کچھ تعلق بھی نہیں، پھر بھی خفا ہُوں تُجھ سے
جانے کس مان پہ مَیں رُوٹھ گیا ہُوں تُجھ سے
مُجھے کم عُمرسمجھ کے مِری تضحیک نہ کر
مَیں محبت میں کئی سال بڑا ہُوں تُجھ سے
جس طرح دودھ میں گُھل جاتی ہے چینی، جاناں !
مَیں خیالوں میں اُسی طرح مِلا ہُوں تُجھ سے
گیند بن کر ترے پیروں میں پڑا ہوں کہ تُو کھیل
تُو سمجھتا ہے کہ مَیں کھیل رہا ہُوں تُجھ سے
میرے اجزا میں نہ مٹی ہے نہ پانی ہے نہ آگ
میرے پیکر کو پرکھ لے، مَیں بنا ہُوں تُجھ سے
اے چٹانوں کی طرح مُجھ کو دبانے والے !
دیکھ چشمے کی طرح پھوٹ بہا ہُوں تُجھ سے
میری رگ رگ تری رگ رگ سے جُڑی ہے، مِرے یار !
ظاہری طور پہ تو دُور کھڑا ہُوں تُجھ سے
اے اُداسی ! مَیں ادب اس لیے کرتا ہُوں ترا
غم کے جتنے بھی سبق ہیں، مَیں پڑھا ہُوں تُجھ سے
رحمان فارس
تم پہ اُتری ہی نہیں ہجر کی اندھی راتیں
تُم نے دیکھا ہی نہیں، چاند کا کالا ہونا
کچھ وصال آخر تک ، معتبر نہیں ہوتے
ساتھ چلنے والے بھی ، ہمسفر نہیں ہوتے
کچھ کہے بنا اکثر ، بولتی ہیں آنکھیں بھی
گفتگو کے سب لمحے، حرف گر نہیں ہوتے
کتنا خوف ہوتا ھے ، شام کے اندھیرے میں
پوچھ ان پرندوں سے ، جن کے گھر نہیں ہوتے
عمر بھر نہیں ملتا واپسی کا دروازہ
آگہی کے زنداں میں بام و در نہیں ہوتے
وہ تَہی دَست بھی کیا خوب کہانی گَر تھا
باتوں باتوں میں مجھے چاند بھی لا دیتا تھا
ہنساتا تھا مجھ کو تو پھر وہ رُلا بھی دیتا تھا
کر کے وہ مجھ سے اکثر وعدے بُھلا بھی دیتا تھا
بے وفا تھا بہت مگر دل کو اچھا لگتا تھا
کبھی کبھار باتیں محبت کی سُنا بھی دیتا تھا
کبھی بے وقت چلا آتا تھا ملنے کو
کبھی قیمتی وقت محبت کے گنوا بھی دیتا تھا
تھام لیتا تھا میرا ہاتھ کبھی یوں ہی خود
کبھی ہاتھ اپنا میرے ہاتھ سے چھڑا بھی لیتا تھا
عجیب دھوپ چھاؤں سا مزاج تھا اُس کا
معتبر بھی رکھتا تھا نظروں سے گرا بھی دیتا تھا...!
#پروین____شاکر
دوست بھی ملتے ہیں محفل بھی جمی رہتی ہے
تو نہیں ہوتا تو ہر شے میں کمی رہتی ہے
اب کے جانے کا نہیں موسم گر یہ شاید
مسکرائیں بھی تو آنکھوں میں نمی رہتی ہے
عشق عمروں کی مسافت ہے کسے کیا معلوم؟
کب تلک ہم سفری ہم قدمی رہتی ہے
کچھ دلوں میں کبھی کھلتے نہیں چاہت کے گلاب
کچھ جزیروں پہ سدا دھند جمی رہتی ہے
احمد فراز
جھوٹ کہتے ہیں کہ آواز لگا سکتا ہے
ڈوبنے والا فقط ہاتھ ہلا سکتا ہے
اور پھر چھوڑ گیا وہ جو کہا کرتا تھا
کون بدبخت تجھے چھوڑ کے جا سکتا ہے
راستہ بھولنا عادت ہے پرانی اس کی
یعنی اک روز وہ گھر بھول کے آ سکتا ہے
شرط اتنی ہے کہ تو اس میں فقط میرا ہو
پھر تو اک خواب کئی بار دکھا سکتا ہے
آنکھ بنتی ہے کسی خواب کا تانا بانا
خواب بھی وہ جو مری نیند اڑا سکتا ہے
اس نے کیا سوچ کے سونپا ہے کہانی میں مجھے
ایسا کردار جو پرده بھی گرا سکتا ہے
میرے رزاق سے کرتی ہے مری بھوک سوال
کیا یہیں رزق کے وعدے کو نبھا سکتا ہے
تم نہ مانو گے مگر میرے چلے جانے پر
اک نہ اک روز تمہیں صبر بھی آ سکتا ہے
good morning
جب کبھی خوبئ قسمت سے تجھے دیکھتے ہیں
آئینہ خانے کی حیرت سے تجھے دیکھتے ہیں
وہ جو پامالِ زمانہ ہیں تخت نشیں
دیکھ تو کیسی محبت سے تجھے دیکھتے ہیں
کاسۂ دِید میں بس ایک جھلک کا سِکہ
ہم فقیروں کی قناعت سے تجھے دیکھتے ہیں
تیرے کوچے میں چلے جاتے ہیں قاصد بن کر
اور اکثر اسی صورت سے تجھے دیکھتے ہیں
تیرے جانے کا خیال آتا ہے گھر سے جس دَم
در و دیوار کی حسرت سے تجھے دیکھتے ہیں
کہہ گئی بادِ صبا آج تِرے کان میں کیا؟
پھول کس درجہ شرارت سے تجھے دیکھتے ہیں
تجھ کو کیا علم تجھے ہارنے والے کچھ لوگ
کس قدر سخت ندامت سے تجھے دیکھتے ہیں
پروین شاکر
وہ شخص بن گیا _____قوت حیات کیوں
اس میں دکھائی دیتی ہے یہ کائنات کیوں
جب ہاتھ چومنے کی میری التجاء سنی
یوں مسکرا کے کہنے لگا صرف ہاتھ کیوں.
#Mr_A
مجھ سے بچھڑ کے کب مرے دل سے جدا رہی
تو میری عاشقی تھی مگر بے وفا رہی
اک زندگی تھی درد کی سوغات کی طرح
اک دوستی تھی وہ بھی ہمیشہ خفا رہی
مقتل لرز گیا ہے یہ کس کے وجود سے
کوئے وفا میں گونجتی کس کی صدا رہی
پتے تو ٹوٹے شاخ سے دامانِ خاک پر
اے جانِ آفریں تری قاتل ہوا رہی
آنکھوں میں عکس نور کا صورت لیے ہوئے
وہ شکل تھی جو آشنا نا آشنا رہی
عامرؔ بچھڑ گئے ہیں گلابوں کے ساتھ بھی
ورنہ تو ڈال ڈال پہ موجِ صبا رہی
#عامر_یوسف
اپنے بالوں کی سفیدی پہ سہم جاتا ہوں
زندگی اب تیری رفتار سے ڈر لگتا ہے
اب تو ہر ایک اداکار سے ڈر لگتا ہے
مجھ کو دشمن سے نہیں یار سے ڈر لگتا ہے
کیسے دشمن کے مقابل وہ ٹھہر پائے گا
جس کو ٹوٹی ہوئی تلوار سے ڈر لگتا ہے
وہ جو پازیب کی جھنکار کا شیدائی ہو
اس کو تلوار کی جھنکار سے ڈر لگتا ہے
مجھ کو بالوں کی سفیدی نے خبردار کیا
زندگی اب تری رفتار سے ڈر لگتا ہے
کر دیں مصلوب انہیں لاکھ زمانے والے
حق پرستوں کو کہاں دار سے ڈر لگتا ہے
وہ کسی طرح بھی تیراک نہیں ہو سکتا
دور سے ہی جسے منجدھار سے ڈر لگتا ہے
میرے آنگن میں ہے وحشت کا بسیرا افضلؔ
مجھ کو گھر کے در و دیوار سے ڈر لگتا ہے
- افضل الہ آبادی
اے فنا دل ! آج تو مجھ کو سنوار دے ذرا
وحشت دھند کو آب و گل میں نکھار دے ذرا
آج آغوش محبت میں من چاہا یار دے مجھکو
پھر مجھ کو اس کی چاہت کا حصار دے ذرا
اب تصویروں سے کہاں دل کو تسکین ہوتی ہے
اس کو سامنے بٹھا اور آنکھوں کا خمار دے ذرا
مانا کہ شب ہجراں میں اندھیرے بہت ہیں مگر
ہم شب گزیدوں پر بھی کبھی نظر مار تو ذرا
ان تیز آندھیوں میں بھی ، میں حوصلہ نہیں ہارا عمران
کہیں بجھ ہی نہ جائیں تیرے جذبات انکو ہوا دے ذرا
✍️ عمران مہروی
خواب تعبیر سے مشروط نہیں ہو سکتے
خواب احساس سے شاداب ہوا کرتے ہیں۔۔
مشورہ دل سے کیا دل نے کہا خاموشی
درد سہنے کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں۔۔
بات کڑوی بھی ہو ! لگتا ہے شہابی لہجہ
تیرا اردو میں جو ہوتا ہے ! نوابی لہجہ
دل کی کہہ دوں تو تجھے ہوش نہیں رہنا ہے
تونے دیکھا ہی نہیں میرا ! شرابی لہجہ !
سنتے سنتے اسے ! پڑھنے کی لگن لگ جائے
تونے دیکھا ہے کہیں ایسا ! کتابی لہجہ ؟
بات کرتے ہوئے پھر تونے ! جھجھک جانا ہے
کھلتے کھلتے بھی وہ ایسا ہے ! حجابی لہجہ
دل پہ لگتی ہے ،لہو رستا ہے ،پر کیا کیجیے
بات نشتر سی ! مگر اس کا گلابی لہجہ !
کب تلک ہنستی رہوں گی میں ترے لہجے پر
ایک دن میرا بھی ہونا ہے ! جوابی لہجہ !
دیکھنے میں تو محبت کی غزل جیسے ہو !
تم پہ جچتا ہے بھلا ایسا ! فسادی لہجہ !
ن۔م
چوم لینے دو رخ یار کو جی بھر کے، ہمیں
زندگی پیار ہے، تم پیار سے روکا نہ کرو
شاعری یاسمین حق
گھر بدلتے تو یہی بخت وہاں بھی ہوتے
ہم نے برباد ہی ہونا تھا جہاں بھی ہوتے
لہر در لہر کئی گرہیں لگائیں تم نے
ایک ترتیب سے بہتے تو رواں بھی ہوتے!
عقیل عباس چغتائی
محبت عمر بھر کی رائیگاں کرنا نہیں اچھا
سنبھل اے دل انا کو آسماں کرنا نہیں اچھا
کچھ ایسے راز ہوتے ہیں بیاں کرنا نہیں اچھا
ہر اک چہرے کی سچائی عیاں کرنا نہیں اچھا
کسی ناکام حسرت کی جو سلگے آگ سینہ میں
ہوا یادوں کی مت دینا دھیاں کرنا نہیں اچھا
چمن میں ہوں تو پھر میں بھی چمن کا ایک حصہ ہوں
تغافل اتنا میرے باغباں کرنا نہیں اچھا
حفاظت سے اتارو اشک غم کو دل کی سیپی میں
کسی قطرے کو بحر بیکراں کرنا نہیں اچھا
اجالے ہی نہیں ہے تیرگی بھی زیست کا حاصل
کہ ان تاریکیوں کو بے زباں کرنا نہیں اچھا
امیتا پرسو رام میتا ۔۔۔۔
تم کو معلوم نہیں ہجر کی لذت کیا ہے
تم سے بچھڑا ہے کوئی خاص تمھارا اپنا؟
آنکھ سے اشک نہیں خون نکلتا ہے میاں
جب چلاجاۓ کوئی جان سے پیارا اپنا!
کس وجہ سے ٹوٹا ہے حوصلہ نہیں سمجھے
تم ہمارے جیسوں کا مسئلہ نہیں سمجھے
سب نے لاکھ کوشش کی ہم کو کچھ سمجھ آئے
ہم مگر بچھڑنے کا فائدہ نہیں سمجھے
کیا ہمیں دعا دے کر الوداع ہی کر دو گے
تم ہمارے شبدوں کا واسطہ نہیں سمجھے ؟
تم ہمیشہ گنتے ہو ہم کو غیر لوگوں میں
اور ہم کبھی تم کو “دوسرا “ نہیں سمجھے
ہم تو رکھ کے پھرتے ہیں جان کو ہتھیلی پر
ہم کبھی محبت کو مشغلہ نہیں سمجھے
ناسمجھ نہیں تھے وہ ، وہ شعور والے تھے
جانتے ہوئے میرا “ مدعا “نہیں سمجھے
میں تمہاری چوکھٹ پر سر جھکائے بیٹھا ہوں
اور تم ابھی تک بھی فیصلہ نہیں سمجھے
✍️ فضل الرحمن
اپنی سانسیں مری سانسوں میں ملا کے رونا
جب بھی رونا مجھے سینے سے لگا کے رونا
قید تنہائی سے نکلا ہوں ابھی جان سفر
مجھ سے ملنا مجھے زلفوں میں چھپا کے رونا
اتنا سفاک نہ تھا گھر کا یہ منظر پہلے
تری یادوں کے چراغوں کو بجھا کے رونا
ہم نے اس طرح بھی کاٹی ہیں بہت سی راتیں
دل کے خوش رکھنے کو افسانے سنا کے رونا
کتنے بے درد ہیں اس دیس میں رہنے والے
اپنے ہاتھوں تجھے سولی پہ چڑھا کے رونا
غم دوراں نے ترے لطف کی مہلت ہی نہ دی
یہ بھی ہونا تھا سر شب تجھے پا کے رونا
#GUllyshiree
#highlights
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain