کچھ تعلق بھی نہیں، پھر بھی خفا ہُوں تُجھ سے جانے کس مان پہ مَیں رُوٹھ گیا ہُوں تُجھ سے مُجھے کم عُمرسمجھ کے مِری تضحیک نہ کر مَیں محبت میں کئی سال بڑا ہُوں تُجھ سے جس طرح دودھ میں گُھل جاتی ہے چینی، جاناں ! مَیں خیالوں میں اُسی طرح مِلا ہُوں تُجھ سے گیند بن کر ترے پیروں میں پڑا ہوں کہ تُو کھیل تُو سمجھتا ہے کہ مَیں کھیل رہا ہُوں تُجھ سے میرے اجزا میں نہ مٹی ہے نہ پانی ہے نہ آگ میرے پیکر کو پرکھ لے، مَیں بنا ہُوں تُجھ سے اے چٹانوں کی طرح مُجھ کو دبانے والے ! دیکھ چشمے کی طرح پھوٹ بہا ہُوں تُجھ سے میری رگ رگ تری رگ رگ سے جُڑی ہے، مِرے یار ! ظاہری طور پہ تو دُور کھڑا ہُوں تُجھ سے اے اُداسی ! مَیں ادب اس لیے کرتا ہُوں ترا غم کے جتنے بھی سبق ہیں، مَیں پڑھا ہُوں تُجھ سے رحمان فارس Muskan Shuja Wattoo
درویش طبیعت مجھے ___ وِرثے میں ملی ہے میں ٹھیک، غلط، اچھا، بُرا، کچھ نہیں کہتا __! اے نیک مَنْش میری نہیں _____ فکر کر اپنی اُجڑے ہوئے لوگوں کو خدا کچھ نہیں کہتا _!
زخم وہ دل پہ لگا ہے کہ دکھاۓ نہ بنے اور چاہیں کہ چھپاٸیں تو چھپاۓ نہ بنے ہاۓ بے چارگیِ عشق کہ اس محفل میں سر جھکاۓ نہ بنے آنکھ اٹھاۓ نہ بنے جگر مراد آبادی
اس کو جاتے ہوئے دیکھا تھا پکارا تھا کہاں روکتے کس طرح وہ شخص ہمارا تھا کہاں تھی کہاں ربط میں اُس کے بھی کمی کوئی مگر میں اسے پیارا تھا پر جان سے پیارا تھا کہاں💔 بے سبب ہی نہیں مرجھائے تھے جذبوں کے گلاب تو نے چھو کر غمِ ہستی کو نکھارا تھا کہاں🥀 بیچ منجھدار میں تھے اس لیے ہم پار لگے ڈوبنے کے لیے کوئی بھی کنارا تھا کہاں ؟😢 آخر شب مری پلکوں پہ ستارے تھے کئی لیکن آنے کا ترے کوئی اشارا تھا کہاں یہ تمنا تھی کہ ہم اس پہ لٹا دیں ہستی اے دل اس کو مگر اتنا گوارا تھا کہاں 🍁🖤 #hiba___writes
نئے سفر میں ابھی ایک نقص باقی ہے جو شخص ساتھ نہیں اسکا عکس باقی ہے اٹھا کے لے گئے دزدان شب چراغ تلک سو، کور چشم پتنگوں کا رقص باقی ہے گھٹا اٹھی ہے مگر ٹوٹ کر نہیں برسی ہوا چلی ہے مگر پھر بھی حبس باقی ہے الٹ پلٹ گئی دنیا وہ زلزلے آئے مگر خرابۂ دل میں وہ شخص باقی ہے فراز آئے ہو تم اب رفیق شب کے لئے کہ دور جام نا ہنگام رقص باقی ہے احمد فراز
"ہم جو آسانی سے حاصل ہو گئے لوگ ناقدری پہ مائل ہو گئے" گرچہ آمادہ تھے وہ تجدید پر پھر پرانے کچھ مسائل ہو گئے ہجر نے کڑوا کیا ہے تن بدن ذائقے جتنے تھے زائل ہو گئی ان سخی آنکھوں کا یہ وردان ہے شاہ ان کے در پہ سائل ہو گئے توڑ جاتے ہم سبھی رشتے مگر ان کہے کچھ لفظ حائل ہو گئے وار دشمن کا سہا ہے خیر سے دوستی کے شر سے گھائل ہو گئے