Damadam.pk
Gulab_007's posts | Damadam

Gulab_007's posts:

Gulab_007
 

*سلسلہ احادیث مبارکہ*
*🌴 رمضان المبارک کے تقدُّس کا خیال ضرور رکھئیے اپنے مزاج میں تبدیلی لَا کر بے جا غصہ، گالی دینا، فحش گوئی، بغض کینہ رکھنا، لڑائی جھگڑا کرنا ان سب فضول عادات سے مکمل طور پر اجتناب لازم ھے 🌴*
🌹رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ پاک فرماتا ہے کہ انسان کا ہر نیک عمل خود اسی کے لیے ہے مگر *روزہ کہ وہ خاص میرے لیے ھے * اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ گناہوں کی ایک ڈھال ہے، اگر کوئی روزے سے ہو *تو اسے فحش گوئی نہ کرنی چاہئے اور نہ شور مچائے* اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہئے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ *میں ایک روزہ دار آدمی ہوں*۔
*اس ذات کی قسم* جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے

Gulab_007
 

اللہ کے سوا کوئی داتا نہیں ہے
کسی غیر سے میرا ناتا نہیں ہے
تو جو چاہیے پل بھر میں کردے
اللہ تیرے سامنے کوئی آتا نہیں ہے
محمد ﷺ کی تعلیم پر چلنے والا
کسی غیر کے در پہ جاتا نہیں ہے

آج کی حدیث
G  : آج کی حدیث - 
Gulab_007
 

السلام علیکم ورحمۃاللّه وبرکاتہ
دعا
دعا نفع پہنچاتی ہے ؛
اور ان بلاؤں کو ٹالتی ہے ؛جو نازل ہو چکی ہیں ؛
اور ان بلاؤں کو بھی
جو ابھی نازل نہیں ہوئیں، اس لیے دعاؤں کا اہتمام کرو؛اے زندہ اور قائم رہنے والے ؛ رب!!!!!
ہم تیری نعمتوں کے زوال،
تیری جانب سے ملی ہوئی
عافیت کے خاتمے، تیری اچانک پکڑ اور تیری ہر قسم کی ناراضگی سے
تیری ہی پناہ مانگتے ہیں ؛اے میرے پاک پروردگار! ہمیں ہر روحانی، جسمانی
مصائب سے محفوظ فرما ؛اور اپنا فضل وکرم ہمارے شامل حال فرما ؛
اے اللّه ہم سب کو بیماریوں سےپاک طویل عمر، خوش گوار، صحت مند، مطمئن زندگی،بہترین فراخ رزق، عزت، شہرت، سکون قلب، دنیا وآخرت میں عافیت عطا فرمائے ؛اور ہم سب کو اپنے پسندیدہ بندوں میں شمار فرمائے ؛
آمین یارب العالمین

Gulab_007
 

*رات کو صفائی کرنا*
کو گھر کی صفائی کی کوئی ممانعت حدیث کی رو سے موجود ہے؟
✅✅
جواب
شریعتِ مطہرہ میں صفائی کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے، جس وقت صفائی کی ضرورت محسوس ہو، صفائی کر لینا چاہیے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ غروبِ آفتاب کے بعد جھاڑو نہیں لگانا چاہیے، اس کی کوئی اصل اور سند موجود نہیں ہے، رات کو بھی جھاڑو لگا سکتے ہیں۔
’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’رات کو جھاڑو دینے کا گناہ میں نے کہیں نہیں پڑھا․․․‘‘ فقط واللہ اعلم
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
🌾🌾🌾🌾

Gulab_007
 

۲۳ ) عالم و عابد دونوں بزرگ ہیں لیکن عالم اپنے ساتھ دوسروں کو بھی منزل مقصود تک پہنچاتا ہے، برخلاف اس عابد کے کہ وہ صرف اپنی ہی کامیابی کی دھن میں لگارہتا ہے
{مخزن اخلاق / ۲۵۸}
کتاب: علماء کرام سے دور عوام کے لیے اولیاء اللہ کی وصیتیں

Gulab_007
 

تو اپنی عقل کے ترازو کو توڑ کر ان کے پاس جایا کریں {امام العارفین والاصولین علامہ عبدالوہاب شعرانی رحمہ اللہ }
۲۰ ) علماء و صالحین کو عمدہ کپڑے پہنتے اور لذیذ کھانے غذائیں کھاتے دیکھ کر جلدی سے ان پر اعتراض نہ کیا کریں جب ہم کسی حاکم یا رکنِ سلطنت سے ملیں تو اپنے ہم عصر علماء اور درویشوں کو اس کی نظر میں بڑھائیں۔
{ واسایا انبیاء اولیاء انسیکلوپیڈیا /۲ / ۱۵۰}
۲۱ ) جب ہم مسلمانوں کے علماء میں شمار ہونے لگیں تو اپنے شہر والوں میں سب سے زیادہ کریم اور صاحب ایثار بن جائیں ،کسی وعظ میں جائیں تو واعظ سے پہلے پوری توجہ کے ساتھ اپنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور علماء و انبیاء کا نائب سمجھیں۔
{ وصایا انبیا اولیا انسیکلوپیڈیا / ۲ / ۹۷ }
۲۲ ) علماء کی صحبت اور کتب حکمت کے مطالعے سے مسرت بخش زندگی حاصل ہو سکتی ہے

Gulab_007
 

۱۷ ) خلیفہ عبدالملک بن مروان کی وصیت اپنے لڑکوں کو : عالم بنو کیونکہ مالدار ہوئے تو علم تمہارا جمال ہوگا اور غریب ہوئے تو علم تمہاراے لئے دولت ثابت ہوگا
{العلم والعلماء ۵۴}
۱۸) بیٹا ہر علم میں سے ایک اچھا حصہ حاصل کرو کیونکہ آدمی جس علم سے جاہل ہوتا ہے اس سے بغض رکھتا ہے اور مجھے منظور نہیں کہ تم کسی علم سے بغض رکھو ۔
حضرت یحیٰ ابن خالد برمکی رحمہ اللہ کی وصیت اپنے بیٹے کو {العلم والعلماء ۵۴}
*عالم اور عابد*
۱۹ جو باتیں ہم نے کسی عالم سے سیکھی ہیں ان پر خود عمل کریں اگرچہ وہ عمل نہ کرتا ہو اور اسے برا کبھی نہ سمجھے اور اسے عزت دو جب کوئی شخص کسی مسئلہ میں علماء کی نقل کی مخالفت کرے تو اپنے دوستوں کو اس پر اعتراض میں جلدی کرنے سے روکیں اپنے دوستوں کو تاکید کریں کہ جب کسی عالم یا درویش کے پاس جانا چاہیں
See more....

Gulab_007
 

۱۴ نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے، اس کے سوا باقی تمام کمالات نبوی کے حاملین (علماء کرام) اب تک رہے ہیں، اب بھی موجود ہیں اور قیامت تک رہیں گے، انہی کی صحبت میں اصلاح حال ہوتی ہے ۔
{مرد مؤمن /ص ۱۴۰ ۔ اقوال سلف /ج ۵ /ص ۱۵۲ }
۱۵ تم کہتے ہو ملّا بے ایمان ہے، اگر مولوی سوکھے ٹکڑے کھاکر قرآن کو سینے سے نہ لگاتا تو ہندوستان میں اسلام ختم ہوجاتا ۔
{ حضرت لاجپوری رحمۃ اللہ علیہ }
جاؤ تاریخ کے اوراق دیکھ لو ساری قربانیاں علماء کرام ہی کی ملیں گی ہندوستان موجود ہے تو وہ علماء کرام کے خون سے ہے۔
*علم حاصل کرو*
۱۶ ) بیٹا! علم شریعت سے دور نہ ہٹنا، علم فقہ پڑھ عالم بن {سیدنا حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ ماہنامہ فیضان مدینہ لاہور ص ۲۴}

Gulab_007
 

اور ظالموں کا قلع قمع کرکے ملک کو عدل و انصاف سے آراستہ کریں تاکہ اہل ملک امن و سکون سے زندگی بسر کریں
(شیخ عبد القدوس گنگوہی رحمہ اللہ )
۱۱ علم کے معاملے میں قناعت نہیں کرنی چاہئے، عالم سے ہمیشہ تعلق استوار رکھنا چاہئے۔
(حضرت علی ثانی خواجہ سید علی ہمدانی رحمہ اللہ )
۱۲ میرے بیٹوں : عالم اور فاضل حضرات کے ساتھ صحبت رکھنا، جاہلوں سے پرہیز کرنا عقلمندوی کی نشانی ہے ۔
(سلطان اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ کی وصیت صاحبزادوں کو )
وصایا انبیاء اولیاء انسائیکلوپیڈیا /۲/ ۲۳۰
*علماء نہیں ہوتے تو ہندوستان میں دین ختم ہوجاتا*
۱۳ مسجدیں ہدایت کی منڈیوں ہیں اور علماء رباّنی دکاندار، اور دکان ان کا سینہ ہے، اور قرآن مال ہے، مسلمان خریدار ہے، اور ایمان پونجی ہے، جو خالص نیت سے ایمان خریدنے یہاں آتا ہے خالی ہاتھ نہیں جاتاحضرت مولانا لاہوریؒ

Gulab_007
 

۵ ) *• حضرت حسن بصری رحمه الله* فرماتے ہیں کہ علماء کرام کی مثال ستاروں کی سی ہے جب چمکتے ہیں تو لوگ ان سے راہ پاتے ہیں اور جب چھپ جاتے ہیں تو لوگ حیران و پریشان رہ جاتے ہیں اور عالم کی موت اسلام کا ایسا رخنہ ہے جس کی اصلاح قیامت تک ممکن نہیں( تنبیہ الغافلین )
۶ ) علماء وارثینِ نبی ﷺ ہیں جس نے علماء کو تکلیف دی اس نے اللہ کے نبی ﷺ کو تکلیف دی. (مفہوم حدیث)
۷ ) اگر علماء اللہ تعالیٰ کے دوست نہیں تو عالم بھر میں کوئی اللہ تعالیٰ کا دوست نہیں ۔ (حضرت سید رفاعی رحمہ اللہ / وصایا انبیاء اولیاء /۲ /۱۰۲)
۸ ) اللہ تعالیٰ علیم ہے علماء کو دوست رکھتے ہیں ۔ (امام غزالی / احیاء العلوم)
۱۰ شاہان اسلام اور ان کے اراکین سلطنت کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے ملک میں اسلام کو ترقی دیں، علماء و مشایخ کا احترام کریں اور ان کو دوست رکھیں،

Gulab_007
 

علماء کی توھین کا نتیجہ
۱ ) حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اگر علماء نہ ہوتے تو عوام الناس ڈھور اور ڈنگروں کی سی زندگی گزارتے.
۲ ) *• شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی* نے لکھا ہے کہ اہانت علم اور اہانت اہل علم کفر ہے.
۳ ) *• مولانا گنگوہی* فرماتے ہیں جو علماء ربانین کی حقارت کرتا ہے اس کی قبر کو کھود کر دیکھو اس کا منہ قبلہ سے پھیر دیا جاتا ہے.
۴ ) *• مولانا الیاس صاحب* سے کسی نے شکایت کی کہ حضرت مقامی علماء کام میں ساتھ نہیں دے رہے ہیں
اس پر حضرت نے غصہ سے فرمایا :خبردار آئندہ علماء کی شکایت کرنے سے پرہیز کرو ورنہ تمہارا ایمان پر خاتمہ نہ ہوگا *( مجالس ابرار )

Gulab_007
 

یحییٰ بن خالد نے ہارون الرشید کو کہا تھا ”بادشاہ سلامت آسمانی آفتیں اس وقت تک ختم نہیں ہوتیں جب تک انسان اپنے رب کو راضی نہیں کر لیتا‘ آپ اس آفت کامقابلہ بادشاہ بن کر نہیں کر سکیں گے چنانچہ آپ فقیر بن جائیے۔ اللہ کے حضور گر جائیے‘ اس سے توبہ کیجئے‘ اس سے مدد مانگیے“۔ دنیا کے تمام مسائل اوران کے حل کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہوتا ہے جتنا ماتھے اور جائے نماز میں ہوتا ہے لیکن افسوس ہم اپنے مسائل کے حل کیلئے سات سمندر پار تو جا سکتے ہیں لیکن ماتھے اور جائے نماز کے درمیان موجود چند انچ کا فاصلہ طے نہیں کر سکتے.

Gulab_007
 

تم اس سارے جنگل کا نظام کیسے چلاﺅ گے“شیر نے افسوس سے سر ہلایا اور بولا ”میں زمین کا بادشاہ ہوں‘ اگر زمین سے کوئی آفت تمہارے بچے کی طرف بڑھتی تو میں اسے روک لیتا لیکن یہ آفت آسمان سے اتری تھی اور آسمان کی آفتیں صرف اور صرف آسمان والا روک سکتا ہے“۔یہ کہانی سنانے کے بعد یحییٰ بن خالد نے ہارون الرشید سے عرض کیا ”بادشاہ سلامت قحط کی یہ آفت بھی اگر زمین سے نکلی ہوتی تو آپ اسے روک لیتے‘ یہ آسمان کا عذاب ہے‘ اسے صرف اللہ تعالیٰ روک سکتا ہے چنانچہ آپ اسے رکوانے کیلئے بادشاہ نہ بنیں‘ فقیر بنیں‘ یہ آفت رک جائے گی“۔دنیا میں آفتیں دو قسم کی ہوتی ہیں‘ آسمانی مصیبتیں اور زمینی آفتیں۔ آسمانی آفت سے بچے کیلئے اللہ تعالیٰ کا راضی ہونا ضروری ہوتا ہے جبکہ زمینی آفت سے بچاﺅ کیلئے انسانوں کامتحد ہونا‘ وسائل کا بھر پور استعمال اور حکمرانوں کا اخلاص درکار ہوتا ہے

Gulab_007
 

میری خواہش ہے آپ میرے بچے کی حفاظت اپنے ذمے لے لیں“ شیر نے حامی بھر لی‘ بندریا نے اپنا بچہ شیر کے حوالے کر دیا‘ شیر نے بچہ اپنے کندھے پر بٹھا لیا‘ بندریا سفر پر روانہ ہوگئی‘ اب شیر روزانہ بندر کے بچے کو کندھے پر بٹھاتا اور جنگل میں اپنے روزمرہ کے کام کرتا رہتا۔ ایک دن وہ جنگل میں گھوم رہا تھا کہ اچانک آسمان سے ایک چیل نے ڈائی لگائی‘ شیر کے قریب پہنچی‘ بندریا کا بچہ اٹھایا اور آسمان میں گم ہو گئی‘ شیر جنگل میں بھاگا دوڑا لیکن وہ چیل کو نہ پکڑ سکا“یحییٰ خالد رکا‘ اس نے سانس لیا اور خلیفہ ہارون الرشید سے عرض کیا ”بادشاہ سلامت چند دن بعد بندریا واپس آئی اور شیر سے اپنے بچے کا مطالبہ کر دیا۔ شیر نے شرمندگی سے جواب دیا‘تمہارا بچہ تو چیل لے گئی ہے‘ بندریا کو غصہ آگیا اور اس نے چلا کر کہا ”تم کیسے بادشاہ ہو‘ تم ایک امانت کی حفاظت نہیں کر سکے

Gulab_007
 

یحییٰ بن خالد ہارون الرشید کااستاد بھی تھا۔اس نے بچپن سے بادشاہ کی تربیت کی تھی۔ ہارون الرشید نے یحییٰ خالد سے کہا ”استادمحترم آپ مجھے کوئی ایسی کہانی‘ کوئی ایسی داستان سنائیں جسے سن کر مجھے قرار آ جائے“ یحییٰ بن خالدمسکرایا اور عرض کیا ”بادشاہ سلامت میں نے اللہ کے کسی نبی کی حیات طیبہ میں ایک داستان پڑھی تھی داستان مقدر‘ قسمت اور اللہ کی رضا کی سب سے بڑی اور شاندار تشریح ہے۔ آپ اگر ۔۔اجازت دیں تو میں وہ داستان آپ کے سامنے دہرا دوں“بادشاہ نے بے چینی سے فرمایا”یا استاد فوراً فرمائیے۔ میری جان حلق میں اٹک رہی ہے“ یحییٰ خالد نے عرض کیا ” کسی جنگل میں ایک بندریا سفر کیلئے روانہ ہونے لگی اس کا ایک بچہ تھا‘ وہ بچے کو ساتھ نہیں لے جا سکتی تھی چنانچہ وہ شیر کے پاس گئی اور اس سے عرض کیا جناب آپ جنگل کے بادشاہ ہیں میں سفر پر روانہ ہونے لگی ہوں

Gulab_007
 

*دلچسپ اور سبق آموز واقعہ* خلیفہ ہارون الرشید عباسی خاندان کا پانچواں خلیفہ تھا‘ عباسیوں نے طویل عرصے تک اسلامی دنیا پر حکومت کی لیکن ان میں سے شہرت صرف ہارون الرشید کو نصیب ہوئی۔ ہارون الرشید کے دور میں ایک بار بہت بڑا قحط پڑ گیا۔ اس قحط کے اثرات سمرقند سے لے کر بغداد تک اور کوفہ سے لے کر مراکش تک ظاہر ہونے لگے۔ ہارون الرشید نے اس قحط سے نمٹنے کیلئے تمام تدبیریں آزما لیں‘اس نے غلے کے گودام کھول دئیے‘ ٹیکس معاف کر دئیے‘ پوری سلطنت میں سرکاری لنگر خانے قائم کر دئیے اور تمام امراءاور تاجروں کو متاثرین کی مدد کیلئے موبلائز کر دیا لیکن اس کے باوجود عوام کے حالات ٹھیک نہ ہوئے۔ ایک رات ہارون الرشید شدید ٹینشن میں تھا‘ اسے نیند نہیں آ رہی تھی‘ ٹینشن کے اس عالم میں اس نے اپنے وزیراعظم یحییٰ بن خالد کو طلب کیا‘

Gulab_007
 

ایک فوٹو گرافر نے اپنی دکان کے باہر بورڈ لگایا ہوا تھا۔ جس پر درج ذیل 3 تحریریں لکھی ھوئی تھیں۔
20 روپے میں آپ جیسے ہیں ، ویسی فوٹو بنوائیں۔
30 روپے میں آپ جیسا سوچتے ہیں ، ویسی فوٹو بنوائیں-
اور
50 روپے میں آپ لوگوں کے سامنے جیسے دِکھنا چاہتے ہیں ، ویسی فوٹو بنوائیں!
مرتے وقت اس فوٹو گرافر نے بتایا کہ مجھ سے ہمیشہ لوگوں نے 50 روپے والی فوٹو بنوائی ھے۔۔۔
اس کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ( اکثر ) لوگ پوری زندگی دوسروں کو دکھانے کے لئے گزاردیتے ہیں۔ ساری زندگی دکھاوا کرتے ہیں۔ اور 20 روپے والی زندگی نہیں گزارتے!!
آپ جیسے بھی ھیں ، بہت اچھے ھیں ۔۔۔۔20 روپے والی زندگی گزاریں زیادہ خوش رھیں گے __

Gulab_007
 

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ

Gulab_007
 

في أمان الله استودع اللہ دینکم وامانتکم وخواتیم اعمالکم