انا کو روند کے ہم ایسا کام کر نہ سکے
امیرِ شہر کو بڑھ کے سلام کر نہ سکے
بچھا نہ پائے ہم آنکھوں کے سرخ غالیچے
تمہارے آنے پہ کچھ اہتمام کر نہ سکے
جو تیرے سنگ کسی جھیل پر گزاری تھی
وہ شام ہم تری آنکھوں کے نام کر نہ سکے
تمہارے شہر کی آب و ہوا تھی راس مگر
تپاک دیکھ کے یاں بھی قیام کر نہ سکے
فقیہِ شہر سے مرعوب تو ہوئے تھے سبھی
پر اس کا دل سے کبھی احترام کر نہ سکے
بہت تھا دبدبہ اہلِ ستم کے لشکر کا
وہ پھر بھی شہرِ وفا کو غلام کر نہ سکے
ہمیں جو دیکھا دعا کے حصار میں ثاقب
وہ اپنی تیغِ ستم بے نیام کر نہ سکے
✍️حُسین ثاقب
نظر کا جادُو ہے، دل کو بہا لیا اُس نے
ادب کا پردہ تھا، پھر بھی اُٹھا لیا اُس نے
حیا کی اوٹ میں ایسے جتن دکھائے گئے
کہ ہر گُماں کو حقیقت بنا لیا اُس نے
کبھی خفا، کبھی مسکان کے اشارے سے
ہر ایک پل کو نیا رنگ دے لیا اُس نے
سکوتِ لب بھی تھا اور بات کی کرن بھی تھی
فریب ایسا کہ دل کو لگا لیا اُس نے
وفا کے وعدوں میں ایسا فسوں چھپا رکھا
کہ زخمِ دِل کو بھی مرہم بنا لیا اُس نے
نظر ملی تو کئی راز کھل گئے امیرؔ
بڑا حریف تھا، پھر بھی ہرا لیا اُس نے
نجم الحسن امیرؔ
کوئی سنے نہ سنے بات میں سناؤں گا
میں اتنا بولوں گا جتنا بھی مجھ سے بولا گیا
کرو گے کیا ؟ جو کبھی سچ کا باب کھولا گیا
تمہارے شہر میں تو اتنا جھوٹ بولا گیا
کہاں سے قتل کے سارے ثبوت ملنے تھے
کہ قاتلوں کو تو میزانِ زر میں تولا گیا
یہ آگ لگتا ہے اب آسماں کو چھو لے گی
جو ابتدا بنا اس کی ، کہاں وہ شعلہ گیا؟
جدھر بھی دیکھتا ہوں خون کی لکیریں ہیں
کہاں اتار کے مجھ کو اڑن کھٹولا گیا
ابھی زمین ہی زخمی ہوئی ہے شعلوں سے
ابھی ہوا میں نہیں سارا زہر گھولا گیا
مجھے یقیں ہے تری دھجیاں اڑیں گی یہاں
جو تیرے واسطے در واپسی کا کھولا گیا
کوئی سنے نہ سنے بات میں سناؤں گا
میں اتنا بولوں گا جتنا بھی مجھ سے بولا گیا
محمود غزنی
وہم و گماں کے لوگ تھے، وہم و گماں میں ہی رہے
دیکھا تو کوئی بھی نہ تھا، سوچا تو شہر بھر گیا ۔۔۔
لپٹی ہوئی خراب طبیعت کا کیا بنا ؟
اے شخص تیرے دل کی اذیت کا کیا بنا ؟
اے شخص تیرے گہرے تعلق کہاں گئے
اے شخص تیری پہلی محبت کا کیا بنا ؟
#HIJRZADI
تیرے سائے میں کھڑا شخص گرائے گا تجھے۔۔
میں نے یہ بات بھی دیوار کو سمجھائی تھی۔۔
#HIJRZADI
خدا کرے تیرے دامن پہ گردِ غم نہ پڑے
تجھے نہ دشتِ مصائب میں لائے زندگی ۔
#HIJRZADI
باغ میں لگتا نہیں صحرا سے گھبراتا ہے دل
اب کہاں لے جا کے بیٹھیں ایسے دیوانے کو ہم
اچھا!! وہ باغ خلد، جہاں رہ چکے ہیں ہم؟
ہم سے ہی کر رہا ہے، تو زاہد وہاں کی بات
یہ سہولت ہی نہیں آنکھ کو بخشی ہم نے
کہ آپ کے بعد کوئی اور اس میں جچ جائے
ہم تو اَزل سے گنہگار ٹھہرے _________!!!
تمہیں مبارک ہو صحبت پارساؤں کی______________🥀🖤
حدِ ادب کی بات تھی حدِ ادب میں رہ گئی !
اس نے کہا میں چلا میں نے کہا جائیے ۔۔۔۔۔۔!
صورت کے آئینے میں دل پائمال دیکھ
الفت کی واردات کا حسن مثال دیکھ
جب اس کا نام آئے کسی کی زبان پر
اس وقت غور سے میرے چہرے کا حال دیکھ
پلا دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے______________🥀🖤
غالب
اُس نے پیمانے کو آنکھ کے برابر رکھا
اُس کو اچھا نہیں لگتا سنبھلتا ہوا میں
عدنان محسن
یہ میرا آخری سگریٹ ہے, اب گھر جانے دے
یا پھر بانہوں میں جذب کر, یہیں مر جانے دے
یہ جتنے پھول کِھلے ہیں اِنہیں شرمندہ کر
اپنے بالوں کو کُھلا چھوڑ اِنہیں مُرجھانے دے🖤✌
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں
بے ادب گریۂ محرومئ دیدار نہیں
ورنہ کچھ در کے سوا حاصل دیوار نہیں
آسماں بھی ترے کوچہ کی زمیں ہے لیکن
وہ زمیں جس پہ ترا سایۂ دیوار نہیں
ہائے دنیا وہ تری سرمہ تقاضہ آنکھیں
کیا مری خاک کا ذرہ کوئی بیکار نہیں
فانی بدایونی
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں
بے ادب گریۂ محرومئ دیدار نہیں
ورنہ کچھ در کے سوا حاصل دیوار نہیں
آسماں بھی ترے کوچہ کی زمیں ہے لیکن
وہ زمیں جس پہ ترا سایۂ دیوار نہیں
ہائے دنیا وہ تری سرمہ تقاضہ آنکھیں
کیا مری خاک کا ذرہ کوئی بیکار نہیں
فانی بدایونی
ؑغافل تری نظر ہی سے پردہ اٹھا نہ تھا
ورنہ وہ کس مقام پہ جلوہ نما نہ تھا
روشن چراغ عشق نے کی منزل حیات
ورنہ وہ تیرگی تھی کہ کچھ سوجھتا نہ تھا
مقصود ایک تیرے ہی در کی تھی جستجو
دیر و حرم سے مجھ کو کوئی واسطہ نہ تھا
آواز دے رہے تھے جسے بے خودی میں ہم
دیکھا تو وہ ہمیں تھے کوئی دوسرا نہ تھا
وہ تو شکایت اپنی وفاؤں کی تھی حضور
کچھ آپ کی جفاؤں کا شکوہ گلہ نہ تھا
مانا کہ دور تھا تو نگاہوں سے اے کریم
لیکن ترا خیال تو دل سے جدا نہ تھا
ہم آپ اپنی منزل مقصود تھے امیدؔ
جاتے کہاں کہ خود سے پرے راستہ نہ تھا
فراق گورکھپوری
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain