترد کیا جا سکتا ہے
✍️ عاصم حجازی
ساری خوشیوں سے اجنبی ہو کر
اک ترے غم سے روشناس رہیں
آج جی ہے کہ تجھ کو یاد کریں
اور پھر دیر تک اداس رہیں
ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے
تری رہ میں کرتے تھے سر طلب سر رہ گزار چلے گئے
تری کج ادائی سے ہار کے شب انتظار چلی گئی
مرے ضبط حال سے روٹھ کر مرے غم گسار چلے گئے
نہ سوال وصل نہ عرض غم نہ حکایتیں نہ شکایتیں
ترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے
یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سر رہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سر بزم یار چلے گئے
نہ رہا جنون رخ وفا یہ رسن یہ دار کرو گے کیا
جنہیں جرم عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے
- فیض احمد فیض
میں دوبارہ کھل جاؤں گا اور ثابت كروں گا
کہ مرجھانا محض ایک فضول کہانی ہوتی ہے
تُم بتـــؔـاؤ گے مُجھے آگ کـی حِــدَّت کتنی
عشــق ہوجائے تو ہو جــاتی ہے شِـــؔـدَّت کتنی
لوگ مِلتے ہیں بِچــؔـــھڑتے ہیں چلے جـاتے ہیں
ہاں مگر مِل کــؔے بِچھڑنے کی ہے عِــدَّت کتنی؟
🥀💔
جب حد سے گزرتے ہیں تو غم غم نہیں رہتے
اور ایسی زبوں حالی میں رویا نہیں جاتا
تحریر میں بنتی نہیں جو بات ہے دل میں
کیا درد ہے شعروں میں سمویا نہیں جاتا
سلگی ہیں مری آنکھ میں اک عمر کی نیندیں
آنگن میں لگے آگ تو سویا نہیں جاتا
اگر لگے کہ رویے بدل گئے ہیں، لہجے میں تلخی یا فاصلہ آ گیا ہے، تو خاموشی اختیار کر لیں…
مسکرا کر خود کو برا بنا کر نکل جانا اکثر عزت نفس بچا لیتا ہے۔
ہر جگہ اپنی صفائیاں دینا ضروری نہیں ہوتا، اور ہر بار وضاحت کرنا آپ کا فرض بھی نہیں۔
کبھی کبھی خاموشی ہی سب سے مضبوط جواب ہوتی ہے۔
جب دوسرے کا لہجہ زہر بن جائے تو اپنی مسکراہٹ کو ڈھال بنائیے،
کیونکہ کچھ لوگوں کی فطرت ہی ایسی ہوتی ہے — وہ محبت اور خلوص کی زبان سمجھ ہی نہیں سکتے۔
آپ جتنا بھی مخلص ہوں، سدا کسی کے لیے خاص نہیں رہ سکتے۔
وقت کے ساتھ ان کی نظر میں آپ کی اہمیت بدل سکتی ہے، لیکن یہ آپ کی قیمت کم نہیں کرتی۔
بس اتنا یاد رکھیں: کچھ لوگ اپنی کم ظرفی میں ہی خوش رہتے ہیں،
انہیں آپ کا خلوص بوجھ لگتا ہے، کیونکہ وہ خود کبھی سچا دینا جانتے ہی نہیں۔
ہائے وہ شخص کہ جس کی خوبئ گفتار سے
عشق اردو سے ہوا اور شاعری اچھی لگی!
انور جلال پوری
ویسے انمول ہیں ..... کئی پتھر ...
تیرے دل کا مگر ....جواب نہیں ...!!!
کھڑکیاں بین کرتی ہیں۔۔۔
دروازے بجائے جاتے ہیں۔۔
صحن میں کالی رات کےسائے۔۔۔
صف ماتم اٹھائے آتے ہیں۔۔۔
اک عجب سی وحشت چھاتی ہے۔۔۔
سوکھے پتےسلگائے جاتے ہیں۔۔۔
ساون جب بھی آتا ہے۔۔۔
بارشیں جب بھی برستی ہیں۔۔۔
کئی خواب جلائے جاتے ہیں
کئ دئیے بجھائے جاتے ہیں۔۔۔
کوئی دیر تلک سسکتا ہے۔۔۔
کئی وعدے دہرائے جاتے ہیں۔۔۔
اک میٹھی ہوک اٹھتی ہے۔۔۔
کچھ نشتر چلائے جاتے ہیں۔۔۔
اک مقتل سجایا جاتا ہے۔۔۔
کئی دیوانے دفنائے جاتے ہیں۔۔۔
کتنی آوازیں گھٹتی ہیں۔۔۔
کتنے شکوے دبائے جاتے ہیں۔۔۔
ایک تیری یاد کے چکر میں۔۔۔
کئ ہزار بھلائے جاتے ہیں۔۔۔
زندگی پہ کچھ اختیار بھی ہو!!
وقت کے پاؤں میں قرار بھی ہو!!
آپ کو مان لوں میں راحتِ جاں
آپ کا تھوڑا اعتبار بھی ہو !!
زود رنجی ہمیں گوارا ہے
دل میں لیکن ذرا سا پیار بھی ہو
رنگ سارے پسند ہیں مجھ کو
آپ کے شہر میں بہار بھی ہو!
زیست کاٹی کہ قید کاٹی ہے
آنے جانے پہ اختیار بھی ہو
سازِ دل چھیڑنا تو آساں ہے
رقص کرنا تِرا شعار بھی ہو
فاصلے حیثیت نہیں رکھتے
گر انہیں میرا انتظار بھی ہو
جس کو مرہم لگانا آتا ہے
حالِ دل اُس پہ آشکار بھی ہو!
ہر زلیخا پہل نہیں کرتی !!
گرچہ یوسف سے اسکو پیار بھی ہو
سامیہ ناز سیمیں
تمھیں بخشی ہے دل پہ حُکمرانی اور کیا دیتے
بس یہی تھی اپنی راجدھانی اور کیا دیتے
ستاروں سے کسی کی مانگ بھرنا اک فسانہ ہے
تمھارے نام لکھ دی زندگانی اور کیا دیتے
وہ مجھ سے مانگتا تھا عمر کا اک دلنشیں حصہ
نہ دیتے اس کو اپنی جوانی اور کیا دیتے ❤️
زندگی ، منہ بنائے پھرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔!!
جیسے حالات میرے بس میں ہیں
جنت سے جی لرزنے لگا جب سے یہ سنا
اہل جہاں وہاں بھی ملیں گے یہاں کے بعد
منٹو اور جون✍️
تُمہیں جس سے محبت ہے، تم اُس کی کھوج میں جانا
ہمارے پاس مت آنا، ہمیں تم سے محبت ہے.....!
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے
تو محبت سے کوئی چال تو چل
ہار جانے کا حوصلہ ہے مجھے
دل دھڑکتا نہیں ٹپکتا ہے
کل جو خواہش تھی آبلہ ہے مجھے
ہم سفر چاہیئے ہجوم نہیں
اک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے
کوہ کن ہو کہ قیس ہو کہ فرازؔ
سب میں اک شخص ہی ملا ہے مجھے
احمد فراز
کتنے عیش اڑاتے ہونگے؟ کتنے اتراتے ہوں گے
جانے کیسے لوگ وہ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے
اس کی یاد کی باد صبا میں اور تو کیا ہوتا ہوگا
یوں ہی میرے بال ہیں بکھرے، اور بکھر جاتے ہوں گے
وہ جو نہ آنے والا ہے، اس سے ہم کو مطلب تھا
آنے والوں سے کیا مطلب آتے ہیں آنے ہوں گے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain