دوست بھی ملتے ہیں محفل بھی جمی رہتی ہے
تو نہیں ہوتا تو ہر شے میں کمی رہتی ہے
اب کے جانے کا نہیں موسم گر یہ شاید
مسکرائیں بھی تو آنکھوں میں نمی رہتی ہے
عشق عمروں کی مسافت ہے کسے کیا معلوم؟
کب تلک ہم سفری ہم قدمی رہتی ہے
کچھ دلوں میں کبھی کھلتے نہیں چاہت کے گلاب
کچھ جزیروں پہ سدا دھند جمی رہتی ہے
احمد فراز
وہ جو ملتا ہی نہیں عالم بیداری میں
آنکھ لگتی ھے تو سینے سے لگا لیتا ھے
کب ہم نے یہ چاہا تھا، تا عمر ٹھہر جاتے
کچھ خواب تھے پلکوں کی دہلیز پہ دھر جاتے
یخ بستہ ہوائیں تو کہتی تھیں، پلٹ جاؤ
تم خود ہی زرا سوچو گهر ہوتا تو گهر جاتے
ہم پر تو مقفل تھا ہر شہر کا دروازه
وه کرب کی راتیں تھیں تم ہوتے تو مر جاتے
اک بار محبت سے آواز تو دی ہوتی
سو بار محبت میں ہم جاں سے گزر جاتے
وہ دل کہاں سے لاؤں تیری یاد جو بُھلا دے
مجھے یاد آنے والے کوئی راستہ بتا دے
رہنے دے مجھ کو اپنے قدموں کی خاک بن کر
جو نہیں تُجھے گوارا مجھے خاک میں ملا دے
میرے دل نے تُجھ کو چاہا کیا یہی میری خطا ہے
مانا خطا ہے لیکن ایسی تو نہ سزا دے
مجھے تیری بےرُخی کا کوئی شکوہ نہ گِلہ ہے
لیکن میری وفا کا مجھے کچھ تو اب صِلہ دے
راجیندر کرشن
وگرنہ اتنی محبت سے بُت پگھل جائے
مرے نصیب میں شاید لکھا ہوا نہیں تُو
ثمر ہماری ریاضت کا کچھ تو ملنا تھا
خدا تو مل گیا لیکن ہمیں ملا نہیں تُو
جہانذیب ســـاحر
زندگی بھر میں کوئی شے تو مکمل کر لیں
آؤ، لبریز کریں صبر کے پیمانے کو!!!!!
جس طرف سے کبھی آیا تھا مہکتا جھونکا
آج بھـی کـھڑکی اسی رخ پہ کھلی رہتی ہے
پھر تو ہر دستِ مسیحا بھی مجھے خار لگا
تم نے دل اِتنا دُکھایا ہے مگر، کوئی نہیں !
عجیب لوگ ہیں،،،،،،،،،وجہیں تلاش کرتے ہیں ،
بھلا یہ عشق کسی بھی سبب سے تھوڑی ہے ،
جو اختیار تمہیں ہے،،،،،، وہ ہر کسی کو نہیں ،
تمھارے ساتھ محبت ھے سب سے تھوڑی ہے_!!
انا کے موڑ پر بچھڑے تو ہمسفر نہ ملے
ہم ایک ہی شہر میں رہ کر عمر بھر نہ ملے...🙂💔
دیکھ سنسان ہو گئی گلیاں
جب سے وہ بے وفا نہیں آیا
#سیاہ_بخت
ﻣﺤﺒﺖ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﮨﻮﺗﯽ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺗﻮ ﺍﺱ ﭘﮧ ﻋﻤﺮ ﺑﻬﺮ ﭼﻠﺘﮯ !
ﮐﮩﯿﮟ ﺗﻬﮏ ﮐﮯ جو ﺭُﮎ ﺟﺎﺗﮯ ۔۔۔۔۔
ﺗﻮ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺗﯿﺮﯼ ﺁﺭﺯﻭ ﮐﺮﺗﮯ !!
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻻ ﮐﺮ ﺧﯿﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺗﻤﻬﯽ ﺳﮯ ۔۔۔۔۔۔ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﺮﺗﮯ !!
ﺗﻤﻬﯽ ﮐﻮ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﭘﮩﺮﻭﮞ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺗﻤﻬﺎﺭﯼ ﺟُﺴﺘﺠﻮ ﮐﺮﺗﮯ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!
ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺯﺧﻢ ﺑﻬﯽ ﺩﯾﺘﮯ،
ﺗﻮ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺭﻓﻮ ﮐﺮﺗﮯ !!
ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮑﻮﮦ، ﮔِﻠﮧ ﮨﻮ ﺗﺎ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ۔۔۔۔۔۔ ﺭُﻭ ﺑﺮُﻭ ﮐﺮﺗﮯ !!
ﻣﺤﺒﺖ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﮨﻮﺗﯽ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺗﻮ ﺍﺱ ﭘﮧ ﻋﻤﺮ ﺑﻬﺮ ﭼﻠﺘﮯ۔
کچھ تعلق بھی نہیں، پھر بھی خفا ہُوں تُجھ سے
جانے کس مان پہ مَیں رُوٹھ گیا ہُوں تُجھ سے
مُجھے کم عُمرسمجھ کے مِری تضحیک نہ کر
مَیں محبت میں کئی سال بڑا ہُوں تُجھ سے
جس طرح دودھ میں گُھل جاتی ہے چینی، جاناں !
مَیں خیالوں میں اُسی طرح مِلا ہُوں تُجھ سے
گیند بن کر ترے پیروں میں پڑا ہوں کہ تُو کھیل
تُو سمجھتا ہے کہ مَیں کھیل رہا ہُوں تُجھ سے
میرے اجزا میں نہ مٹی ہے نہ پانی ہے نہ آگ
میرے پیکر کو پرکھ لے، مَیں بنا ہُوں تُجھ سے
اے چٹانوں کی طرح مُجھ کو دبانے والے !
دیکھ چشمے کی طرح پھوٹ بہا ہُوں تُجھ سے
میری رگ رگ تری رگ رگ سے جُڑی ہے، مِرے یار !
ظاہری طور پہ تو دُور کھڑا ہُوں تُجھ سے
اے اُداسی ! مَیں ادب اس لیے کرتا ہُوں ترا
غم کے جتنے بھی سبق ہیں، مَیں پڑھا ہُوں تُجھ سے
رحمان فارس
تم پہ اُتری ہی نہیں ہجر کی اندھی راتیں
تُم نے دیکھا ہی نہیں، چاند کا کالا ہونا
کچھ وصال آخر تک ، معتبر نہیں ہوتے
ساتھ چلنے والے بھی ، ہمسفر نہیں ہوتے
کچھ کہے بنا اکثر ، بولتی ہیں آنکھیں بھی
گفتگو کے سب لمحے، حرف گر نہیں ہوتے
کتنا خوف ہوتا ھے ، شام کے اندھیرے میں
پوچھ ان پرندوں سے ، جن کے گھر نہیں ہوتے
عمر بھر نہیں ملتا واپسی کا دروازہ
آگہی کے زنداں میں بام و در نہیں ہوتے
وہ تَہی دَست بھی کیا خوب کہانی گَر تھا
باتوں باتوں میں مجھے چاند بھی لا دیتا تھا
ہنساتا تھا مجھ کو تو پھر وہ رُلا بھی دیتا تھا
کر کے وہ مجھ سے اکثر وعدے بُھلا بھی دیتا تھا
بے وفا تھا بہت مگر دل کو اچھا لگتا تھا
کبھی کبھار باتیں محبت کی سُنا بھی دیتا تھا
کبھی بے وقت چلا آتا تھا ملنے کو
کبھی قیمتی وقت محبت کے گنوا بھی دیتا تھا
تھام لیتا تھا میرا ہاتھ کبھی یوں ہی خود
کبھی ہاتھ اپنا میرے ہاتھ سے چھڑا بھی لیتا تھا
عجیب دھوپ چھاؤں سا مزاج تھا اُس کا
معتبر بھی رکھتا تھا نظروں سے گرا بھی دیتا تھا...!
#پروین____شاکر
دوست بھی ملتے ہیں محفل بھی جمی رہتی ہے
تو نہیں ہوتا تو ہر شے میں کمی رہتی ہے
اب کے جانے کا نہیں موسم گر یہ شاید
مسکرائیں بھی تو آنکھوں میں نمی رہتی ہے
عشق عمروں کی مسافت ہے کسے کیا معلوم؟
کب تلک ہم سفری ہم قدمی رہتی ہے
کچھ دلوں میں کبھی کھلتے نہیں چاہت کے گلاب
کچھ جزیروں پہ سدا دھند جمی رہتی ہے
احمد فراز
جھوٹ کہتے ہیں کہ آواز لگا سکتا ہے
ڈوبنے والا فقط ہاتھ ہلا سکتا ہے
اور پھر چھوڑ گیا وہ جو کہا کرتا تھا
کون بدبخت تجھے چھوڑ کے جا سکتا ہے
راستہ بھولنا عادت ہے پرانی اس کی
یعنی اک روز وہ گھر بھول کے آ سکتا ہے
شرط اتنی ہے کہ تو اس میں فقط میرا ہو
پھر تو اک خواب کئی بار دکھا سکتا ہے
آنکھ بنتی ہے کسی خواب کا تانا بانا
خواب بھی وہ جو مری نیند اڑا سکتا ہے
اس نے کیا سوچ کے سونپا ہے کہانی میں مجھے
ایسا کردار جو پرده بھی گرا سکتا ہے
میرے رزاق سے کرتی ہے مری بھوک سوال
کیا یہیں رزق کے وعدے کو نبھا سکتا ہے
تم نہ مانو گے مگر میرے چلے جانے پر
اک نہ اک روز تمہیں صبر بھی آ سکتا ہے
good morning
جب کبھی خوبئ قسمت سے تجھے دیکھتے ہیں
آئینہ خانے کی حیرت سے تجھے دیکھتے ہیں
وہ جو پامالِ زمانہ ہیں تخت نشیں
دیکھ تو کیسی محبت سے تجھے دیکھتے ہیں
کاسۂ دِید میں بس ایک جھلک کا سِکہ
ہم فقیروں کی قناعت سے تجھے دیکھتے ہیں
تیرے کوچے میں چلے جاتے ہیں قاصد بن کر
اور اکثر اسی صورت سے تجھے دیکھتے ہیں
تیرے جانے کا خیال آتا ہے گھر سے جس دَم
در و دیوار کی حسرت سے تجھے دیکھتے ہیں
کہہ گئی بادِ صبا آج تِرے کان میں کیا؟
پھول کس درجہ شرارت سے تجھے دیکھتے ہیں
تجھ کو کیا علم تجھے ہارنے والے کچھ لوگ
کس قدر سخت ندامت سے تجھے دیکھتے ہیں
پروین شاکر
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain