موت کا خوف بڑا خوف ہے لیکن جواد
جو مجھے اُس کی توجہ میں کمی سے آیا
جواد شیخ
#hijrzada
مالک تیری دنیا میں تیرے ہوتے ہوئے بھی
کیا کیا نہ یہاں رنج و الم میں نے اٹھایا.•
کومل جوئیہ
#HIJRZADI
ناگہاں اور کسی بات پہ دل ایسا دُکھا
میں بہت رویا، مجھے آپ بہت یاد آئے...!
#HIJRZADI
میرے اندر کی ویرانی کھاگئی مجھ کو ۔۔۔۔۔
میرے نصیب میں سمجھوتے کے علاؤہ کچھ نہیں آیا ۔۔۔
#HIJRZADI
نہ سوالِ وصل ، نہ عرضِ غم ، نہ حکایتیں نہ شکایتیں
ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے
یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے
نہ رہا جنونِ رُخِ وفا، یہ رسن یہ دار کرو گے کیا
جنہیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے
فیض احمد فیض
کوئی ٹکرا کے سبک سر بھی تو ہو سکتا ہے
میری تعمیر میں پتھر بھی تو ہو سکتا ہے
کیوں نہ اے شخص تجھے ہاتھ لگا کر دیکھوں
تو مرے وہم سے بڑھ کر بھی تو ہو سکتا ہے
تو ہی تو ہے تو پھر اب جملہ جمال دنیا
تیرا شک اور کسی پر بھی تو ہو سکتا ہے
یہ جو ہے پھول ہتھیلی پہ اسے پھول نہ جان
میرا دل جسم سے باہر بھی تو ہو سکتا ہے
شاخ پر بیٹھے پرندے کو اڑانے والے
پیڑ کے ہاتھ میں پتھر بھی تو ہو سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ باہر ہی نمو ہو میری
میرا کھلنا مرے اندر بھی تو ہو سکتا ہے
یہ جو ہے ریت کا ٹیلہ مرے قدموں کے تلے
کوئی دم میں مرے اوپر بھی تو ہو سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ ہم ہار کے جیتیں تابشؔ
عشق کا کھیل برابر بھی تو ہو سکتا ہے
- عباس تابش
لوگوں کو تب فرق پڑنا شروع ہوتا ہے
جب آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔🌸🖤
وہ تخت پر جو شخص تھا ، نشیں رہا ؟ نہیں رہا
دلوں میں ایک روز بھی مکیں رہا ؟ نہیں رہا
گلی گلی یہ حادثے گھڑی گھڑی کے وسوسے
کسی کو اگلی سانس کا یقیں رہا ؟ نہیں رہا
نظر سے لوگ گر گئے ، ذرا عروج کیا ملا
جہاں پہ جس کا ظرف تھا وہیں رہا ؟ نہیں رہا
سنا ہے اہلِ حَکم میں سبھی تھے صادق و امیں
کوئی ہمارے درد کا امیں رہا ؟ نہیں رہا
ڈاکٹر احمد خلیل
چُھوڑ کےجانا ہے تو جا۔۔۔!!
پر مات اَدُھوری ثابت کر۔۔۔!!
مُجھ سے جھگڑا کر اور مُجھ کو۔۔۔!!
غیرضروری ثابت کر۔۔۔!!
بات بَجا کہ ہوتے ہیں۔۔۔!!
دوچار مسائل سب کے ہی۔۔۔!!
جانتی ہوں مجبوری کو لیکن۔۔۔!!
مجبوری تو ثابت کر۔۔۔!!
بحث نہیں بنتی دُونوں کی۔۔۔!!
پھر بھی اے بُہْتان پَرَست۔۔۔!!
جتنی باتیں گھڑ رکھی ہیں۔۔۔!!
ایک تو پوری ثابت کر۔۔۔🙂🖤
امیر مینائی
اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں
ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں
ڈال کے خاک میرے خون پہ قاتل نے کہا
کچھ یہ مہندی نہیں میری کہ چھپا بھی نہ سکوں
ضبط کمبخت نے یاں آ کے گلا گھونٹا ہے
کہ اسے حال سناؤں تو سنا بھی نہ سکوں
نقش پا دیکھ تو لوں لاکھ کروں گا سجدے
سر مرا عرش نہیں ہے جو جھکا بھی نہ سکوں
بے وفا لکھتے ہیں وہ اپنے قلم سے مجھ کو
یہ وہ قسمت کا لکھا ہے جو مٹا بھی نہ سکوں
اس طرح سوئے ہیں سر رکھ کے مرے زانو پر
اپنی سوئی ہوئی قسمت کو جگا بھی نہ سکوں
ضبط کرتا ہوں تو ہر
زخم 'لہو' دیتا ہے
آہ کرتا ہوں تو اندیشہ
رسوائ ہے!
دیکھتا ہوں تو ہزاروں
میرے اپنے ہیں مگر
سوچتا ہوں تو وہی عالمِ
تنہائ ہے!
|| اس سے پہلے تو دعاوں پہ یقیں تھا کم کم
تو نے چھوڑا تو مناجات کا مطلب سمجھے
تجھ کو بھی چھوڑ کے جائے ترا اپنا کوئی
تو بھی اک روز مکافات کا مطلب سمجھے 🌙
جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے
اے مکاں بول ____ کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
"اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں ___ کوئی کہیں رہتا ہے"
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن __!!
عمر بھر کون "جواں"کون "حسیں" رہتا ہے
احمد مشتاقؔ
دنیا میں ترے عشق کا چرچا نہ کریں گے
مر جائیں گے لیکن تجھے رسوانہ کریں گے
قربان کریں گے کبھی دل جاں کبھی صدقے
تم اپنا بنا لو گی تو کیا کیا نہ کریں گے
گستاخ نگاہوں سے اگر تم کو گلہ ہے
ہم دور سے بھی اب تمہیں دیکھا نہ کریں گے
اختر یہ گھٹائیں یہ ہوائیں یہ فضائیں
توبہ کریں اس حال میں توبہ نہ کریں گے
اختر شیرانی
یہ منافق ریاکار بھکاری دنیا
ایسی دنیا نہیں ہو سکتی ہماری دنیا
لوگ دنیا کے لیے تخت بچھانے پر رہے
ہم نے جوتوں کی طرح پہنی اتاری دنیا
اک جیسے ہی لگے مجھے سات ارب چہرے
اک جیسی ہی لگی مجھے یہ ساری دنیا
میں نے دنیا کی طرف سنگ ملامت پھینکا
اب میری گھات میں رہتی ہے شکاری دنیا
تُو بھرے گی میرا کشکول ہنسی آتی ہے
اے ہوس زادی فقط بھوک کی ماری دنیا
اک تو تیرے لیے لوگ نئے وقت نیا
اک میں ، میرے لیے یہ گزری گزاری دنیا
🍁🇨🇦⭐🔥
وہ بھی نہ آیا عمر گزشتہ کے مثل ہی
ہم بھی کھڑے رہے در و دیوار کی طرح
پھر دل یہ کہے رہا ہے چلو آرزو کریں
کچھ اور ہے نصیب مگر جستجو کریں ۔
محفل سے بھی عزیز وہ تنہائی کیوں نہ ہو
جس میں ہم اپنے آپ سے کچھ گفتگو کریں
سب کچھ تیری رضا سے ہی مشروط ہے تو پھر
اب تجھ سے پوچھ کر ہی کوئی آرزو کریں ۔
اتنی کدورتیں ہیں تو کیونکر ملاے ہاتھ
جب ربط دل نہیں ہے تو کیوں گفتگو کریں۔
اب تار مصلحت سے الجھنے لگا ہے دل
عنبر لباس زیست کہاں تک رفو کریں ۔
جُستَجُو کھوئے ہوؤں کی عُمر بَھر کرتے رہے
چاند کے ہم رَاہ ہم ہر شَب سفر کرتے رہے
راستوں کا عِلم تھا ہم کو نہ سِمتوں کی خبر
شہر نا معلوم کی چاہت مگر کرتے رہے
ہم نے خُود سے بھی چُھپایا اور سارے شِہر کو
تیرے جانے کی خبر دیوار و دَر کرتے رہے
وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اُس شام بھی
اِنتظار اُس کا مگر کُچھ سُوچ کر کرتے رہے
آج آیا ہے ہمیں بھی اُن اُڑانوں کا خیال
جِن کو تیرے زُعْم میں بے بال و پر کرتے رہے
#پروین____شاکر
ضروری مشورے دینے سے پہلے
کوئی آ کر ہمارے دن گزارے
زمیں کی اُلجھنوں سے تھوڑا سا اوپر بنائیں گے
پہاڑوں پرکہیں اک خوبصورت گھر بنائیں گے
کبھی تو آپ جانِ جاں ہمارے بال سلجھانا
کبھی ہم اپنے ہاتھوں آپ کا بستر بنائیں گے
حمزہ حسام
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain