قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليأتين على أمتي ما أتى على بني إسرائيل حذو النعل بالنعل، حتى إن كان منهم من أتى أمه علانية لكان في أمتي من يصنع ذلك، وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة، كلهم في النار إلا ملة واحدة» ، قالوا: ومن هي يا رسول الله؟ قال: «ما أنا عليه وأصحابي»
جامع الأحاديث ج 34 / ص 96المکتبۃ الشاملۃ)
عن جابر بن عبد الله قال : قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – شفاعتى لأهل الكبائر من أمتى قلت ما هذا يا جابر قال نعم يا محمد إنه من زادت حسناته على سيئاته فذاك الذى يدخل الجنة بغير حساب ومن استوت حسناته وسيئاته فذاك الذى يحاسب حسابا يسيرا ثم يدخل الجنة وإنما شفاعة رسول الله – صلى الله عليه وسلم – لمن أوبق نفسه وأثقل ظهره (البيهقى فى البعث ، وابن عساكر)
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ امّتِ اجابت سے مراد مطلقاً فرقۂ ناجیہ ہےاور نجات کادارومدار اعمالِ صالحہ اور عقائدِ صحیحہ پر ہے ،پس مذکورہ فرقے ،بریلوی ، دیوبندی،غیر مقلدین اور اشاعتی چونکہ امّتِ اجابت میں داخل ہیں اس لئے بحیثیت مجموعی یہ سب ناجی شمار ہوں گے،البتہ نجات کی دوقسمیں ہیں :
۱۔نجاتِ اوّلیہ
۲۔ نجاتِ غیر اوّلیہ
نجاتِ اوّلیہ کا مطلب یہ ہے کہ بعض لوگوں کوحساب وکتاب کے بعد ہی سے جہنم سے نجات مل جائیگی۔اور نجاتِ غیر اوّلیہ کا مطلب یہ ہے کہ جہنم میں داخل ہو کر اپنے گناہوں کی مدتِ سزا کےبعد اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے نجات حاصل کریں گے،لہذا اس تفصیل سے یہ بات بخوبی معلوم ہوجاتی ہے کہ مذکورہ بالا فرقہ ناجیہ میں سے بعض لوگ نجاتِ اوّلیہ کے مستحق ہیں اور دیگر بعض نجاتِ غیر اوّلیہ کے مستحق ہیں۔
سنن الترمذي : (5 / 26)
أو أنكر صحبة الصديق، أو اعتقد الالوهية في علي، أو أن جبريل غلط في الوحي، أو نحو ذلك من الكفر الصريح المخالف للقرآن. – (ج 4 / ص ۲۳۷)
جاری۔
جیسا کہ اوپر لکھا جاچکاہے کہ فرقۂ ناجیہ سے مراد امّتِ اجابت ہے یعنی اہلِ قبلہ اور مسلمان اس کامصداق ہیں ،لہذا غیر ناجیہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اہلِ قبلہ اور مسلمان نہیں ہیں،اس لئے فرقہ غیر ناجیہ کافر ہی ہوں گے،جیسے ذکری،آغاخانی،بوہری،منکرین حدیث اور وہ روافضین جن کا کوئی ایک عقیدہ کافرانہ ہو وہ بھی کافر ہیں،مثلاً قرآن کریم میں تحریف کے قائل ہوں، یاحضرت عائشہ صدیقہ پر تہمت کو جائز سمجھتے ہوں،یاحضورﷺکے بعد صدیقِ اکبراور حضرت عمر فاروق اور دیگر صحابۂ کرام کو معاذاللہ مرتد سمجھتے ہوں ،یاحضرت علی کو خدا مانتے ہوں،یا جبرئیل کے وحی لانے میں غلطی کے قائل ہوں ۔
اور جو روافض کوئی عقیدہ کافرانہ نہ رکھتے ہوں بلکہ صرف حضرت علی کو حضراتِ شیخین پر فضلیت دیتے ہوں وہ کافر نہیں۔
وفی رد المحتار
نعم لا شك في تكفير من قذف السيدة عائشة رضي الله تعالى عنها،
ومبتدعتهم مستحقة لدخولها إلا أن يعفو الله عنهم اھ.
وفیہ:وهي الجماعة أي أهل العلم والفقه الذين اجتمعوا على اتباع آثاره عليه الصلاة والسلام في النقير والقطمير ولم يبتدعوا بالتحريف والتغيير إلی آخر القول (ج۱ ص ۳۴۹)البتہ ان فرقوں میں سے کونسا فرقہ ناجی اور کونسا فرقہ غیر ناجی ہے تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ فرقۂ ناجیہ سے مراد وہ مسلمان اہلِ سنت والجماعت ہیں جو عقائد واحکام میں حضراتِ صحابہ کے مسلک پر ہوں اور قرآن کے ساتھ سنّتِ نبویہﷺ کو بھی حجت مانتے ہوں،اور اس پر عمل کرتے ہوں اور دین میں اپنی طرف سے کچھ کمی،زیادتی کرنے والے نہ ہوں اور جو فرقہ اس قسم کے عقائدِ صحیحہ نہ رکھتا ہو وہ غیر ناجی ہے۔
وفی المشکوٰۃ:وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة كلهم في النار إلا ملة واحدة قالوا ومن هي يا رسول الله قال ما أنا عليه وأصحابي. (۲۹)
جواب:حدیث شریف’’وتفترق امتی علی ثلث وسبعین ملۃ الخ‘‘ کی تشریح میں مختلف قول ہیں ،راجح قول کے مطابق اس میں امّت سے امّتِ اجابت مراد ہے یعنی وہ لوگ جو اہلِ قبلہ ہیں اور مسلمان سمجھے جاتے ہیں اور حدیث شریف میں ‘‘کلھم فی النار’’یعنی وہ تمام فرقے دوزخی ہوں گے کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ سب اپنے غلط عقائد اور بد اعمالیوں کی بناء پر دوزخ میں داخل کئے جائیں گےلہذا جس کے عقائد اور اعمال اس حد تک مفسد نہیں ہوں گےکہ وہ دائرہ کفر میں آتے ہوں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے وہ اپنے گناہوں کی مدت سزا کے بعد دوزخ سے نکال لئے جائیں گے۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيحج 2 / ص 58)
ونقل الأبهري أن المراد بالأمة أمة الإجابة عند الأكثر كلهم في النار لأنهم يتعرضون لما يدخلهم النار فكفارهم مرتكبون ما هو سبب في دخولها المؤبدة عليهم
حدیث مبارکہ میں ہے کہ قیامتت کہ قریب 73تہتر فرقے ان سب میں سے صرف ایک جنت میں جاۓ گا باقی سب جہنم میں اس تہترفرقوں سےکیا مرادہے اس میں سے کون حق پر پے مسلمان بہن بھاٸیوں نے اس کو پکڑ کر آپس میں لڑاٸیاں شروع کر رکھی ہیں ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں توجہ فرماٸیں کہ تہتر فرقوں سے کون سے فرقے مراد ہیں ان شاء اللہ اگلی پوسٹس میں جواب مذکور ہوگا انتظار فرماٸیے اور پڑھ کر آگے پہنچاٸیے گا ۔
کہ اولاد یا بہنیں ناجائز تعلقات بنانے یا خدانخواستہ زنا کی فکر میں پڑے رہتے ہیں یا کم از کم فحش ویڈیوز دیکھتے ہیں انجام آخرت کی بربادی ہی ھے۔بیٹی بہن کی بھی اور جو والدین یا سرپرست مناسب رشتہ آنے کے باوجود انکاری ہیں اُنکی بھی۔
*سلسلہ احادیث مبارکہ*
*والدین اور سرپرست حضرات کے لئیے لمحہ فکریہ *
🌴 والدین یا سرپرست اپنی اولاد خصوصاً بیٹیوں یا بہنوں کا مناسب رشتہ آنے پر ٹال مٹول سے کام نہ لیں ورنہ وہ جس گناہ میں بھی مبتلا ھوں گے اُنکو تو گناہ ملے گا ہی ساتھ ساتھ والدین یا سرپرست کو بھی گناہ ملے گا وہ بھی روزِ قیامت میں مجرم بن کر اللہ کے حضور پیش ھوں گے۔
*🌹 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اگر تمہارے پاس کوئی ایسا شخص پیغامِ نکاح بھیجے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ھو تو اس سے اپنی *( بہن ، بیٹی )* کا نکاح کر دو ۔اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین پر فتنہ اور لمبا چوڑا بگاڑ پیدا ہو گا.*
(📚جامع ترمذی)
بعض لوگ بیٹیوں، بہنوں کا مناسب رشتہ آنے پر اُنکی تعلیم خواہ عصری ھو یا دینی، مکمل کرنے کیوجہ سے رشتہ سے انکار کر بیٹھتے ہیں نتیجہ یہی نکلتا ھے
ــــــــــــــــــ🍃🌼🍃ــــــــــــــــــ
زندگی *مشــــــــــکل* ہوتی ہے ؛؛
ـــــــــــــــ تو رب *یاد* آتا ہے ~~
لوگ! *ستاتــــے* ہیں تو رب یاد آتا ہــے ؛؛
*غلطی* ہو جاتی ہے تو رب یاد آتا ہے ~~
ــــــ کچھ *خواہش* ہو تو رب یاد آتا ہے ؛؛؛
کتنا *عظیم* ہے وہ رب کہ میرے ہر پکارنے
پر *عطــــــــــــــــا* کی بارش برساتا ہـے ••
اللہ ہر پریشان کو *قرار* دے ــ،
اللہ ہر بیمار کو *شفا* دے ـــــ،
ہر بھٹکے ہوۓ کو *پناہ* دے ـ،
ہم سب کو اپنی *رضا* دے ــ،
```(آمین یا ربّ العٰلمین)```
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
:اور تفسیر میں امام کلبی امام هے خود امام اعظم ابوحنیفه رحمه الله نے اس سے تفسیر میںروایت لی هے.* مسند امام اعظم:ص227 *
حضرت علقمه رحمه الله فرماتے هیں:
که حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنه نے فرمایا کیا میں تمهیں رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کی طرح نماز پڑه کر نه دکهاوں ، چناچه آپ نے نماز پڑهی اور صرف ایک مرتبه رفع یدین کیا.
* مسند امام احمد:ج1 ص388 *
نوٹ: حضرت امام ترمذی رحمه الله فرماتے هیں:
که بهت سے اهل علم صحابه کرام رضوان الله اجمعین اور تابعین کا یهی مذهب هے اور حضرت سفیان ثوری اور اهل کوفه کا بهی یهی مسلک هے.
* ترمذی شریف:ج1 ص35 *. واللہ اعلم
الله تعالی فرماتے هیں:
(قُوْمُوْالِلّهِ قَانِتِيْن ) خدا کے سامنے نهایت سکون سے کهڑے هو.
دیکهئے الله اور اس کے رسول صلی الله علیه وآله وسلم نے نماز میں سکون کا حکم فرمایا اور نبی علیه السلام نے نماز کے اندر رفع یدین کو سکون کے خلاف فرمایا:
جیسا که الله تعالی نے فرمایا هے قرآن پاک میں:
( قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤمِنُوْنَ الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلوتِهِمْ خَاشِعُوْن )
" کامیاب هوگئے وه مومن جو اپنی نمازوں میں خشوع کرتے هیں "
اس کی تفسیر میں حضرت نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم کے چچازاد بهائی امام المفسرین حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنه فرماتے هیں:
( قال ابن عباس الذین لا یرفعون ایدیهم فی صلوتهم )
حضرت ابن عباس رضی الله عنه فرماتے هیں یعنی جو نمازوں کے اندر " رفع یدین " نهیں کرتے .
* تفسیر ابن عباس:ص323 *
یه تفسیری فتوی هے:
که میں تم کو نماز میں شریر گهوڑوں کی دم کی طرح رفع یدین کرتے کیوں دیکهتا هوں نماز میں ساکن اور مطمئن رهو .
* صحیح مسلم: ج1 ص181 ، ابوداود شریف: ج1 ص150
، نسائی شریف:ص172 ، طحاوی شریف:ج1 ص158،
مسند امام احمد: ج5 ص93 ، وسنده صحیح جید *
وضاحت:
نماز تکبیر تحریمه سے شروع هوتی هے اور سلام پر ختم هوتی هے اس کے اندر کسی جگه رفع یدین کرنا خواه وه دوسری رکعت ، تیسری ، چوتهی رکعت کے شروع میں هو یا رکوع جاتے اور سر اٹهاتے یا سجدوں میں جاتے اور سر اٹهاتے وقت هو.
ان تمام رفع یدین پر نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم نے ( ناراضگی ) کا اظهار بهی فرمایا اس کو ( جانوروں ) کے فعل سے تشبیه بهی دی .
اس رفع یدین کو ( خلاف سکون ) بهی فرمایا پهر حکم دیا که نماز سکون سے یعنی بغیر رفع یدین کے پڑها کرو.
قرآن پاک میں بهی نماز میں سکون کی تاکید هے.
جیسا که همارے محدث العصر حضرت علامه محمد یوسف بنوری رحمه الله تعالی نے " معارف السنن " میں لکها هے.
" اس میں کوئی شک نهیں که رفع یدین سنداََ و عملاََ تواتر سے ثابت هے "
* معارف السنن: ج2 ص459 ، سعید *
* اب ترک رفع یدین کے دلائل یه هے هم اس وجه سے " رفع یدین " نهیں کرتے هیں *
========================================
بعد میں رفع یدین پر ناراضگی اور ترک کا حکم ثابت هے:
" عن جابر بن سمرته رضی الله عنه قال خرج علینا رسول الله صلی الله علیه وسلم فقال مالی اراکم رافعی ایدیکم کانها اذناب خیل شمس اسکنوا فی الصلوته "
حضرت جابر بن سمرته رضی الله عنه سے روایت هے که جناب رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم همارے پاس ( نماز پڑهنے کی حالت میں ) تشریف لائے، ( اور هم نماز کے اندر رفع یدین کر رهے تهے تو بڑی ناراضگی سے ) فرمایا
لهذا ان کے مسائل امامان حرمین سے جدا هے.
__________________________________________
اب همارے " احناف کا مسلک " کے متعلق جانیئے!
هم کهتے هیں که " رفع یدین غیر اولی " هے:
هم " هم عدم رفع یدین کے قائل نهیں هے " بلکه " ترک رفع یدین کے قائل هیں " اگر همارے اکابرین میں سے کسی نے اس کو عدم لکها تو وه عدم بمعنی عدم اصلی نهیں بلکه عدم بمعنی " ترک " هے.
* ترک رفع یدین و عدم رفع یدین میں فرق *
===========================
ترک کهتے هیں ایک چیز تسلسل سے چل رهی هو پهر اسے موقوف کردیا جائے.
اور عدم کا مطلب یه هوتا هے که سرے سے اس کا وجود هی نهیں.
عدم رفع یدین کا مطلب یه هوگا که " رفع الدین " نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم سے ثابت هی نهیں حالانکه " رفع یدین " نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم سے ثابت هے
وعلیکم السلام
الجواب :
نماز میں رفع الیدین اور ترک رفع الیدین کا مسئلہ:
جو حضرات نماز میں " رفع یدین " کرتے هیں ان کی دلیل:
حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنه راوی هیں که میں نے رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کو نماز پڑهتے دیکها ، آپ صلی الله علیه وآله وسلم تکبیر تحریمه کے وقت رفع یدین کرتے ، اسی طرح رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهنے کے بعد رفع یدین کرتے تهے.
* بخاری شریف: کتاب الاذان، باب رفع الیدین اذاکبر:ج1 ص102 ، قدیمی *
__________________________________________
اب اس مسئلے میں ( همارے اهل سنت والجماعت ) جس میں حنفی ، مالکی ، شافعی اور حنبلی مسلک هیں هم سب نماز میں ( رفع یدین کو نماز میں " ضروری " نهیں سمجهتے هیں )
اور دوسری جانب ( اهل سنت والجماعت سے خارج ) اهل حدیث" غیرمقلدین " حضرات رفع یدین کو نمازمیں ضروری سمجهتےهیں
عجب کردار پایا تھا، فقط بے کار پایا تھا
دیکھائی دو رنگی ہر دم، نرا فنکار پایا تھا
عجب دعوہ نبوت کا، رسالت کا عجب قصہ
بڑا شیطان فطرت تھا عجب حمار پایا تھا
بہت شائق تھا ہیضے کا، دعا کو ہاتھ پھیلائے
چلی تلوار رب کی ہیضے سے بیمار پایا تھا
پکارا اپنے نورے کو، وہ بولا دیکھ کر یہ کچھ
نہیں بچتے ہوئے دیکھا، یہ رب کا وار پایا تھا
خُسر کو جب بلاوا تھا، عجب ہیضے کا دھاوا تھا
پس بستر وہ ٹٹی کا عجب انبار پایا تھا
عجب رنگ و بُو اسکی عجب اسکی کہانی ہے
ہمیں جو بھی نظر آیا پس شلوار پایا تھا
عجب اسکی جوانی تھی، پشیمانی پرانی تھی
نیوگی رسمِ مرزا تھی، نرا بدکار پایا
القلیل کالمعدوم ، قلیل تعداد نہ ہونے کر برابر ہے ۔
تو مسلمانوں کے لۓ ضروری ہے کہ وہ کتاب اللہ کی طرف رجوع کریں اور اس کی تلاوت کرنے کے ساتھ ساتھ جو کچھ ہے اس پر عمل بھی کریں ۔
اللہ تعالی سے ہماری دعا ہے کہ وہ قرآن مجید کو ہمارے دلوں کی بہاراور سینوں کا نوراور ہمارے حزن وغم کی جلاء بناۓ اور غموں کو دور کرنے کا سبب بناۓ آمین یا رب العالمین ۔ وصلی اللہ علی نبینا محمد ۔
واللہ تعالی اعلم .
پھراگر کوئ یہ کہے کہ ہم اس کی توھین تو نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی زينت بناتے اور نہ ہی اس میں غلوکرتے ہیں بلکہ ہم تو اس سے لوگوں کی مجالس کی اندر وعظ و نصیحت کا ارادہ رکھتے ہیں ۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ : جب ہم واقع کو دیکھتے ہیں تو کیا حقیقتا ایسا ہی ہوتا ہے ؟ اور کیا مجلس میں بیٹھے سب لوگ اللہ تعالی کا ذکر کرتے اوریا وہ جب سر اٹھاتے ہیں تو لٹکی ہوئ آیات کی تلاوت کرتے ہیں ؟
توحقیقت اس کے برعکس ہے ، کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کے سروں کے اوپر دیواروں کے ساتھ آیات لٹک رہی ہیں اس کی مخالفت کرتے اور جھوٹ اور غیبت اور مذاق کررہے ہوتے ہیں ، اور برائ کرتے اور بولتے ہیں ، اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ ان میں سے کچھ لوگ ان لٹکی ہوئ آیات سے بالفعل مستفید ہوتے ہیں تو ان کی تعداد اتنی قلیل ہے کہ اس کی اس مسئل میں کچھ بھی تاثیر نہیں کیونکہ قاعدہ ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain