*_🌷🌷❣آج کــــی آخـــری اور اہــــم تــریـــن بــــات❣🌷🌷_*
احساس دنیا کا خوبصورت ترین اور طاقتور رشتہ ہے احساس ہی ہے جو انسان کو انسانیت کے رشتے سے جوڑتا ہے اجنبی افراد کو اپنا بناتی ہے احساس جب کسی رشتے میں شامل ہوجائے تب ایسے رشتے موت کی آغوش میں جاکر بھی زندہ رہتے ہیں اور دعاؤں میں شامل رہتے ہیں......!!!!!
*_🌷🌷❣آج کــــی پـانچــویـــں بــــات❣🌷🌷_*
میں کسی سے نفرت اس لئے بھی نہیں کرتا کہ جس سے نفرت ہو وہ دل سے نکل کے دماغ میں آ جاتا ہے اور جو میرے دل سے نکل جائے اسکی دماغ میں آنے کی بھی اوقات ختم ہو جاتی ہے وہ انسان کبھی آپکی قدر نہیں کرے گا جس کے سامنے ہمیشہ آپ جھکو گے.....!!!!
*_🌷🌷❣آج کــــی چوتھــــی بــــات❣🌷🌷_*
اپنی زندگی کے بد ترین دور سے گزرتے وقت ایک اچھی بات جو ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ ان لوگوں کے چہرے بھی پہچان لیتے ہیں جن کا یہ دعوی ہوتا ہے کہ وہ آپ کی پرواہ کرتے ہیں....!!!!
*_🌷🌷❣آج کــــی تیســـری بــــات❣🌷🌷_*
ﺑﮍﮮ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ وہ ﻟﻮﮒ جن کے پاس ﺟﺐ ﮐﮭﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ...!!!!!
*_🌷🌷❣آج کــــی دوســــری بــــات❣🌷🌷_*
امیر حضرات آسائشیں نہ چھوڑیں بس نمائش چھوڑ دیں تو غریبوں کے دکھ کافی کم ہو سکتے ہیں.....!!!!
*_🌷🌷❣آج کــــی پہلــــی بــــات❣🌷🌷_*
صبر بھی رنگ لاتا ہے اور غصہ بھی، مگر صبر کے رنگوں سے زندگی حسین ہوجاتی ہے اور غصے کا رنگ محبت کے ہر رنگ کو نگل جاتا ہے.....!!!!!
- ریاکاری سے- بدگمانی سے- غریب کو کمتر جاننے سے- دل میں کسی کا برا چاہنے سے- کسی کے خلاف دل میں رنجش پالنے سے- ظالم کا ساتھ دینے سے- اہل دین کو ستانے سے- علماء کو حقیر جاننے سے- علمِ دین سے غفلت سے
اور ہر اس بات سے جس سے اللّٰہ تعالیٰ یا اسکی مخلوق کا کوئی حق ضائع ہوتا ہے۔
توبہ کب قبول ہوگی جب ہم اپنا عمل بھی سنواریں گے.... ورنہ توبہ کی قبولیت ممکن نہیں
ہم توبہ کرتے ہیں ہمارے مالک، ہمیں اپنی غلطیوں کا احساس عطا فرما، انکو معاف فرما، اصلاح کی توفیق عطا فرما، اور نیکی پر استقامت عطا فرما، آمین
*توبہ کریں، مگر کس بات سے؟*
شرک سے- نمازوں میں کوتاہی سے- تلاوت میں غفلت سے- سنتوں کو معمولی سمجھنے سے- زکوٰۃ کو بوجھ سمجھنے سے- بے حیائی اور بد نظری سے- بد اخلاقی و بد زبانی سے- والدین کا دل دکھانے سے- ساس سسر کو تنگ کرنے سے- خاندانوں میں فساد مچانے والی باتوں سے- چغل خوری سے- خون کے رشتے ناطے توڑنے سے- اپنے ماتحتوں پر ظلم سے- اپنے ملازمین کو تنگ کرنے سے- شوہر بیوی پر اور بیوی شوہر پر ظلم کرنے سے- اپنی زبان سے دلوں کو زخمی کرنے سے- اپنی طاقت و اختیار سے دوسروں کو دبانے سے- دوسروں کا مال ناجائز کھانے سے- اپنے طنز و مزاح سے دوسروں کو بے عزت کرنے سے- مالِ حرام کھانے سے- جھوٹ کو معمولی گناہ سمجھنے سے- غیبت کو عادت بنانے سے- پڑوسیوں کو ستانے سے- تکبر سے

اور اِس حالت پر پہنچے بغیر اُس کو اختیار کرنا اپنے کو ہلاکت میں ڈالناہے۔
مفسِّرین نے لکھا ہے کہ {کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ} میں آدمی کے ہرجزو پر روزہ فرض کیا گیا ہے، پس زبان کا روزہ جھوٹ وغیرہ سے بچنا ہے، اور کان کا روزہ ناجائز چیزوں کے سننے سے احتراز، آنکھ کا روزہ لَہو ولَعِب کی چیزوں سے اِحتِراز ہے، اور ایسے ہی باقی اَعضاء، حتیٰ کہ نفس کا روزہ حِرص وشہوتوں سے بچنا، دِل کا روزہ حُبِّ دُنیاسے خالی رکھنا، رُوح کا روزہ آخرت کی لَذَّتوں سے بھی اِحتِراز،اور سِرخاص کا روزہ اللہ کے وُجود سے بھی اِحتِراز ہے۔
(مستفاد از فضائل اعمال)
#ماہ_رمضان_فضائل_و_مسائل
7- اللہ کے سوا کسی کی طرف متوجہ نہ ہونا :
خَواص اور مُقرَّبِین کے لیے ایک ساتوِیں چیز کا بھی اِضافہ ہے اور وہ یہ ہے کہ دل کو اللہ کے سِوا کسی چیز کی طرف بھی مُتوجَّہ نہ ہونے دے، حتیٰ کہ روزے کی حالت میں اِس کا خِیال اور تدبیر کہ افطار کے لیے کوئی چیز ہے یا نہیں؟ یہ بھی خطافرماتے ہیں،بعض مَشائخ نے لکھا ہے کہ روزے میں شام کو افطار کے لیے کسی چیز کے حاصل کرنے کا قَصد بھی خَطا ہے، اِس لیے کہ یہ اللہ کے وعدۂ رزق پر اَعتِماد کی کمی ہے، شرحِ اِحیاء میں بعض مشائخ کا قصَّہ لکھا ہے کہ اگر افطار کے وقت سے پہلے کوئی چیز کہیں سے آجاتی تھی تو اُس کو کسی دوسرے کو دے دیتے تھے، مَبادَا دل کو اُس کی طرف اِلتِفات ہوجائے اور توَکُّل میں کسی قِسم کی کمی ہوجائے،مگر یہ اُمُور بڑے لوگوں کے لیے ہیں، ہم لوگوں کو اِن اُمور کی ہَوَس کرنابھی بے محل ہے،
6- روزہ کی قبولیت کے لئے ڈر کا ہونا 
روزے دار کے لیے ضروری ہے کہ روزے کے بعد اِس سے ڈرتا رہے کہ نہ معلوم یہ روزہ قابلِ قَبول ہے یا نہیں؟ اور اِسی طرح ہر عبادت کے ختم پر کہ نہ معلوم کوئی لغزش، جس کی طرف اِلتِفات بھی نہیں ہوتا، ایسی تو نہیں ہوگئی جس کی وجہ سے یہ منہ پر مار دیا جائے۔
روزے دار کو اپنی نِیت کی حِفاظت کے ساتھ اِس سے خائِف بھی رہنا چاہیے، اور دعا بھی کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تَعَالیٰ شَانہ اس کو اپنی رَضا کا سبب بنالیں مگر ساتھ ہی یہ اَمر بھی قابلِ لحاظ ہے کہ اپنے عمل کو قابلِ قبول نہ سمجھنا اَمرِآخَر اور کَریم آقا کے لُطف پر نگاہ اَمرآخر ہے، اُس کے لُطف کے انداز بالکل نِرالے ہیں، مَعصِیت پر بھی کبھی ثواب دے دیتے ہیں تو پھر کوتاہی عَمل کا کیا ذکر؟
یہ چھ چیزیں عام صُلَحاء کے لیے ضروری بتلائی جاتی ہیں۔
کہ درمیان میں کچھ بھی نوش نہیں فرماتے تھے۔
See more .......6&7
جب کچھ وقت بھوک کی بے تابی کا بھی گزرے۔صاحب مَرَاقِی الفَلَاحْ لکھتے ہیں کہ سُحور میں زیادتی نہ کرے جیسا کہ مُتنعِّم لوگوں کی عادت ہے، کہ یہ غرض کو فوت کردیتاہے۔
علاَّمہ طَحطَاوِیؒ اِس کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں کہ غرض کا مقصود یہ ہے کہ بھوک کی تَلخی کچھ محسوس ہو تاکہ زیادتی ثواب کا سبب ہو، اور مَساکِین وفُقَرا پر ترس آسکے، خود آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ حق تَعَالیٰ جَلَّ شَانُہ کو کسی برتن کا بھرنا اِس قدر ناپسند نہیں ہے جتنا کہ پیٹ کا پُر ہونا ناپسند ہے، ایک جگہ ارشاد ہے کہ آدمی کے لیے چند لقمے کافی ہیں جن سے کمر سیدھی رہے،
اگر کوئی شخص بالکل کھانے پر تُل جائے تو اِس سے زیادہ نہیں کہ ایک تہائی پیٹ کھانے کے لیے رکھے، اور ایک تہائی پینے کے لیے، اور ایک تہائی خالی۔ آخر کوئی تو بات تھی کہ آقائے دو جہاں ﷺ کئی کئی روز تک مسلسل لگاتار روزہ رکھتے
اگر آدمی افطار کے وقت اُس مقدار کی تلافی کرلے جو فوت ہوئی‘‘ حقیقتاً ہم لوگ بجُز اِس کے کہ اپنے کھانے کے اَوقات بدل دیتے ہیں، اِس کے سِوا کچھ بھی کمی نہیں کرتے؛ بلکہ اَور زیادتی مختلف اَنواع کی کرجاتے ہیں جو بغیر رمَضان کے مُیسَّر نہیں ہوتی، لوگوں کی عادت کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ عمدہ عمدہ اَشیاء رمَضان کے لیے رکھتے ہیں، اور نفس دِن بھر کے فاقے کے بعد جب اُن پر پڑتا ہے تو خوب زیادہ سَیر ہوکر کھاتا ہے، تو بجائے قوتِ شَہوانِیہ کے ضعیف ہونے کے اَوربھڑک اُٹھتی ہے اور جوش میں آجاتی ہے، اور مقصد کے خلاف ہوجاتا ہے۔
دوسری غرض روزے سے فُقَراکے ساتھ تَشبُّہ اور اُن کے حال پر نظر ہے، وہ بھی جب ہی حاصل ہوسکتی ہے جب سَحرمیں مِعدے کو دودھ جَلَیبی سے اِتنا نہ بھرے کہ شام تک بھوک ہی نہ لگے، فُقرا کے ساتھ مُشابَہت جب ہی ہوسکتی ہے
5- افطار کے وقت حلال مال سے بھی شکم سیر نہ ہونا 
حلال مال سے بھی اِتنا زیادہ نہ کھایا جائے کہ شِکم سَیر ہوجائے، اِس لیے کہ روزہ کی غرض اِس سے فوت ہوجاتی ہے، مقصود روزے سے قوَّتِ شَہوانِیَّہ اور بہِیمِیّہ کا کم کرنا ہے اور قوَّتِ نورانِیہ اور مَلکِیَّہ کا بڑھانا ہے، گیارہ مہینے تک بہت کچھ کھایا ہے، اگر ایک مہینہ اِس میں کچھ کمی ہوجائے گی تو کیا جان نکل جاتی ہے؟ مگر ہم لوگوں کا حال ہے کہ افطار کے وقت تَلافی مَافَات میں اور سحر کے وقت حِفظِ مَاتَقدَّم میں اِتنی زیادہ مقدار کھالیتے ہیں کہ بغیر رمَضان کے اوربغیر روزے کی حالت کے اِتنی مقدار کھانے کی نَوبَت بھی نہیں آتی، رمَضان المبارک بھی ہم لوگوں کے لیے خَوَید کا کام دیتا ہے، علاَّمہ غَزالیؒ لکھتے ہیں کہ’’روزے کی غرض یعنی قَہرِ ابلیس اور شہوتِ نَفسانِیَّہ کا توڑنا کیسے حاصل ہوسکتا ہے،
*3- کان کی حفاظت 
ہرمَکروہ چیز سے، جس کا کہنا اور زبان سے نکالنا ناجائز ہے،اُس کی طرف کان لگانا اور سننا بھی ناجائز ہے، حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ غیبت کا کرنے والا اور سننے والا دونوں گناہ میں شریک ہیں۔
*4- باقی اَعضائے بدن کی حفاظت 
یعنی ہاتھ کا ناجائز چیز کے پکڑنے سے، پاؤں کا ناجائز چیز کی طرف چلنے سے روکنا اور اِسی طرح باقی اعضائے بدن کا، اِسی طرح پیٹ کا اِفطار کے وقت مُشتَبہ چیز سے محفوظ رکھنا جو شخص روزہ رکھ کر حرام مال سے اِفطار کرتا ہے، اُس کا حال اُس شخص کا سا ہے کہ کسی مرض کے لیے دوا کرتا ہے،مگر اُس میں تھوڑا سا سَنکھیا بھی مِلالیتا ہے، کہ اُس مرض کے لیے وہ دوا مُفِید ہوجائے گی، مگر یہ زہر ساتھ ہی ہلاک بھی کردے گا۔
*2- زبان کی حفاظت 
جھوٹ، چُغل خوری، لَغو بکواس، غیبت، بَدگوئی، بَدکلامی، جھگڑا وغیرہ سب چیزیں اِس میں داخل ہیں، بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ روزہ آدمی کے لیے ڈھال ہے، اِس لیے روزے دار کو چاہیے کہ زبان سے کوئی فَحش بات یا جَہالت کی بات مثلاً تَمسخُر، جھگڑا وغیرہ نہ کرے، اگر کوئی دوسرا جھگڑنے لگے تو کہہ دے کہ میرا روزہ ہے یعنی دوسرے کی ابتدا کرنے پر بھی اُس سے نہ اُلجھے، اگر وہ سمجھنے والا ہوتو اُس سے کہہ دے کہ میرا روزہ ہے، اور اگر وہ بے وقوف ناسمجھ ہو تو اپنے دل کو سمجھا دے کہ تیرا روزہ ہے، تجھے ایسی لَغو بات کا جواب دینامناسب نہیں؛ بِالخصوص غیبت اورجھوٹ سے تو بہت ہی اِحتراز ضروری ہے کہ بعض عُلَما کے نزدیک اِس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن، وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن ۔۔۔۔۔۔ اَمَّابَعد !
*روزہ کے سات اہم آداب 
مشائخ نے روزے کے آداب میں چھ اُمور تحریر فرمائے ہیں، کہ روزے دار کو اِن کا اہتمام ضروری ہے:
1- نگاہ کی حفاظت 
کسی بے محل جگہ پر نگاہ نہ پڑے، حتیٰ کہ کہتے ہیں کہ بیوی پر بھی شَہوَت کی نگاہ نہ پڑے، پھر اجنبی کا کیاذکر! اور اِسی طرح کسی لَہو ولَعِب وغیرہ ناجائز جگہ نہ پڑے، حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ نگاہ اِبلیس کے تِیروں میں سے ایک تِیر ہے، جوشخص اُس سے اللہ کے خوف کی وجہ سے بچ رہے، حق تَعَالیٰ شَانُہ اُس کو ایسا نورِ ایمانی نصیب فرماتے ہیں جس کی حَلاوَت اور لَذَّت قَلب میں محسوس کرتا ہے

submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain