Damadam.pk
Gghhhko's posts | Damadam

Gghhhko's posts:

Gghhhko
 

کوئی دل جوئی نہیں، کوئی پذیرائی نہیں
زخم کا زخم مداوا ہے، مسیحائی نہیں
غور سے دیکھ ذرا دیکھے ہوئے چہروں کو
ایسے لگتا ہے کسی سے بھی شناسائی نہیں
ایک محفل ہے جو برپا ہی نہیں ہوتی کبھی
یعنی افسوس کہ تنہائی میں تنہائی نہیں
لٹ چکی بزمِ سخن لطفِ معانی والی
شعر میں درد نہیں، لفظ میں رعنائی نہیں
خواب میں چلتے ہوئے شخص ذرا دیکھ کے چل
یہ جگہ وہ ہے جہاں کھائی ہے، گہرائی نہیں
میں بھی اُس ملک میں خاموش ہوں جس ملک کے پاس
ایٹمی بم ہیں مگر قوتِ گویائی نہیں
مقصود وفا

Gghhhko
 

🌹لفظ بن کر مرے ہونٹوں سے ادا ہو جانا
پھر جو چاہو تو بھلے مجھ سے خفا ہو جانا🌹
تو سکونت ہے تو ہر شب مجھے آغوش میں لے
گر تماشا ہے تو پھر روز بپا ہو جانا
🌹شہر کے سارے گلی کوچے ہیں ویراں، خاموش
ایسی خاموشی میں آنا تو صدا ہو جانا🌹
میں تو کمتر تھا، سو کمتر ہوں، رہوں گا کمتر
تجھے زیبا ہے مرے دوست! بڑا ہو جانا
میں بری ہونے کے آداب سے باغی ہوا ہوں
مرے زنداں میں جو آئے وہ ہوا ہو جانا
سلمان حیدر آفاق

Gghhhko
 

مَـیکـدے بند ہُوئـے ، ڈُھونڈ رہا ہُوں تُجھکو
تو کہاں ہے مجھـے آنکھـوں سـے پلانے والے
کاش لے جاتے کبھی مانگ کے آنکھیں میری
یـہ مــصــور تِـیری تـصـویـر بـنــانـے والـے
قتیلؔ شفائی

Gghhhko
 

ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی
اس رات دیر تک وہ رہا محو گفتگو
مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی
مجھ سے بچھڑ کے شہر میں گھل مل گیا وہ شخص
حالانکہ شہر بھر سے عداوت اسے بھی تھی
وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا
ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی
سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں
شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی
تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پہ کھلا یہ بھید
سائے سے پیار دھوپ سے نفرت اسے بھی تھی
محسنؔ میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حال دل
درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی
محسن نقوی

Gghhhko
 

چاندنی شب ہے ستاروں کی ردائیں سی لو
عید آئی ہے بہاروں کی ردائیں سی لو
چشم ساقی سے کہو تشنہ امیدوں کے لیے
تم بھی کچھ بادہ گساروں کی ردائیں سی لو
ہر برس سوزن تقدیر چلا کرتی ہے
اب تو کچھ سینہ فگاروں کی ردائیں سی لو
لوگ کہتے ہیں تقدس کے سبو ٹوٹیں گے
جھومتی راہ گزاروں کی ردائیں سی لو
قلزم خلد سے ساغرؔ کی صدا آتی ہے
اپنے بے تاب کناروں کی ردائیں سی لو
ساغر صدیقی

Gghhhko
 

ہم نے بڑے فریب میں ، کاٹی ہے زندگی
مقصد تمام عمر کا ، فِکرِ معاش تھا۔

Gghhhko
 

تماشا کہ اے محوِ آئینہ داری
تجھے کس تمنّا سے ہم دیکھتے ہیں
مرزاغالب

Gghhhko
 

منظر سے کبھی دل کے وہ ہٹتا ہی نہیں ہے
اک شہر جو بستے ہوئے دیکھا ہی نہیں ہے
کچھ منزلیں اب اپنا پتہ بھی نہیں دیتیں
اور راستہ ایسا ہے کہ کٹتا ہی نہیں ہے
اک نقش کہ بن بن کے بگڑتا ہی رہا ہے
اک خواب کہ پورا کبھی ہوتا ہی نہیں ہے
کیا ہم پہ گزرتی ہے تمہیں کیسے بتائیں
تم نے تو پلٹ کر کبھی پوچھا ہی نہیں ہے
اک عمر گنوائی ہے تو پھر دل کو ملا ہے
وہ درد کہ جس کا کوئی چارہ ہی نہیں ہے
یہ عشق کی وادی ہے ذرا سوچ سمجھ لو
اس راہ پہ پاؤں کوئی دھرتا ہی نہیں ہے
ڈھونڈے سے خدا ملتا ہے انسان ہے وہ تو
تم نے اسے شبنمؔ کبھی ڈھونڈا ہی نہیں ہے
#شبنم شکیل

Gghhhko
 

ایک قبیلہ چھوڑ دیا اور اِک دُنیا آباد رکھی
میں نے پہلا شعر لکھا اور شجرے کی بُنیاد رکھی
تُو نے کہا تھا عشق میں تنہا کیسے جی سکتا ہے کوئی
تجھ کو بُھول گئے اور تیری بات ہمیشہ یاد رکھی
سلیم_کوثر

Gghhhko
 

خوابوں میں ملوں گی نہ خیالوں میں ملوں گی
میں تم کو محبت کے حوالوں میں ملوں گی
کیوں ڈھونڈ تے رھتے ھو 'مجھے اہل زمین میں
میں عکس ھوں اور چاند کے ہالوں میں ملوں گی
محسوس کرو گے تو سدا پاؤ گے ھمراہ
راتوں میں کبھی دن کے اجالوں میں ملوں گی
تم بات بدل دو گے مرے ذکر پہ لیکن
ھر بار زمانے کے سوالوں میں ملوں گی
وعدہ ھے مرا مجھ کو قضا لے بھی گئی تو
پا کیزہ محبت کی مثالوں میں ملوں گی
پروین شاکر

Gghhhko
 

رات کو مسمار ہوئے، دن کو تعمیر ہوئے۔۔!!
خواب ہی خواب فقط، روح کی جاگیر ہوئے۔۔!!
عمر بھر لکھتے رہے، پھر بھی ورق ساده رہا۔۔!!
جانے کیا لفظ تھے، جو ہم سے نا تحریر ہوئے۔۔!!
یہ الگ دکھ ہے کے، ہاں تیرے دکھوں سے آزاد۔۔!!
یہ الگ قید ہے ہم، کیوں نا زنجیر ہوئے۔۔!!
دیده و دل میں تیرے، عکس کی تشکیل سے ہم۔۔!!
دھول سے پھول ہوئے، رنگ سے تصویر ہوئے۔۔!!
کچھ نہیں یاد گزشتہ شب کی محفل میں فراز۔۔!!
ہم جدا کس سے ہوئے، کس سے بغل گیر ہوئے۔۔!!
✍️ احمد فراز🍁
🍁

Gghhhko
 

ن م راشد
حسرت انتظار یار نہ پوچھ
ہائے وہ شدت انتظار نہ پوچھ
رنگ گلشن دم بہار نہ پوچھ
وحشت قلب بے قرار نہ پوچھ
صدمۂ عندلیب زار نہ پوچھ
تلخ انجامئ بہار نہ پوچھ
غیر پر لطف میں رہین ستم
مجھ سے آئین بزم یار نہ پوچھ
دے دیا درد مجھ کو دل کے عوض
ہائے لطف ستم شعار نہ پوچھ
پھر ہوئی یاد مے کشی تازہ
مستی ابر نو بہار نہ پوچھ
مجھ کو دھوکا ہے تار بستر کا
نا توانئ جسم یار نہ پوچھ
میں ہوں نا آشنائے وصل ہنوز
مجھ سے کیف وصال یار نہ پوچھ

Gghhhko
 

میری چاہت کی بہت لمبی سزا دو مجھ کو
کرب تنہائی میں جینے کی دعا دو مجھ کو
فن تمہارا تو کسی اور سے منسوب ہوا
کوئی میری ہی غزل آ کر سنا دو مجھ کو
حال بے حال ہے تاریک ہے مستقبل بھی
بن پڑے تم سے تو ماضی مرا لا دو مجھ کو
آخری شمع ہوں میں بزم وفا کی لوگو
چاہے جلنے دو مجھے چاہے بجھا دو مجھ کو
خود کو رکھ کے میں کہیں بھول گئی ہوں شاید
تم مری ذات سے ایک بار ملا دو مجھ کو
نکہت افتخار

Gghhhko
 

خمار بارہ بنکوی
مجھ کو شکست دل کا مزا یاد آ گیا
تم کیوں اداس ہو گئے کیا یاد آ گیا
کہنے کو زندگی تھی بہت مختصر مگر
کچھ یوں بسر ہوئی کہ خدا یاد آ گیا
واعظ سلام لے کہ چلا مے کدے کو میں
فردوس گم شدہ کا پتا یاد آ گیا
برسے بغیر ہی جو گھٹا گھر کے کھل گئی
اک بے وفا کا عہد وفا یاد آ گیا
مانگیں گے اب دعا کہ اسے بھول جائیں ہم
لیکن جو وہ بوقت دعا یاد آ گیا
حیرت ہے تم کو دیکھ کے مسجد میں اے خمارؔ
کیا بات ہو گئی جو خدا یاد آ گیا

Gghhhko
 

تم سے میں اتنی محبت جو کیا کرتا ہوں
اپنے ہی دل کے میں زخموں کو سیا کرتا ہوں
غمِ اُلفت میں تنہائی بھی نشہ دیتی ہے
بند کمرے میں یہ مہ، میں بھی پیا کرتا ہوں

Gghhhko
 

کس طرح لوگ بدلتے ہیں کبھی سوچا ہے
دل سے کیسے وہ نکلتے ہیں کبھی سوچا ہے
تجربہ کتنا انہیں ہوگا میاں دیکھو جو
ٹھوکریں کھا کے سنبھلتے ہیں کبھی سوچا ہے
آپ کے پیار میں دل ٹوٹ گیا ہو جن کا
یاد کر کر کے تڑپتے ہیں کبھی سوچا ہے
تو قدر دوست ہماری نہ کرے پھر بھی تجھے
جان سے بڑھ کے سمجھتے ہیں کبھی سوچا ہے
کیوں کسی غیر کو بدنام کروں میں اشنال
اپنے ہی اپنوں کو ڈستے ہیں کبھی سوچا ہے
اشنال سید

Gghhhko
 

ہَر لغزش ہر ہیجان مُسترد کیا جا سکتا ہے
ہر سارق ہر نگہباں مُسترد کیا جا سکتا ہے
میں دیکھ رہا ہوں کہ سرمایۂ چین و قرار
کب کیسے اور کہاں مُسترد کیا جا سکتا ہے
پھول کھل جائیں جب ہتھیلی پہ تو پھر
زمیں کا ہر گلستاں مُسترد کیا جا سکتا ہے
تُو جو آ جائے مُیسر تا اَزل و اَبد تو پھر؟
عاصم یہ سارا جہاں مُسترد کیا جا سکتا ہے
✍️ عاصم حجازی

Gghhhko
 

ساری خوشیوں سے اجنبی ہو کر
اک ترے غم سے روشناس رہیں
آج جی ہے کہ تجھ کو یاد کریں
اور پھر دیر تک اداس رہیں

Gghhhko
 

ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے
تری رہ میں کرتے تھے سر طلب سر رہ گزار چلے گئے
تری کج ادائی سے ہار کے شب انتظار چلی گئی
مرے ضبط حال سے روٹھ کر مرے غم گسار چلے گئے
نہ سوال وصل نہ عرض غم نہ حکایتیں نہ شکایتیں
ترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے
یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سر رہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سر بزم یار چلے گئے
نہ رہا جنون رخ وفا یہ رسن یہ دار کرو گے کیا
جنہیں جرم عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے
- فیض احمد فیض

Gghhhko
 

میں دوبارہ کھل جاؤں گا اور ثابت كروں گا
کہ مرجھانا محض ایک فضول کہانی ہوتی ہے