سُخن شناس تھے تم پھر بھی پڑھ نہیں پائے
وہ اشک شعر تھا جو میری چشمِ تر میں رہا
Syeda Ghazal❤
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
لائی ہے اب اڑا کے گئے موسموں کی باس
برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو
پھرتے ہیں مثل موج ہوا شہر شہر میں
آوارگی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو
شام الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا
راتوں کی پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
منیر نیازی ❤️
کب ہم نے یہ چاہا تھا، تا عمر ٹھہر جاتے
کچھ خواب تھے پلکوں کی دہلیز پہ دھر جاتے
یخ بستہ ہوائیں تو کہتی تھیں، پلٹ جاؤ
تم خود ہی زرا سوچو گهر ہوتا تو گهر جاتے
ہم پر تو مقفل تھا ہر شہر کا دروازه
وه کرب کی راتیں تھیں تم ہوتے تو مر جاتے
اک بار محبت سے آواز تو دی ہوتی
سو بار محبت میں ہم جاں سے گزر جاتے
ملنا نہیں ممکن تھا رَستہ ہی بدل لیتے
دل میں نہ اترنا تھا، دل سے ہی اتر جاتے
صد شکر کہ مٹی کی آغوش مِلی میثمؔ
ایسا بھی نہ گر ہوتا انسان کدھر جاتے۔
میثم علی آغا
جو حادثے یہ جہاں میرے نام کرتا ہے
بڑے خلوص سے،، دِل نذرِ جام کرتا ہے
ہمِیں سے قوسِ قزح کو مِلی ہے رنگینی
ہمارے در پہ زمانہ قیام کرتا ہے
ہمارے چاکِ گریباں سے کھیلنے والو
ہمیں بہار کا سُورج سلام کرتا ہے
یہ میکدہ ہے، یہاں کی ہر ایک شے کا حضور
غمِ حیات بہت احترام کرتا ہے
فقیہہِ شہر نے تُہمت لگائی ساغرؔ پر
یہ شخص درد کی دولت کو عام کرتا ہے
(درویش شاعر)
ساغرؔ صدیقی ¹⁹⁷⁴-¹⁹²⁸
شدید دُکھ تھا اگرچہ تِری جُدائی کا
ہُوا ہے رنج ہمیں تیری بے وفائی کا
تجھے بھی ذوق نئے تجربات کا ہو گا
ہمیں بھی شوق تھا کچھ بخت آزمائی کا
جو میرے سر سے دوپٹہ نہ ہٹنے دیتا تھا
اُسے بھی رنج نہیں میری بے ردائی کا
سفر میں رات جو آئی تو ساتھ چھوڑ گئے
جنھوں نے ہاتھ بڑھایا تھا رہنمائی کا
رِدا چِھنی مِرے سَر سے، مگر مَیں کیا کہتی
کٹا ہُوا تو نہ تھا ہاتھ میرے بھائی کا
مِلے تو ایسے، رگِ جاں کو جیسے چُھو آئے
جُدا ہُوئے تو وہی کرب نارسائی کا
کوئی سوال جو پُوچھے، تو کیا کہوں اُس سے
بچھڑنے والے ! سبب تو بتا جُدائی کا
مَیں سچ کو سچ بھی کہوں گی، مجھے خبر ہی نہ تھی
تجھے بھی علم نہ تھا میری اِس بُرائی کا
نہ دے سکا مجھے تعبیر ، خُواب تو بخشے
مَیں احترام کروں گی ، تِری بڑائی کا
پروین شاکر ❤️
اِک خسارے نے بھرم توڑ دیے ضبط کے سب
اور پھر ہوتا گیا میرا زیاں تیرے بعد !!!!
پھر کسی دُکھ کی, خوشی کی, نہ رہی کوئی تمیز
کس روانی سے چلی عمر رواں تیرے بعد !!!!
Syeda Ghazal❤
قید میں گزرے گی جو عمر بڑے کام کی تھی
پر میں کیا کرتی کہ زنجیر ترے نام کی تھی
جس کے ماتھے پہ مرے بخت کا تارہ چمکا
چاند کے ڈوبنے کی بات اسی شام کی تھی
میں نے ہاتھوں کو ہی پتوار بنایا ورنہ
ایک ٹوٹی ہوئی کشتی مرے کس کام کی تھی
وہ کہانی کہ ابھی سوئیاں نکلیں بھی نہ تھیں
فکر ہر شخص کو شہزادی کے انجام کی تھی
یہ ہوا کیسے اڑا لے گئی آنچل میرا
یوں ستانے کی تو عادت مرے گھنشیام کی تھی
بوجھ اٹھاتے ہوئے پھرتی ہے ہمارا اب تک
اے زمیں ماں تری یہ عمر تو آرام کی تھی
#پروین____شاکر
رنجِ فراقِ یار میں رسوا نہیں ہوا
اتنا میں چُپ ہوا کہ تماشہ نہیں ہوا
ایسا سفر ہے جس میں کوئی ہمسفر نہیں
رستہ ہے اس طرح کا کہ دیکھا نہیں ہوا
مشکل ہوا ہے رہنا ہمیں اِس دیار میں
برسوں یہاں رہے ہیں، یہ اپنا نہیں ہوا
وہ کام شاہِ شہر سے یا شہر سے ہوا
جو کام بھی ہوا یہاں اچھا نہیں ہوا
ملنا تھا ایک بار اُسے پھر کہیں منیر
ایسا میں چاہتا تھا پر ایسا نہیں ہوا
منیر نیازی
شدید دُکھ تھا اگرچہ تِری جُدائی کا
ہُوا ہے رنج ہمیں تیری بے وفائی کا
تجھے بھی ذوق نئے تجربات کا ہو گا
ہمیں بھی شوق تھا کچھ بخت آزمائی کا
جو میرے سر سے دوپٹہ نہ ہٹنے دیتا تھا
اُسے بھی رنج نہیں میری بے ردائی کا
سفر میں رات جو آئی تو ساتھ چھوڑ گئے
جنھوں نے ہاتھ بڑھایا تھا رہنمائی کا
رِدا چِھنی مِرے سَر سے، مگر مَیں کیا کہتی
کٹا ہُوا تو نہ تھا ہاتھ میرے بھائی کا
مِلے تو ایسے، رگِ جاں کو جیسے چُھو آئے
جُدا ہُوئے تو وہی کرب نارسائی کا
کوئی سوال جو پُوچھے، تو کیا کہوں اُس سے
بچھڑنے والے ! سبب تو بتا جُدائی کا
مَیں سچ کو سچ بھی کہوں گی، مجھے خبر ہی نہ تھی
تجھے بھی علم نہ تھا میری اِس بُرائی کا
نہ دے سکا مجھے تعبیر ، خُواب تو بخشے
مَیں احترام کروں گی ، تِری بڑائی کا
پروین شاکر ❤️
ایسے رکھتی ہوں سینے سے لگا کر اسکو۔۔۔
جیسے پہنا ہو تعویز بنا کر اسکو۔۔۔
وہ روٹھے تو دنیا روٹھ جاتی ہے۔۔۔
میں نے چاہا ہی نہیں کچھ بھی ہٹا کر اسکو۔۔۔
میرا ہر لفظ اسی کی امانت ٹھہرا۔۔۔
کہتی کسی کو تھی مگر سنا کر اسکو۔۔۔
کیسے سمجھے وہ تیرے درد کا احساس۔۔۔
تُو تو پیار بھی کرتی تھی چھپاکر اسکو۔۔۔
حاجرہ انور
چہرےپڑھتا ، آنکھیں لکھتا رہتا ہوں
میں بھی کیسی باتیں لکھتا رہتا ہوں
سارے جسم درختوں جیسے لگتے ہیں
اور باہوں کو شاخیں لکھتا رہتا ہوں
تجھ کو خط لکھنے کے تیور بھول گیا
آڑھی ترچھی سطریں لکھتا رہتا ہوں
تیرے ہجر میں اور مجھے کیا کرنا ہے
تیرے نام کتابیں لکھتا رہتا ہوں
تجھ سے مل کر سارے دکھ دہراؤں گا
ہجر کی ساری باتیں لکھتا رہتا ہوں
سوکھے پھول، کتابیں، زخم جدائی کے
تیری سب سوغاتیں لکھتا رہتا ہوں
اس کی بھیگی پلکیں ہنستی رہتی ہیں
محسن جب تک غزلیں لکھتا رہتا ہوں
محسن نقوی
بے خود کیے دیتے ہیں انداز حجابانہ
آ دل میں تجھے رکھ لوں اے جلوۂ جانانہ
اتنا تو کرم کرنا اے چشم کریمانہ
جب جان لبوں پر ہو تم سامنے آ جانا
کیوں آنکھ ملائی تھی، کیوں آگ لگائی تھی
اب رخ کو چھپا بیٹھے کر کے مجھے دیوانہ
زاہد میری قسمت میں سجدے ہیں اسی در کے
چھوٹا ہے نہ چھوٹے گا سنگ در جانانہ
کیا لطف ہو محشر میں، میں شکوے کئے جاؤں
وہ ہنس کے کہے جائیں دیوانہ ہے دیوانہ
ساقی تیرے آتے ہی یہ جوش ہے مستی کا
شیشے پہ گرا شیشہ پیمانے پہ پیمانہ
معلوم نہیں بیدمؔ میں کون ہوں اور کیا ہوں
یوں اپنوں میں اپنا ہوں بیگانوں میں بیگانہ
(بیدم شاہ وارثیؒ)
good morning
ایسا تو نہیں پیر میں چھالا نہیں کوئی
دکھ ہے کہ یہاں دیکھنے والا نہیں کوئی
تو شہر میں گنواتا پھرا عیب ہمارے
ہم نے تو ترا نقص اچھالا نہیں کوئی
وہ شخص سنبھالے گا برے وقت میں تجھ کو ؟
جس شخص نے خط تیرا سنبھالا نہیں کوئی
اے عقل ! جو تو نے مرا نقصان کیا ہے
اب لاکھ بھی تو چاہے ، ازالہ نہیں کوئی
ہیں عام بہت رزق و محبت کے مسائل
دکھ تیرا زمانے سے نرالا نہیں کوئی
کومل جوئیہ
کب کون کسی کا ہوتا ہے
سب جھوٹے رشتے ناتے ہیں
سب دل رکھنے کی باتیں ہیں
سب اصل روپ چھپاتے ہیں
اخلاق سے خالی لوگ یہاں
لفظوں کے تیر چلاتے ہیں
بہار نگاہوں کو دکھا کر
پھر ساری عمر رلاتے ہیں
وہ جس نے دیئے ہیں اشک ہمیں
اب اس کو بھول ہی جاتے ہیں
احمد فراز
گمان میں بھی نہ تھا کشتیاں جلاتے ہوے
کہ پھر سے عمر لگے گی اِنہیں بناتے ہوے
تو جان لینا کہ انسو چھپا رہا ہو گا
اگر وہ مڑ کے نہ دیکھے یہاں سے جاتے ہوۓ
میں اس کی قبر پر کتبہ لگا کے ایا ہوں
جو مٹ گیا مرا نام و نشاں مٹاتے ہوۓ
شوکت فہمی
گہری چپ
لوگ تو لوگ تھے آوارہ سمجھتے تھے مجھے
تیری کھڑکی سے تو پتھراؤ نہیں بنتا تھا۔
خیال اپنا بہت یوں بھی تو نہیں رکھتے
نظر اُتارنے والا بھی اب نہیں ہے کوئی
بُھولی ہُوئی صَدا ہُوں ، مُجھے یاد کِیجئے
تُم سے کہِیں مِلا ہُوں ، مُجھے یاد کِیجئے
منزل نہِیں ہُوں ، خِضر نہِیں ، راہزن نہِیں
منزل کا راستہ ہُوں ، مُجھے یاد کِیجئے
میری نگاہِ شوق سے ہر گُل ہے دیوتا
مَیں عِشق کا خُدا ہُوں ، مُجھے یاد کِیجئے
نغموں کی اِبتدا تھی کبھی میرے نام سے
اشکوں کی انتہا ہُوں ، مُجھے یاد کِیجئے
گُم صُم کھڑی ہیں دونوں جہاں کی حقیقتیں
مَیں اُن سے کہہ رہا ہُوں ،،، مُجھے یاد کِیجئے
ساغرؔ ،،، کِسی کے حُسنِ تغافل شعار کی
بہکی ہُوئی ادا ہُوں ، مُجھے یاد کِیجئے
ساغرؔ صدیقی
رائیگانی سے کہیں بڑھ کے ہے رنجِ بے بسی
ڈھل رہے ہیں ہم ہمارے سامنے رکھے ہوئے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain