کوئی دل جوئی نہیں، کوئی پذیرائی نہیں
زخم کا زخم مداوا ہے، مسیحائی نہیں
غور سے دیکھ ذرا دیکھے ہوئے چہروں کو
ایسے لگتا ہے کسی سے بھی شناسائی نہیں
ایک محفل ہے جو برپا ہی نہیں ہوتی کبھی
یعنی افسوس کہ تنہائی میں تنہائی نہیں
لٹ چکی بزمِ سخن لطفِ معانی والی
شعر میں درد نہیں، لفظ میں رعنائی نہیں
خواب میں چلتے ہوئے شخص ذرا دیکھ کے چل
یہ جگہ وہ ہے جہاں کھائی ہے، گہرائی نہیں
میں بھی اُس ملک میں خاموش ہوں جس ملک کے پاس
ایٹمی بم ہیں مگر قوتِ گویائی نہیں
مقصود وفا
🌹لفظ بن کر مرے ہونٹوں سے ادا ہو جانا
پھر جو چاہو تو بھلے مجھ سے خفا ہو جانا🌹
تو سکونت ہے تو ہر شب مجھے آغوش میں لے
گر تماشا ہے تو پھر روز بپا ہو جانا
🌹شہر کے سارے گلی کوچے ہیں ویراں، خاموش
ایسی خاموشی میں آنا تو صدا ہو جانا🌹
میں تو کمتر تھا، سو کمتر ہوں، رہوں گا کمتر
تجھے زیبا ہے مرے دوست! بڑا ہو جانا
میں بری ہونے کے آداب سے باغی ہوا ہوں
مرے زنداں میں جو آئے وہ ہوا ہو جانا
سلمان حیدر آفاق
مَـیکـدے بند ہُوئـے ، ڈُھونڈ رہا ہُوں تُجھکو
تو کہاں ہے مجھـے آنکھـوں سـے پلانے والے
کاش لے جاتے کبھی مانگ کے آنکھیں میری
یـہ مــصــور تِـیری تـصـویـر بـنــانـے والـے
قتیلؔ شفائی
ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی
اس رات دیر تک وہ رہا محو گفتگو
مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی
مجھ سے بچھڑ کے شہر میں گھل مل گیا وہ شخص
حالانکہ شہر بھر سے عداوت اسے بھی تھی
وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا
ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی
سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں
شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی
تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پہ کھلا یہ بھید
سائے سے پیار دھوپ سے نفرت اسے بھی تھی
محسنؔ میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حال دل
درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی
محسن نقوی
چاندنی شب ہے ستاروں کی ردائیں سی لو
عید آئی ہے بہاروں کی ردائیں سی لو
چشم ساقی سے کہو تشنہ امیدوں کے لیے
تم بھی کچھ بادہ گساروں کی ردائیں سی لو
ہر برس سوزن تقدیر چلا کرتی ہے
اب تو کچھ سینہ فگاروں کی ردائیں سی لو
لوگ کہتے ہیں تقدس کے سبو ٹوٹیں گے
جھومتی راہ گزاروں کی ردائیں سی لو
قلزم خلد سے ساغرؔ کی صدا آتی ہے
اپنے بے تاب کناروں کی ردائیں سی لو
ساغر صدیقی
ہم نے بڑے فریب میں ، کاٹی ہے زندگی
مقصد تمام عمر کا ، فِکرِ معاش تھا۔
تماشا کہ اے محوِ آئینہ داری
تجھے کس تمنّا سے ہم دیکھتے ہیں
مرزاغالب
منظر سے کبھی دل کے وہ ہٹتا ہی نہیں ہے
اک شہر جو بستے ہوئے دیکھا ہی نہیں ہے
کچھ منزلیں اب اپنا پتہ بھی نہیں دیتیں
اور راستہ ایسا ہے کہ کٹتا ہی نہیں ہے
اک نقش کہ بن بن کے بگڑتا ہی رہا ہے
اک خواب کہ پورا کبھی ہوتا ہی نہیں ہے
کیا ہم پہ گزرتی ہے تمہیں کیسے بتائیں
تم نے تو پلٹ کر کبھی پوچھا ہی نہیں ہے
اک عمر گنوائی ہے تو پھر دل کو ملا ہے
وہ درد کہ جس کا کوئی چارہ ہی نہیں ہے
یہ عشق کی وادی ہے ذرا سوچ سمجھ لو
اس راہ پہ پاؤں کوئی دھرتا ہی نہیں ہے
ڈھونڈے سے خدا ملتا ہے انسان ہے وہ تو
تم نے اسے شبنمؔ کبھی ڈھونڈا ہی نہیں ہے
#شبنم شکیل
ایک قبیلہ چھوڑ دیا اور اِک دُنیا آباد رکھی
میں نے پہلا شعر لکھا اور شجرے کی بُنیاد رکھی
تُو نے کہا تھا عشق میں تنہا کیسے جی سکتا ہے کوئی
تجھ کو بُھول گئے اور تیری بات ہمیشہ یاد رکھی
سلیم_کوثر
خوابوں میں ملوں گی نہ خیالوں میں ملوں گی
میں تم کو محبت کے حوالوں میں ملوں گی
کیوں ڈھونڈ تے رھتے ھو 'مجھے اہل زمین میں
میں عکس ھوں اور چاند کے ہالوں میں ملوں گی
محسوس کرو گے تو سدا پاؤ گے ھمراہ
راتوں میں کبھی دن کے اجالوں میں ملوں گی
تم بات بدل دو گے مرے ذکر پہ لیکن
ھر بار زمانے کے سوالوں میں ملوں گی
وعدہ ھے مرا مجھ کو قضا لے بھی گئی تو
پا کیزہ محبت کی مثالوں میں ملوں گی
پروین شاکر
رات کو مسمار ہوئے، دن کو تعمیر ہوئے۔۔!!
خواب ہی خواب فقط، روح کی جاگیر ہوئے۔۔!!
عمر بھر لکھتے رہے، پھر بھی ورق ساده رہا۔۔!!
جانے کیا لفظ تھے، جو ہم سے نا تحریر ہوئے۔۔!!
یہ الگ دکھ ہے کے، ہاں تیرے دکھوں سے آزاد۔۔!!
یہ الگ قید ہے ہم، کیوں نا زنجیر ہوئے۔۔!!
دیده و دل میں تیرے، عکس کی تشکیل سے ہم۔۔!!
دھول سے پھول ہوئے، رنگ سے تصویر ہوئے۔۔!!
کچھ نہیں یاد گزشتہ شب کی محفل میں فراز۔۔!!
ہم جدا کس سے ہوئے، کس سے بغل گیر ہوئے۔۔!!
✍️ احمد فراز🍁
🍁
ن م راشد
حسرت انتظار یار نہ پوچھ
ہائے وہ شدت انتظار نہ پوچھ
رنگ گلشن دم بہار نہ پوچھ
وحشت قلب بے قرار نہ پوچھ
صدمۂ عندلیب زار نہ پوچھ
تلخ انجامئ بہار نہ پوچھ
غیر پر لطف میں رہین ستم
مجھ سے آئین بزم یار نہ پوچھ
دے دیا درد مجھ کو دل کے عوض
ہائے لطف ستم شعار نہ پوچھ
پھر ہوئی یاد مے کشی تازہ
مستی ابر نو بہار نہ پوچھ
مجھ کو دھوکا ہے تار بستر کا
نا توانئ جسم یار نہ پوچھ
میں ہوں نا آشنائے وصل ہنوز
مجھ سے کیف وصال یار نہ پوچھ
میری چاہت کی بہت لمبی سزا دو مجھ کو
کرب تنہائی میں جینے کی دعا دو مجھ کو
فن تمہارا تو کسی اور سے منسوب ہوا
کوئی میری ہی غزل آ کر سنا دو مجھ کو
حال بے حال ہے تاریک ہے مستقبل بھی
بن پڑے تم سے تو ماضی مرا لا دو مجھ کو
آخری شمع ہوں میں بزم وفا کی لوگو
چاہے جلنے دو مجھے چاہے بجھا دو مجھ کو
خود کو رکھ کے میں کہیں بھول گئی ہوں شاید
تم مری ذات سے ایک بار ملا دو مجھ کو
نکہت افتخار
خمار بارہ بنکوی
مجھ کو شکست دل کا مزا یاد آ گیا
تم کیوں اداس ہو گئے کیا یاد آ گیا
کہنے کو زندگی تھی بہت مختصر مگر
کچھ یوں بسر ہوئی کہ خدا یاد آ گیا
واعظ سلام لے کہ چلا مے کدے کو میں
فردوس گم شدہ کا پتا یاد آ گیا
برسے بغیر ہی جو گھٹا گھر کے کھل گئی
اک بے وفا کا عہد وفا یاد آ گیا
مانگیں گے اب دعا کہ اسے بھول جائیں ہم
لیکن جو وہ بوقت دعا یاد آ گیا
حیرت ہے تم کو دیکھ کے مسجد میں اے خمارؔ
کیا بات ہو گئی جو خدا یاد آ گیا
تم سے میں اتنی محبت جو کیا کرتا ہوں
اپنے ہی دل کے میں زخموں کو سیا کرتا ہوں
غمِ اُلفت میں تنہائی بھی نشہ دیتی ہے
بند کمرے میں یہ مہ، میں بھی پیا کرتا ہوں
کس طرح لوگ بدلتے ہیں کبھی سوچا ہے
دل سے کیسے وہ نکلتے ہیں کبھی سوچا ہے
تجربہ کتنا انہیں ہوگا میاں دیکھو جو
ٹھوکریں کھا کے سنبھلتے ہیں کبھی سوچا ہے
آپ کے پیار میں دل ٹوٹ گیا ہو جن کا
یاد کر کر کے تڑپتے ہیں کبھی سوچا ہے
تو قدر دوست ہماری نہ کرے پھر بھی تجھے
جان سے بڑھ کے سمجھتے ہیں کبھی سوچا ہے
کیوں کسی غیر کو بدنام کروں میں اشنال
اپنے ہی اپنوں کو ڈستے ہیں کبھی سوچا ہے
اشنال سید
ہَر لغزش ہر ہیجان مُسترد کیا جا سکتا ہے
ہر سارق ہر نگہباں مُسترد کیا جا سکتا ہے
میں دیکھ رہا ہوں کہ سرمایۂ چین و قرار
کب کیسے اور کہاں مُسترد کیا جا سکتا ہے
پھول کھل جائیں جب ہتھیلی پہ تو پھر
زمیں کا ہر گلستاں مُسترد کیا جا سکتا ہے
تُو جو آ جائے مُیسر تا اَزل و اَبد تو پھر؟
عاصم یہ سارا جہاں مُسترد کیا جا سکتا ہے
✍️ عاصم حجازی
ساری خوشیوں سے اجنبی ہو کر
اک ترے غم سے روشناس رہیں
آج جی ہے کہ تجھ کو یاد کریں
اور پھر دیر تک اداس رہیں
ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے
تری رہ میں کرتے تھے سر طلب سر رہ گزار چلے گئے
تری کج ادائی سے ہار کے شب انتظار چلی گئی
مرے ضبط حال سے روٹھ کر مرے غم گسار چلے گئے
نہ سوال وصل نہ عرض غم نہ حکایتیں نہ شکایتیں
ترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے
یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سر رہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سر بزم یار چلے گئے
نہ رہا جنون رخ وفا یہ رسن یہ دار کرو گے کیا
جنہیں جرم عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے
- فیض احمد فیض
میں دوبارہ کھل جاؤں گا اور ثابت كروں گا
کہ مرجھانا محض ایک فضول کہانی ہوتی ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain