میں دوبارہ کھل جاؤں گا اور ثابت كروں گا
کہ مرجھانا محض ایک فضول کہانی ہوتی ہے
تُم بتـــؔـاؤ گے مُجھے آگ کـی حِــدَّت کتنی
عشــق ہوجائے تو ہو جــاتی ہے شِـــؔـدَّت کتنی
لوگ مِلتے ہیں بِچــؔـــھڑتے ہیں چلے جـاتے ہیں
ہاں مگر مِل کــؔے بِچھڑنے کی ہے عِــدَّت کتنی؟
🥀💔
جب حد سے گزرتے ہیں تو غم غم نہیں رہتے
اور ایسی زبوں حالی میں رویا نہیں جاتا
تحریر میں بنتی نہیں جو بات ہے دل میں
کیا درد ہے شعروں میں سمویا نہیں جاتا
سلگی ہیں مری آنکھ میں اک عمر کی نیندیں
آنگن میں لگے آگ تو سویا نہیں جاتا
اگر لگے کہ رویے بدل گئے ہیں، لہجے میں تلخی یا فاصلہ آ گیا ہے، تو خاموشی اختیار کر لیں…
مسکرا کر خود کو برا بنا کر نکل جانا اکثر عزت نفس بچا لیتا ہے۔
ہر جگہ اپنی صفائیاں دینا ضروری نہیں ہوتا، اور ہر بار وضاحت کرنا آپ کا فرض بھی نہیں۔
کبھی کبھی خاموشی ہی سب سے مضبوط جواب ہوتی ہے۔
جب دوسرے کا لہجہ زہر بن جائے تو اپنی مسکراہٹ کو ڈھال بنائیے،
کیونکہ کچھ لوگوں کی فطرت ہی ایسی ہوتی ہے — وہ محبت اور خلوص کی زبان سمجھ ہی نہیں سکتے۔
آپ جتنا بھی مخلص ہوں، سدا کسی کے لیے خاص نہیں رہ سکتے۔
وقت کے ساتھ ان کی نظر میں آپ کی اہمیت بدل سکتی ہے، لیکن یہ آپ کی قیمت کم نہیں کرتی۔
بس اتنا یاد رکھیں: کچھ لوگ اپنی کم ظرفی میں ہی خوش رہتے ہیں،
انہیں آپ کا خلوص بوجھ لگتا ہے، کیونکہ وہ خود کبھی سچا دینا جانتے ہی نہیں۔
ہائے وہ شخص کہ جس کی خوبئ گفتار سے
عشق اردو سے ہوا اور شاعری اچھی لگی!
انور جلال پوری
ویسے انمول ہیں ..... کئی پتھر ...
تیرے دل کا مگر ....جواب نہیں ...!!!
کھڑکیاں بین کرتی ہیں۔۔۔
دروازے بجائے جاتے ہیں۔۔
صحن میں کالی رات کےسائے۔۔۔
صف ماتم اٹھائے آتے ہیں۔۔۔
اک عجب سی وحشت چھاتی ہے۔۔۔
سوکھے پتےسلگائے جاتے ہیں۔۔۔
ساون جب بھی آتا ہے۔۔۔
بارشیں جب بھی برستی ہیں۔۔۔
کئی خواب جلائے جاتے ہیں
کئ دئیے بجھائے جاتے ہیں۔۔۔
کوئی دیر تلک سسکتا ہے۔۔۔
کئی وعدے دہرائے جاتے ہیں۔۔۔
اک میٹھی ہوک اٹھتی ہے۔۔۔
کچھ نشتر چلائے جاتے ہیں۔۔۔
اک مقتل سجایا جاتا ہے۔۔۔
کئی دیوانے دفنائے جاتے ہیں۔۔۔
کتنی آوازیں گھٹتی ہیں۔۔۔
کتنے شکوے دبائے جاتے ہیں۔۔۔
ایک تیری یاد کے چکر میں۔۔۔
کئ ہزار بھلائے جاتے ہیں۔۔۔
زندگی پہ کچھ اختیار بھی ہو!!
وقت کے پاؤں میں قرار بھی ہو!!
آپ کو مان لوں میں راحتِ جاں
آپ کا تھوڑا اعتبار بھی ہو !!
زود رنجی ہمیں گوارا ہے
دل میں لیکن ذرا سا پیار بھی ہو
رنگ سارے پسند ہیں مجھ کو
آپ کے شہر میں بہار بھی ہو!
زیست کاٹی کہ قید کاٹی ہے
آنے جانے پہ اختیار بھی ہو
سازِ دل چھیڑنا تو آساں ہے
رقص کرنا تِرا شعار بھی ہو
فاصلے حیثیت نہیں رکھتے
گر انہیں میرا انتظار بھی ہو
جس کو مرہم لگانا آتا ہے
حالِ دل اُس پہ آشکار بھی ہو!
ہر زلیخا پہل نہیں کرتی !!
گرچہ یوسف سے اسکو پیار بھی ہو
سامیہ ناز سیمیں
تمھیں بخشی ہے دل پہ حُکمرانی اور کیا دیتے
بس یہی تھی اپنی راجدھانی اور کیا دیتے
ستاروں سے کسی کی مانگ بھرنا اک فسانہ ہے
تمھارے نام لکھ دی زندگانی اور کیا دیتے
وہ مجھ سے مانگتا تھا عمر کا اک دلنشیں حصہ
نہ دیتے اس کو اپنی جوانی اور کیا دیتے ❤️
زندگی ، منہ بنائے پھرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔!!
جیسے حالات میرے بس میں ہیں
جنت سے جی لرزنے لگا جب سے یہ سنا
اہل جہاں وہاں بھی ملیں گے یہاں کے بعد
منٹو اور جون✍️
تُمہیں جس سے محبت ہے، تم اُس کی کھوج میں جانا
ہمارے پاس مت آنا، ہمیں تم سے محبت ہے.....!
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے
تو محبت سے کوئی چال تو چل
ہار جانے کا حوصلہ ہے مجھے
دل دھڑکتا نہیں ٹپکتا ہے
کل جو خواہش تھی آبلہ ہے مجھے
ہم سفر چاہیئے ہجوم نہیں
اک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے
کوہ کن ہو کہ قیس ہو کہ فرازؔ
سب میں اک شخص ہی ملا ہے مجھے
احمد فراز
کتنے عیش اڑاتے ہونگے؟ کتنے اتراتے ہوں گے
جانے کیسے لوگ وہ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے
اس کی یاد کی باد صبا میں اور تو کیا ہوتا ہوگا
یوں ہی میرے بال ہیں بکھرے، اور بکھر جاتے ہوں گے
وہ جو نہ آنے والا ہے، اس سے ہم کو مطلب تھا
آنے والوں سے کیا مطلب آتے ہیں آنے ہوں گے
فیض احمد فیض
دلچسپ معلومات
منٹگلمری جیل ۔21نومبر1953
بات بس سے نکل چلی ہے
دل کی حالت سنبھل چلی ہے
اب جنوں حد سے بڑھ چلا ہے
اب طبیعت بہل چلی ہے
اشک خوناب ہو چلے ہیں
غم کی رنگت بدل چلی ہے
یا یوں ہی بجھ رہی ہیں شمعیں
یا شب ہجر ٹل چلی ہے
لاکھ پیغام ہو گئے ہیں
جب صبا ایک پل چلی ہے
جاؤ اب سو رہو ستارو
درد کی رات ڈھل چلی ہے
اِس سے پہلے کہ میں تصویروں میں رہ جاؤں فَقط
مُجھ سے باتیں کرو دیکھو میں مُیَسَّر ہوں اَبھی 🖤
بخت کے تخت سے یکلخت اتارا ہوا شخص
تُو نے دیکھا ہے کبھی جیت کے ہارا ہوا شخص
ہم تو مقتل میں بھی آتے ہیں بصد شوق و نیاز
جیسے آتا ہے محبت سے پکارا ہوا شخص
کب کسی قرب کی جنت کا تمنائی ہے
یہ ترے ہجر کے دوزخ سے گزارا ہوا شخص
بعد مدت کے وہی خواب ہے پھر آنکھوں میں
لوٹ آیا ہے کہیں دور سِدھارا ہوا شخص
اب اندھیرے ہیں کہ لیتے ہیں بلائیں اُس کی
روشنی بانٹ گیا دیپ پہ وارا ہوا شخص
موت کے جبر میں ڈھونڈی ہیں پناہیں اس نے
زندگی یہ ہے ترے لطف کا مارا ہوا شخص
جب بھی حالات کی چھلنی سے گزارا خود کو
ہاتھ آیا ہے مرے مجھ سے نتھارا ہوا شخص
اسد خان
پروین شاکر
اگرچہ تجھ سے بہت اختلاف بھی نہ ہوا
مگر یہ دل تری جانب سے صاف بھی نہ ہوا
تعلقات کے برزخ میں ہی رکھا مجھ کو
وہ میرے حق میں نہ تھا اور خلاف بھی نہ ہوا
عجب تھا جرم محبت کہ جس پہ دل نے مرے
سزا بھی پائی نہیں اور معاف بھی نہ ہوا
ملامتوں میں کہاں سانس لے سکیں گے وہ لوگ
کہ جن سے کوئے جفا کا طواف بھی نہ ہوا
عجب نہیں ہے کہ دل پر جمی ملی کائی
بہت دنوں سے تو یہ حوض صاف بھی نہ ہوا
ہوائے دہر ہمیں کس لیے بجھاتی ہے
ہمیں تو تجھ سے کبھی اختلاف بھی نہ ہوا
شکیل بدایونی
رہا گردشوں میں ہر دم مرے عشق کا ستارہ
کبھی ڈگمگائی کشتی کبھی کھو گیا کنارہ
کوئی دل کے کھیل دیکھے کہ محبتوں کی بازی
وہ قدم قدم پہ جیتے میں قدم قدم پہ ہارا
یہ ہماری بد نصیبی جو نہیں تو اور کیا ہے
کہ اسی کے ہو گئے ہم جو نہ ہو سکا ہمارا
پڑے جب غموں سے پالے رہے مٹ کے مٹنے والے
جسے موت نے نہ پوچھا اسے زندگی نے مارا
ٹال دیتا ہوں بہانے سے سبھی لوگوں کو
مجھ کو آیا نہ تیرے بعد کسی کا ہونا " 💔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain