ترجمہ: عورت رکوع میں کسی قدرسے نہیں پکڑے گی،اپنی انگلیوں کو کشادہ نہیں کرے گی، البتہ ہاتھوں کو ملا کر اپنے گھٹنوں پر جما کر رکھے گی، گھٹنوں کو قدرے ٹیڑھا کرے گی اور اپنے بازو جسم سے دور نہ رکھے گی۔
غیرمقلد عالم عبدالحق ہاشمی اپنی کتاب ”نصب العمود“ میں لکھتے ہیں:
4- چوتھا فرق سجدہ کرنے کی ہیئت میں ہے کہ مرد سجدے میں بازو کو پہلو سے جدا رکھیں گے جب کہ خواتین مرد کی طرح کھل کر سجدہ نہیں کریں گی، بلکہ اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملائیں گی، بازؤوں کو پہلو سے ملا کر رکھیں گی اور کہنیاں زمین پر بچھا دیں گی۔
"عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى امْرَأَتَيْنِ تُصَلِّيَانِ ، فَقَالَ : إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى الأَرْضِ ،
"عن عطاء قال: تجتمع المراة إذا ركعت ترفع يديها إلى بطنها وتجتمع ما استطاعت". (مصنف عبدالرزاق ج3ص50رقم5983)
ترجمہ: حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ عورت سمٹ کر رکوع کرے گی، اپنے ہاتھوں کو اپنے پیٹ کی طرف ملائے گی، جتنا سمٹ سکتی ہو سمٹ جائے گی۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"والمرأة تنحني في الرکوع يسيراً ولاتعتمد ولاتفرج أصابعها ولکن تضم يديها وتضع علي رکبتيها وضعاً وتنحني رکبتيها ولاتجافي عضدتيها". (الفتاویٰ الهندیة: ج1ص74)
"وَ الْمَرْاَةُ تَضَعُ [یَدَیْها]عَلٰی صَدْرِها اِتِّفَاقًا؛ لِاَنَّ مَبْنٰی حَالِها عَلَی السَّتْرِ". (فتح باب العنایة: ج1 ص243 سنن الصلاة)
ترجمہ:عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی،اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے، کیوں کہ عورت کی حالت کا دارو مدار پردے (ستر) پر ہے۔
"وَاَمَّا فِي حَقِّ النِّسَاءِ فَاتَّفَقُوْا عَلٰی أَنَّ السُّنَّةَ لَهُنَّ وَضْعُ الْیَدَیْنِ عَلَی الصَّدْرِ لِأَنَّهَا أَسْتَرُ لَهَا". (السعایة ج 2ص156)
ترجمہ: رہا عورتوں کے حق میں[ہاتھ باندھنے کا معاملہ] تو تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان کے لیے سنت سینہ پر ہاتھ باندھناہے؛ کیوں کہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔
3- تیسرا فرق رکوع کی ہیئت میں ہے کہ مرد رکوع میں اپنے بازو اپنے پہلو سے جدا رکھیں گے جب کہ خواتین اپنے بازؤں کو پہلو سے جدا نہیں کریں گی۔
"المرأة ترفع يديها حذاء منکبيها، وهو الصحيح؛ لأنه أسترلها". (فتح القدير لابن الہمام: ج1ص246)
ترجمہ: تکبیر تحریمہ کے وقت عورت اپنے کندھوں کے برابر اپنے ہاتھ اٹھائے، یہ صحیح تر ہے؛ کیوں کہ اس میں اس کی زیادہ پردہ پوشی ہے۔
2- دوسرا فرق قیام میں ہاتھ باندھنے کی ہیئت میں ہے کہ مرد کے لیے ناف کے نیچے ہاتھ باندھا مستحب ہے، اگرچہ فقہاء میں اس حوالے سے اختلاف بھی ہے، تاہم خواتین کے حوالہ سے تمام اہلِ علم کا اجماع ہے کہ وہ قیام کے وقت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی اور اجماع مستقل دلیل شرعی ہے۔
"وَ الْمَرْاَة تَضَعُ [یَدَیْها]عَلٰی صَدْرِها بِالْاِتِّفَاقِ". (مستخلص الحقائق شرح کنز الدقائق: ص153)
ترجمہ: عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی،اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے۔
فرمایا : اپنے سینے تک۔
"عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ زَيْتُونَ ، قَالَ: رَأَيْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ تَرْفَعُ يَدَيْهَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهَا حِينَ تَفْتَتِحُ الصَّلاَةَ". (مصنف ابن أبي شیبة: ج2ص421باب في المرأة إذا افتتحت الصلاة إلی أین ترفع یدیها؟)
ترجمہ: عبد ربہ بن زیتون سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ نماز شروع کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتیں۔
ان تین روایات سے عورت کے لیے ہاتھوں کو کندھے اور سینہ تک اٹھانے کا تذکرہ موجود ہے۔ لہٰذا عورت اپنے ہاتھ اس طرح اٹھائے گی کہ ہاتھوں کی انگلیاں کندھوں تک اور ہتھیلیاں سینہ کے برابر آجائیں۔ اس فرق کی عقلی وجہ یہ ہے کہ اس طرح ہاتھ اٹھانے میں زیادہ ستر پوشی ہوتی ہے، جو عورت کے حق میں عین مطلوب ہے۔
رقم الحدیث1605، البدر المنير لابن الملقن:ج3ص463)
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (درمیان میں طویل عبارت ہے، اس میں ہے کہ) آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے ارشاد فرمایا: اے وائل! جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے۔
"حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شَيْخٌ لَنَا ، قَالَ : سَمِعْتُ عَطَاءً؛ سُئِلَ عَنِ الْمَرْأَةِ كَيْفَ تَرْفَعُ يَدَيْهَا فِي الصَّلاَةِ ؟ قَالَ : حَذْوَ ثَدْيَيْهَا". (مصنف ابن أبي شیبة: ج1ص270باب في المرأة إذَا افْتَتَحَتِ الصَّلاَةَ ، إلَى أَيْنَ تَرْفَعُ يَدَيْهَا)
ترجمہ: حضرت عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ عورت نماز میں ہاتھ کہاں تک اٹھائے؟
مرد و عورت کی نماز میں اصولی فرق ستر اور پردے کا ہے، جیساکہ بعض روایات میں اس کی صراحت ہے، لہٰذا عورت کے حق میں مختلف ارکان کی ادائیگی میں زیادہ ستر (پردے) کا خیال رکھا گیاہے، مرد اور عورت کی نماز کے درمیان فرق درج ذیل ہیں:
1-پہلا فرق تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کے اٹھانے کی ہیئت میں ہے:
جس کی تفصیل یہ ہے کہ مرد تحریمہ کے وقت کانوں تک ہاتھ اٹھائیں گے جب کہ خواتین کے لیے سینے تک ہاتھ اٹھانے کا حکم ہے۔
"عَنْ وَائِلِ بن حُجْرٍ، قَالَ: جِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:يَا وَائِلَ بن حُجْرٍ، إِذَا صَلَّيْتَ فَاجْعَلْ يَدَيْكَ حِذَاءَ أُذُنَيْكَ، وَالْمَرْأَةُ تَجْعَلُ يَدَيْهَا حِذَاءَ ثَدْيَيْهَا".(المعجم الکبیر للطبرانی: ج9ص144رقم17497، مجمع الزوائد: ج9 ص624
اس لیے کسی کو لعن طعن کرنا، اختلافِ رائے پر قتل و غارتگری کرنا، بندوق کے زور پر اپنی رائے کو منوانا حرام ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
میں ہر مسلک کا دل سے عزت و احترام کرتی ہوں اور میرے اساتذہ نے یہی سکھایا ہے کہ جس دن کسی دوسرے مسلک کو اپنے سے کم تر سمجا تو بربادی کا وقت شروع ہوگیا جو لوگ میری پوسٹس سے اتفاق کرتے ہو وہی فالو کریں ورنہ مہربانی آپ لوگوں کی مجھے اپنا لیکچر مت دیجیے گا ۔
یاد رہے کہ فقہی احکام اور فروعی مسائل میں علمی اختلاف کا ہونا ناگزیر ہے، یہ ہر دور میں ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ علمی اختلاف کی موجودگی درحقیقت علم و تحقیق اور علومِ دین میں دلچسبی کا اظہار ہے۔ یہ معاشرتی تنوع کا مظہر بھی ہے جس کے ذریعے معاشرے اور قومیں آگے بڑھتی ہیں۔ مہذب معاشروں میں اپنی بات پوری وضاحت کے ساتھ بیان کی جاتی ہے، اختلافی آراء کو برداشت کیا جاتا ہے، مخالف کی غلطی اس پر واضح کی جاتی ہے اور اپنی رائے کی قبولیت و عدمِ قبولیت کو عامۃ الناس کی منشاء پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہی طریقہ ہمارے اسلاف میں بھی رائج تھا۔ تمام فقہی مذاہب و اعتقادی مسالک اپنی آراء کے ثبوت کے لیے قرآن و حدیث، اجماع و قیاس سے ہی استدلال کرتے ہیں، اختلاف نصوص فہمی یا فقہی اصول و شرعی ضوابط سے تخریج وتنقیح کا ہے یا نصوص کی تاویل وتشریح کا ہے۔
:
مذہب اور مسلک‘ دونوں عربی زبان کے الفاظ ہیں اور لغوی طور پر ہم معنیٰ یا قریب المعنیٰ ہیں۔ مذہب کا لغوی معنیٰ ہے جانے کا راستہ، مجازاً اس سے مراد ہے کسی شخص یا گروہ کی راہِ حیات اور شرعی اصطلاح میں فقہی مسائل میں آئمہ و علماء کی اجتہادی آراء کو مذہب کہا جاتا ہے۔ حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ، حنبلیہ، جعفریہ وغیرہ فقہی مذاہب ہیں۔ جیسے کہا جاتا ہے: فلاں مسئلہ میں امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہ ہے۔
مسلک کے لغوی معنیٰ بھی راہ، راستہ اور چلنے کی جگہ کے ہیں، مجازاً اس سے مراد نظریہء حیات و مکتبہء فکر ہے اور شرعی اصطلاح میں فروعی و مختلف فیہ مسائل کے بارے میں آئمہ و علماء کی اعتقادی آراء کو مسلک کہا جاتا ہے۔ جیسے مسلک اہل سنت، مسلک اہل تشیع، مسلک ماتریدیہ، مسلک اشعریہ وغیرہ۔
مذہب:
یہ ہماری اسلامی تاریخ کے دین کے ماہرعلماء وفقہاء کی اس فکر کا نام ہے جو انہوں نے دین کے کسی اہم مسئلے پر غور وفکر کے بعد اپنی رائے کی صورت میں دی۔اس سوچ اور فکر کو جب اپنایا جاتا ہے تو اسے مذہب نام دیا جاتا ہے۔اسی لئے مذاہب اربعہ یا چاروں مذاہب کی اصطلاح عام ہے۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
دین اور مذہب میں فرق
فقہی مکاتب کے ہاں لفظ مذہب ۔۔مخصوص فقہی سوچ یا نظریے کے لئے مستعمل ہوتا ہے۔ اس لئے مناسب لگتا ہے کہ لفظ دین کے مقابلے میں اسے واضح کردیا جائے۔
دین:
اسلام کے لئے دین کا لفظ قرآن پاک اور احادیث شریفہ میں عام مستعمل ہوا ہے۔ اس لئے کہ دین(راستہ، عقیدہ وعمل کامنہج، طریقہ زندگی) بتدریج نازل ہوا اور مکمل صورت میں ہمیں مل گیا۔ جو سب آسمانی وحی ہے اور مقدس ہے۔ جس کا ا علان قرآن کریم میں واشگاف الفاظ میں کیا گیا ہے: {إن الدین عند اللہ الإسلام} یقینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اگر کوئی ہے تو وہ اسلام ہے۔ ا س آسمانی دین میں کسی انسانی فکر یا سوچ کا کوئی دخل نہیں۔یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں بذیعہ وحی ملا ہے جس کے رسول اللہ ﷺ بھی پابند ہیں۔
*💫دعائیں مانگتےتھک مت جانا*
*کبھی یہ مت کہنا کہ ہماری تو رب سنتا ہی نہیں*
*ارے! ایک وہی تو ہے جو سنتا ہے دل سے مانگو تو وہ ضرور دیتا ہے*
🌹🌹🌹🥀🥀🥀
I love Allah
جب بھی مانگی پوری کی میرے رب نے میری ہر دعا ہر التجا۶
*💫ہونگی تمہارے پاس زمانے بھر کی ڈگریاں*
*گھر پر رکھا قرآن نہ پڑھ پاؤ تو ان پڑھ ہو تم*
🌹🌹🌹🥀🥀🥀
*جوان لڑکی کو گھر بٹھائے رکھنا*
حدیث شریف میں آتا ہے کہ تین چیزوں میں تاخیر مت کرو:
" نماز جب اس کا وقت آجائے، جنازہ جب تیار ہوجائے، لڑکی یا لڑکا جب اس کے جوڑ کا رشتہ مل جائے۔"
دور حاضر میں لڑکے ہوں یا لڑکیاں، ان کی شادی کرانے میں والدین محض مال کی ہوس اور غیر شرعی دنیوی مصلحتوں کی بناء پر بہت زیادہ تاخیر کرتے ہیں، حتی کہ بعض کی عمریں چالیس چالیس سال ہوجاتی ہیں۔
یہ شرعا ظلم ہے اور اگر بلاوجہ تاخیر کی وجہ سے اولاد کسی گناہ میں مبتلا ہوگئی تو حدیث کے مطابق اس گناہ میں والد بھی شریک ہوگا۔
( آپ کے مسائل اور ان کا حل 1/180 )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کچھ دنوں بعد کرونا مسجدوں سے نکل کر جانوروں میں منتقل ہونے والا ہے کیونکہ قربانی آنے والی ہے
محتاط رہیں کرونا بہانہ مذہب نشانہ
*💫جذبات جذبات کو پیدا کر سکتے ہیں اگر آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو زبردستی مٌسکرائیں اور ہنسیں آہستہ آہستہ آپکا دماغ بھی آپکی اداکاری کیمطابق عمل کرنے لگے گا اور آپ سچ مچ خوش رہنے لگیں گے*
🌹🌹🌹🥀🥀🥀
*💫وقت کبھی بُرا نہیں ہوتا انسان اُسے بُرا سمجھتا ہے تو چلیں بُرا ہی کہہ لیں مگر یاد رکھیں یہ ایک بہترین وقت ہوتا ہے کیونکہ اِس میں آپ کے اردگرد بدترین لوگ سامنے آجاتے ہیں*
اصولی طور پر 6 فرقے ہیں
1)خواج
2)شیعہ
3)معتزلہ
4) جبریہ
5)مرجئہ
6)مشبھہ
پھر خوارج کے پندرہ فرقے ہیں اور شیعہ کے بتیس اور معتزلہ کے بارہ ہیں اور جبریہ کے پانچ ،مرجئہ کے تین اور مشبھہ کے پانچ ،ان سب کا مجموعہ بہتر ہوا اور ایک فرقہ اہل سنت والجماعت ہے تو کل ملا کر تہتر فرقہ بنے ۔
(التعلیق الصبیح شرح مشکاۃ المصابیح للعلامہ ادریس کاندھلوی رح ،ص 130 ج1 مطبع اشاعۃالعلوم )
حاشية السندي على سنن ابن ماجه: (2 / 479دار الجيل بيروت)
(وتفترق أمتي) المراد أمة الإجابة. وهم أهل القبلة. فإن اسم الامة مضافا إليه صلى الله عليه وسلم يتبادر منه أمة الإجابة. والمراد تفرقهم في الأصول والعقائد لا الفروع والعمليات.
حاشية ابن عابدين: (4 / 237دارالفکر بیروت)
أن الرافضي إذا كان يسب الشيخين ويلعنهما فهو كافر، وإن كان يفضل عليا عليهما فهو مبتدع. اهـ.
وهذا لا يستلزم عدم قبول التوبة. على أن الحكم عليه بالكفر مشكل، لما في الاختيار اتفق الأئمة على تضليل أهل البدع أجمع وتخطئتهم وسب أحد من الصحابة وبغضه لا يكون كفرا، لكن يضلل إلخ.
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم بالصواب
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain