فیض احمد فیض
دلچسپ معلومات
منٹگلمری جیل ۔21نومبر1953
بات بس سے نکل چلی ہے
دل کی حالت سنبھل چلی ہے
اب جنوں حد سے بڑھ چلا ہے
اب طبیعت بہل چلی ہے
اشک خوناب ہو چلے ہیں
غم کی رنگت بدل چلی ہے
یا یوں ہی بجھ رہی ہیں شمعیں
یا شب ہجر ٹل چلی ہے
لاکھ پیغام ہو گئے ہیں
جب صبا ایک پل چلی ہے
جاؤ اب سو رہو ستارو
درد کی رات ڈھل چلی ہے
اِس سے پہلے کہ میں تصویروں میں رہ جاؤں فَقط
مُجھ سے باتیں کرو دیکھو میں مُیَسَّر ہوں اَبھی 🖤
بخت کے تخت سے یکلخت اتارا ہوا شخص
تُو نے دیکھا ہے کبھی جیت کے ہارا ہوا شخص
ہم تو مقتل میں بھی آتے ہیں بصد شوق و نیاز
جیسے آتا ہے محبت سے پکارا ہوا شخص
کب کسی قرب کی جنت کا تمنائی ہے
یہ ترے ہجر کے دوزخ سے گزارا ہوا شخص
بعد مدت کے وہی خواب ہے پھر آنکھوں میں
لوٹ آیا ہے کہیں دور سِدھارا ہوا شخص
اب اندھیرے ہیں کہ لیتے ہیں بلائیں اُس کی
روشنی بانٹ گیا دیپ پہ وارا ہوا شخص
موت کے جبر میں ڈھونڈی ہیں پناہیں اس نے
زندگی یہ ہے ترے لطف کا مارا ہوا شخص
جب بھی حالات کی چھلنی سے گزارا خود کو
ہاتھ آیا ہے مرے مجھ سے نتھارا ہوا شخص
اسد خان
پروین شاکر
اگرچہ تجھ سے بہت اختلاف بھی نہ ہوا
مگر یہ دل تری جانب سے صاف بھی نہ ہوا
تعلقات کے برزخ میں ہی رکھا مجھ کو
وہ میرے حق میں نہ تھا اور خلاف بھی نہ ہوا
عجب تھا جرم محبت کہ جس پہ دل نے مرے
سزا بھی پائی نہیں اور معاف بھی نہ ہوا
ملامتوں میں کہاں سانس لے سکیں گے وہ لوگ
کہ جن سے کوئے جفا کا طواف بھی نہ ہوا
عجب نہیں ہے کہ دل پر جمی ملی کائی
بہت دنوں سے تو یہ حوض صاف بھی نہ ہوا
ہوائے دہر ہمیں کس لیے بجھاتی ہے
ہمیں تو تجھ سے کبھی اختلاف بھی نہ ہوا
شکیل بدایونی
رہا گردشوں میں ہر دم مرے عشق کا ستارہ
کبھی ڈگمگائی کشتی کبھی کھو گیا کنارہ
کوئی دل کے کھیل دیکھے کہ محبتوں کی بازی
وہ قدم قدم پہ جیتے میں قدم قدم پہ ہارا
یہ ہماری بد نصیبی جو نہیں تو اور کیا ہے
کہ اسی کے ہو گئے ہم جو نہ ہو سکا ہمارا
پڑے جب غموں سے پالے رہے مٹ کے مٹنے والے
جسے موت نے نہ پوچھا اسے زندگی نے مارا
ٹال دیتا ہوں بہانے سے سبھی لوگوں کو
مجھ کو آیا نہ تیرے بعد کسی کا ہونا " 💔
ابھی تو عشق میں ہونا کمال باقی ہے
کہ ہجر کاٹ لیا ہے وصال باقی ہے
تیری تلاشں میں آدھی صدی بتا آئی
جنوب ڈھونڈ لِیا، اب شمال باقی ہے
یہ تماشا ہے ، تماشے میں یہی ہوتا ہے
تجھ سے بہتر جو نبھائے گا، جگہ پائے گا
لوگ تو لوگ تھے __جی بھر کے خسارہ کرتے
کم سے کم ___ تم تو نہ نقصان ہمارا کرتے _!
کر تو لینا تھا ____ تیرے ساتھ گزارا لیکن
اب تیرے ساتھ بھی کرتے تو __ گزارا کرتے؟
ادب کے نام پہ سب بے ادب کردار بیٹھے ہیں
ادیبوں کے لبادے میں بڑے فنکار بیٹھے ہیں
یہ تنہائی ہمارے حال کی اکلوتی وارث ہے
ہمارے ترکے کے لیکن بہت حقدار بیٹھے ہیں
شمائلہ فاروق
اس طرح تو لگ رہا ہے چاند بھی خطرے میں ہے
اس سے مل کر میں نے جانا روشنی خطرے میں ہے
اس کی صورت دیکھ کر بولا ستاروں سے قمر
یار لگتا ہے کہ اپنی نوکری خطرے میں ہے
اس کے ہاتھوں میں چھری کو دیکھ کر حیران ہوں
انگلیاں خطرے میں ہیں یا پھر چھری خطرے میں ہے
کیا کہا تم نے اسے دیکھا ہے اپنے شہر میں
یعنی اب تو شہر کا ہر آدمی خطرے میں ہے
کون ہیرا ہے یہاں اور کون ہے ہیرا نما
فرق اتنا سا بتا کر جوہری خطرے میں ہے
جھیل سی آنکھوں میں اس کی ڈوب سکتی ہے کبھی
روک لو اس کو کوئی جا کر ندی خطرے میں ہے
بے سر و پا شعر کہہ کر خوش تھا میں عامر عطاؔ
میرؔ جی سپنے میں بولے شاعری خطرے میں ہے
عامر عطا
𝕗𝕒𝕣𝕚
کیا عجب شرطیں رکھیں ہم پر ہدایت کار نے !
مسخرے کا رُوپ دھاریں ، مُسکرائیں بھی نہیں🤍
میری تصویر نہیں تجھ سے بنے گی پاگل
ترے پاس رنگ نہیں ، رنگ اُڑانے والے!!
تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑی دیر بعد لوٹے ہو
درد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کافور ہوگئے اب تو
اب ضرورت نہیں ہے مرہم کی
زخم ۔۔۔۔۔۔۔ ناسُور ہوگئے اب تو
اک محلّے میں رہا گھر نہیں بدلا اُس نے
پر چلےجانے کا بھی ڈر نہیں بدلا اُس نے 💔
آسماں صاف ہوا تو نئی منزل ڈھونڈی
دھند رہتے ہوئے بستر نہیں بدلا اُس نے🥀
یہ بتاتا رہا کہ مجھ سے محبت ہے اسے
چھوڑتے وقت بھی چکر نہیں بدلا اُس نے
کپڑے بدلے ہیں کہ خوشبو نئی زائل ہو جائے
اور الگ بات کہ زیور نہیں بدلا اُس نے ✨
پھر کوئی اور بھی مجبوری نکل سکتی ہے
چار چھ سال تو نمبر نہیں بدلا اُس نے🖤
بند کمرے میں کھلا پھر سے خزانہ مجھ پر
کوئی بھی قیمتی پتھر !!! نہیں بدلا اُس نے !❤️
وہی کچھ دوست مرے ساتھ ہیں اس کے اب تک
دیکھ کر لگتا ہے لشکر نہیں بدلا اُس نے ! 🥀
#Ash💉
شہرِ خیال و خواب میں آباد ہو گیا
اتنا اسے پڑھا کہ مجھے یاد ہو گیا
میں آج تک ہوں جس کے فریب و حصار میں
وہ اور ہی کسی کا، میرے بعد ہو گیا
اندھی ہوا کا ساتھ نبھانے کے شوق میں
کوئی تباہ ہوا، کوئی برباد ہو گیا
اپنی تو ساری عمر اسیری میں کٹ گئی
جس نے بھی ہار مان لی، آزاد ہو گیا
پہلے تو پانیوں سے میری گفتگو رہی
پھر یوں ہوا کہ آئینہ ایجاد ہو گیا
شمشیر حیدر
#Ghazal
اکٹھے ہیں مگر یہ طے نہیں ہے
محبت تھی، نہیں تھی، ہے، نہیں ہے
تو کیا سچ مچ دعا سے تو ملے گا
تو کیا پہلے سے سب کچھ طے نہیں ہے
ھم آج بھی ھیں سوچ میں ڈوبے ھوئے محسنؔ
خود سے کبھی دُنیا سے رُوٹھے ھوئے محسنؔ
دینے کے لئے اُس کو، جو ھم نے سنبھالے تھے
وہ پُھول کِتابوں میں ھیں ، سُوکھے ھوئے محسنؔ
وہ اپنی جَفاؤں میں کُچھ کمی تو کریں آج
اک عُمر ھوئی شہر وہ چھوڑے ھوئے محسنؔ
ھم نے یہ کہا تھا کہ اُنہیں پیار ھے ھم سے
ھم آج بھری بَزم میں جُھوٹے ھوئے محسنؔ
آغوش میں اُن کی ھمیں رَاحت جو مِلی ھے
ھم آج کُچھ اندر سے ھیں ٹُوٹے ھوئے محسن
سید محسن نقوی
خدا کرے کہ مرے حافظے سے مٹ جائیں
ترے نقوش، وہ اک شام، اور تری آواز
سیماب ظفر
سر پہ اب سائباں نہیں ہے تو کیا
تو اگر مہرباں نہیں ہے تو کیا
وہ مکاں وہ گلی وہ لوگ تو ہیں
کوئی اپنا وہاں نہیں ہے تو کیا
تم کو کیا مل گیا ، ادھر ہم کو
فکر سود و زیاں نہیں ہے تو کیا
جو مرے روز و شب کا قصہ ہے
وہ تری داستاں نہیں ہے تو کیا
چیختا پھر رہا ہے جو ہے یہاں
میرے بس میں زباں نہیں ہے تو کیا
حال دل کی تجھے خبر ہے تو پھر ؟
تجھ پہ کچھ بھی عیاں نہیں ہے تو کیا
ہے تو سب کچھ یہاں پہ وہم و گماں
اور وہم و گماں نہیں ہے تو کیا ؟
ابرار احمد
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain