💙💜💙💜💙💜💙💜💙💜💙
❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄
⛲ *بسم الله الرحمن الرحيم* ⛲
🇵🇰 *آج کا کیلینڈر* 🌤
🔖 *02 شعبان 1441ھ* 💎
🔖 *27 مارچ 2020ء* 💎
🔖 *14 چیت 2077ب* 💎
🌄 *بروز جمعة المبارك FRIDAY* 🌅
🍎 *صبر کا پھل!*
🔹 *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے اس مومن بندے کا جس کی، میں کوئی عزیز چیز دنیا سے اٹھا لوں اور وہ اس پر ثواب کی نیت سے صبر کر لے، تو اس کا بدلہ میرے یہاں جنت کے سوا اور کچھ نہیں۔“*🔹
📗«صحیح بخاری -6424»
❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄
💜💙💜💙💜💙💜💙💜💙💜
🌺Ⓜ🌹
وہ صحتمند نہ ہوں ۔ حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے ، گالیاں زرداری کو نکالیں یا نواز کو یا عمران کو ، اس سے فرق نہیں پڑے گا ۔ امریکہ جیسی بڑی اکانومی تک کے ہاتھ کھڑے ہوچکے ہیں ۔ یہ جنگ ہم نے خود لڑنی ہے ۔ وبا انسانیت کا امتحان ہے ، اپنے وسائل سے دوسروں کو بھی “نقل لگوا کر” اس امتحان میں ایسے ہی پاس کروائیں جیسے قابل دوست ، کمرہ امتحان میں کمزور دوست کو کروانا ہے ۔*
*دعا ہے کہ اس امتحان میں ہم سب پاس ہوں اور انسانیت کی جیت ہو ، ناں کہ کرونا سے لڑتے لڑتے انسانیت ہار جائے ۔*
💜💜 ✒ 💜💜💜
_____
پہنچے تھے اور اس ملکہ نے کہا تھا 
*Then let them eat brioches*
*کہ روٹی نہیں ہے تو انڈہ پراٹھا کھاؤ ( کہاوت میں مشہور کیک ہے لیکن اصل میں brioche مکھن اور انڈے سے بنی روٹی ہوتی تھی ) اور پھر گلیوں میں عدالتیں لگیں ، جن کے گال بھرے ہوئے تھے ، انہیں خوش حال جان کر انکی گردنیں اڑا دی گئیں ۔ ایسے ہی ہمارے ملک کے یہ بھوکے مزدور ، امیروں کے گودام لوٹیں گے ، انکے گھروں میں آکر ذخیرہ اندوز کیا گیا سامان چھین لیں گے ۔ اور پھر وہ خونی انقلاب آئے گا ، جس کی دھائیوں سے پیشن گوئی کی جارہی ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ انکا خیال رکھا جائے ، دو وقت کی روٹی کسی کو دینے سے کسی کی دولت میں کمی نہیں آتی ۔ جو لوگ وائرس کا شکار ہوکر گھر میں محدود ہیں ، وہ آپکے لئے باعث رحمت ہیں ، ورنہ باہر آکر سب میں پھیلا سکتے ہیں ۔ انکے گھر میں کھانا اور دوائیں پہنچائیں جب تک
____
💜💜 ✒ 💜💜💜
*غریبوں کی مدد کرو وہ ثمہاری مدد کرے گا*
💜💜 ✒ 💜💜💜
*ایشیا سے لیکر یورپ میں طاعون اس لئے پھیلا کہ چوہوں اور مکھیوں کا سامنا غریبوں کو تھا ، امیروں کو نہیں ۔ غریب مرتے رہے ، امیر دیکھتے رہے اور جب امیر لپیٹے میں آئے ، تو انھوں نے ہاتھ پیر مارے ، مگر دیر ہوچکی تھی ۔ یہی حال کرونا کا ہے ۔ ایک سیٹھ سارے سیناٹائزر اور صابن خرید سکتا ہے ، لیکن اگر اسکا مالی اور ڈرائیور ان چیزوں سے محروم رہا ، تو وہ مالی ، وائرس سیٹھ کے گھر پہنچا دے گا ۔ دوسرا مسئلہ ہوگا بھوک ، جو مزدور روز کماتا اور کھاتا ہے ، بازار اور کاروبار بند ہونے سے وہ اور اسکے بچے بھوکے مریں گے تو کیا وہ انھیں مرتا دیکھے گا ؟*
*ہرگز نہیں ! یہ مزدور ایسے ہی اکھٹے ہوکر امیروں کے گوداموں تک پہنچیں گے ، جیسے انقلاب فرانس میں ملکہ میری اینٹونئٹ کے پاس
___
💜❤ ✒ 💙💛💚
*اپنا خیال رکھیئے گا ۔ ۔ ۔ !!*
💜❤ ✒ 💙💛💚
*یہ وائرس انسانی جسم یا کسی بھی جاندار کے جسم سے باہر 48 سے 72 گھنٹے تک زندہ رہ سکتا ہے ۔ مطلب اگر کوئی کھلی ہوا میں کھانستا ہے یا چھینکتا ہے تو اس کے منہ اور ناک سے گرنے والا وائرس اگلے تین دن تک زمین یا کسی بھی تہہ پہ موجود رہتا ہے اور اس کے بعد ختم ہو جاتا ہے ۔*
*پس اگر دو ہفتوں تک سارے لوگ اپنے اپنے گھروں تک محدود رہیں تو اس وائرس کو کوئی ہوسٹ ( انسانی جسم ) نہیں ملےگا اور وائرس اپنے آپ ختم ہوگا ۔۔۔*
*لیکن اس کے برعکس اگر سارے لوگ باہر گھومتے ہیں تو وائرس کو ایک سے ایک نیا ہوسٹ ( انسانی جسم ) ملتا رہے گا اور اس کی زندگی بڑھتی چلی جائے گی ۔*
*اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ وبا نہ پھیلے تو گھر پر رہیے ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے لئے دوسروں کیلئے ۔*
💜❤ ✒ 💙💛💚
____

جواز کے لیے پیش کی جارہی ہیں ان سے بھی ان مروّجہ اذانوں کی تائید نہیں ہورہی، بلکہ یوں کہیے کہ ان روایات کا مروجہ اذانوں سے کوئی تعلق ہی ظاہر نہیں ہوتا۔
🌹 *خلاصہ
ماقبل کی تفصیل سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ وبا کے موقع پر اذان دینا سنت یا مستحب نہیں اور نہ ہی کوئی شرعی حکم ہے، اس لیے اس کو سنت یا مستحب سمجھنا ہرگز درست نہیں، بلکہ بدعت ہے، البتہ بعض فتاویٰ میں شرعی حدود میں رہتے ہوئے کچھ شرائط کے ساتھ بطورِ علاج اذان دینے کو مباح یعنی جائز قرار دیا گیا ہے، لیکن چوں کہ عوام ان شرعی حدو اور شرائط کی رعایت نہیں کرتے اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ وبا کے موقع پر اذان دینے سے اجتناب کیا جائے۔ باقی تفصیل ماقبل میں بیان ہوچکی۔
*✍🏻 مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم*
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
29 رجب المرجّب1441ھ/ 25 مارچ 2020
متعلق استدلال نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ ایسی بعض روایات سے متعلق ماقبل میں تفصیل بیان ہوچکی۔
3⃣ جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے کہ: جب کسی بستی میں اذان دی جائے تو اللہ تعالیٰ اس دن عذاب سے اس کی حفاظت فرماتا ہے، تو اگر اس کو قابلِ استدلال تسلیم کر بھی لیا جائے تب بھی اس میں نہ تو وبا کا ذکر ہے اور نہ ہی مروجہ اجتماعی اذانوں کا ذکر ہے، بلکہ اس سے نمازوں کی عام اذان مراد ہے کہ یہ اذان کی فضیلت ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ عذاب سے حفاظت فرماتا ہے۔ اس لیے اس پنج وقتہ نمازوں کی اذان مراد ہے۔
4⃣ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ وبا کے موقع پر مروجہ اذانوں کی ترغیب دیتے ہوئے جس قدر اضافی باتوں کی ترغیب دی جارہی ہے کہ یوں اذان دی جائے اور یوں کیا جائے وغیرہ یا ان کا اہتمام کیا جارہا ہے ان کا تو کسی بھی روایت میں ذکر نہیں۔ اس لیے جو روایات اس اذان کے
فرمائے ہیں] ان میں بھی مذکورہ مواقع میں اذان دینے کا ذکر نہیں، لہٰذا سنت یا مستحب سمجھ کر مذکورہ مواقع میں اذان دینا درست نہیں، اور اگر دفعِ مصیبت کے لیے بطورِ علاج مذکورہ، مواقع میں اذان دی جائے تو فی نفسہ اگرچہ مباح ہے لیکن چوں کہ عوام الناس اس کی حدود وقیود کا لحاظ نہیں رکھتے اور اسے شریعت کا حکم سمجھتے ہیں اس وجہ سے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے اذان دینے سے منع فرمایا ہے۔ (مؤرخہ: 5/6/1422ھ)
📿 *مروّجہ اذانوں کے لیے پیش کی جانے والی روایات کی حقیقت
بہت سے حضرات وبا کے موقع پر دی جانے والی مروجہ اذان کے ثبوت کےلیے بعض روایات سے استدلال کرتے ہیں،واضح رہے کہ ان روایات کی حقیقت یہ ہے کہ:
1⃣ یا تو وہ نہایت ہی کمزور ہیں کہ ان سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔
2⃣ یا ان کا تعلق وبا کے ساتھ ہے ہی نہیں، اس لیے ان سے وبا کے موقع پر اذان دینے سے
وأیضًا فیہ تھویل للناس فإنھم إذا سمعوا الأذانات بکثرۃ یفزعون ویتوھمون أن الوباء شدیدۃ فی البلد حتیٰ سقط حمل بعض الحوامل بذلک، قالہ الشیخ، لا یقال: إن لم یعتقد سنیۃ ھذا الأذان مستدلا بالحدیث المذکور؛ لکونہ محمولا علی ظھور الجن بل إذن سنیۃ الرقیۃ ینبغی أن یجوز، قلنا: أن العوام تعتقدہ من الأمور الشرعیۃ الدینیۃ کما ھو شاھد من أحوالھم، ومن لم یعرف حال أھل زمانہ فھو جاھل فافھم، حررہ الأحقر ظفر أحمد عفا عنہ ۲۱ شوال ۴۴ھ، نعم التحقیق بقبول حقیق، کتبہ اشرف علی، ۲۳ شوال ۴۴ھ ۔ (امداد الاحکام: 1/420)
8️⃣ جامعہ دار العلوم کراچی کا فتویٰ:
قدرتی آفات مثلًا شدید بارش یا زلزلہ وغیرہ کے وقت اذان دینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں، نیز فقہائے کرام رحمہم اللہ [نے نماز کے علاوہ اذان دینے کے جو مواقع ذکر
الغیلان أی عند تمرد الجن؛ لخبر صحیح فیہ. أقول: ولا بعد فیہ عندنا اھ أی لأن ما صح فیہ الخبر بلا معارض فھو مذھب للمجتھد وإن لم ینص علیہ اھ (ص ۳۹۹)
بعض علماء نے تغولِ غیلان کی حدیث سے طاعون کے لیے اذان کو مشروع کہا ہے، مگر ہم کو اس میں کلام ہے، ہمارے نزدیک تغولِ غیلان سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسی صورت نمودار ہو جس میں جِنّات کا سامنے موجود ہونا اور غلبہ وتمرّد کرنا محسوس ہو، جیسا کہ رات کو سفرکرتے ہوئے بعض دفعہ جنگلوں میں جِنات کی آوازیں یا ڈراؤنی شکلیں نظر آیا کرتی ہیں، اس وقت اذان دینا مشروع ہے، اور طاعون میں جنات کا وجود اور غلبہ محسوس نہیں ہوتا، بلکہ محض سمعًا ونقلاً معلوم ہوا ہے، واللہ اعلم، قلت: ویوید قول الشیخ فی القاموس ومجمع البحار من تفسیر التغول بالتلون بصور شتی، وأیضا فإن فی الأذان فی ھذہ الحالۃ تشویشًا وتغلیطًا،
تو مجتہد کا معتبر ہے، نہ ہم لوگوں کا، اور علاوہ بریں قیاس مع الفارق ہے، امراضِ وبائیہ میں تغولِ غیلان کو محسوس نہیں کیا جاتا۔
(فتاوی دارالعلوم دیوبند:2/ 73 باب الاذان)
7️⃣ شیخ الاسلام علامہ ظفر احمد عثمانی صاحب رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
▪ *سوال
مرض ِطاعون میں جو اکثر آدمی مسجدوں میں اذانیں دیتے ہیں، یہ شرع کے خلاف ہے یا موافق ہے؟ ایک مولوی صاحب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کے بابت فرماتے ہیں کہ ان کا تو فتویٰ ہے اذانوں کا، کیایہ بات صحیح ہے اور ان کا فتویٰ ہے؟ جواب فرمادیں۔
▪ *الجواب
قال الشامی عن حاشیۃ البحر للخیر الرملی: رأیت فی کتب الشافعیۃ أنہ قد یسن الأذان لغیرالصلوٰۃ کما فی أذان المولود والمھموم والمصروع والغضبان ومن ساء خلقہ من إنسان أو بھیمۃ وعند مزدحم الجیش وعند الحریق وعند تغول

صاحب رحمہ اللہ ایک اور سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
▪ *سوال نمبر 111
وبا اور قحط اور خشک سالی طاعون وغیرہ کے موقعہ میں اذان بعد نماز کہنا شرعًا درست ہے یا نہ، اگر جائز ہے تو شرعی دلیل کیا ہے؟ اور اگر ممنوع ہے تو ہم نے جو سنا ہے کہ وبا میں غولِ بیابانی اور جنات کی کثرت ہوتی ہے اور جنات کے دفع کے لیے جو حدیث: إِذَا تَغَیَّلَتِ الْغَیْلَانُ نَادَی بِالأذَانِ اور حدیث وإِذا رأی الحریق فلیطفئہ بالتکبیر سے سندِ جواز پکڑنا صحیح ہے یا نہیں؟
▪ *جواب
وبا اور قحط میں اذان کہنا منقول نہیں ہے اور تغول ِغیلان کی وقت جو اذان مستحب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر طور سے غیلانِ جِنّ محسوس ہو مثلًا جنگل وغیرہ میں کسی کو جِنّات کا احساس ہو اس وقت اذان کہنے کا حکم ہے۔ امراضِ وبائیہ میں یہ وارد نہیں ہے، نہ اس کو اس پر قیاس کر سکتے ہیں کہ قیاس ِاول
اذان حیّ علی الصلوٰۃ وحی علی الفلاح پر مشتمل ہے، اس لیے غیر صلوٰۃ کے لیے اذان کہنا غیرِ قیاسی حکم ہے۔ قیاس سے ایسے حکم کا تعدیہ نہیں، اس لیے وہ دلیلِ شرعی کوئی نصّ ہونا چاہیے، محض قیاس کافی نہیں اور طاعون میں کوئی نص موجود نہیں۔ الغرض نفس الامر میں یہ حکم غیرِ قیاسی ہے، پس اس قیاس سے زلزلے وغیرہ کے وقت بھی اذان کی گنجایش نہیں ہوسکتی۔ (خلاصہ کلام یہ کہ) اس بات میں حدیثِ تغیّل سے استدلال کرنا درست نہیں، اور یہ اذان (جو طاعون یا زلزلہ کے وقت دی جائے) اِحداث فی الدین (یعنی بدعت) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طاعونِ عمو اس میں (جو صحابہ ؓ کے زمانہ میں ہوا) شدتِ احتیاط کے باوجود کسی صحابی سے منقول نہیں کہ طاعون کے لیے اذان کا حکم دیا ہو یا خود عمل کیا ہو۔ (اشرف العملیات)
حضرت اقدس مفتی عزیز الرحمٰن صاحب رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
کا جو حوالہ دیا گیا ہے وہ یہی حدیث ہے۔ اور دونوں حدیثیں مقید ہیں: ‘‘إِذَا تَغَیَّلَتْ’’ ‘‘وَإِذَا سَمِعْتَ صَوْتًا’’ کے ساتھ، اور جو حکم مقید ہوتا ہے کسی قید کے ساتھ اس میں قید نہ پائے جانے کی صورت میں وہ حکم اپنے وجود میں مستقل دلیل کا محتاج ہوتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ طاعون میں دونوں قیدیں نہیں پائی جاتیں، کیوں کہ نہ اس میں شیطان کا تشکل وتمثل (یعنی صورتیں نمودار ہوتی ہیں) اور نہ ان کی آواز سنائی دیتی ہے، صرف کوئی باطنی اثر ہے (جس کی وجہ سے طاعون ہوتا ہے)۔ پس جب اس میں دونوں قیدیں نہیں پائی گئیں تو مذکورہ دونوں حدیثوں سے اس میں اذان کا حکم بھی ثابت نہ ہوگا۔ اور دوسری شرعی دلیل کی حاجت ہوگی (اور دوسری کوئی ایسی دلیل ہے نہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ طاعون یا اس جیسی وبا کے وقت اذان پکاری جائے)۔ اور قیاس بھی نہیں کرسکتے، کیوں کہ
واسطے اذان دینا جائز ہے یا ناجائز؟ اور جو لوگ استدلال میں ‘‘حصنِ حصین’’ کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں:إِذَا تَغَیَّلَتِ الْغَیْلَانُ نَادَی بِالأذَانِ۔ان کا یہ استدلال درست ہے یا نہیں؟ اور اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟ اور ایسے ہی یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ شیطان اذان سے اس قدر دور بھاگتا جاتا ہے جیسے مدینہ کے فاصلہ پر ایک مقام کا نام ہے، اور طاعون اثرِ شیطان سے ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟
▪ *الجواب
اس باب میں دو حدیثیں معروف ہیں، ایک ‘‘حصن حصین’’ کی مرفوع حدیث :إِذَا تَغَیَّلَتِ الْغَیْلَانُ نَادَی بِالأذَانِ۔ دوسری حدیث صحیح مسلم کی حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا مروی ہے: إِذَا سَمِعْتَ صَوْتًا فَنَادِ بِالصَّلَاۃِ؛ فَإِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ: إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلَاۃِ وَلَّی الشَّیْطَانُ وَلَہ حُصَاصٌ۔اور حصنِ حصین میں مسلم کا جو
جو نماز کے لیے کہی جاتی ہے؟ اگر کہا جائے کہ وہ صرف پانچ دفعہ ہوتی ہے، تو اس وقت شیاطین ہٹ جاتے ہیں، مگر پھرآجاتے ہیں، تو یہ تو اس اذان میں بھی ہے کہ جتنی دیر تک اذان کہی جائے اتنی دیر ہٹ جائیں گے اور پھر آجائیں گے، اور نماز کی اذان سے تو رات دن میں پانچ دفعہ بھی بھاگتے ہیں، یہ تو صرف ایک ہی دفعہ ہوتی ہے، ذرا اوپر بھاگ جائیں گے اور اس کے بعد تمام وقت رہیں گے، تو شیاطین کے بھاگنے کی ترکیب صرف یہ ہوسکتی ہے کہ ہر وقت اذان کہتے رہو، پھر صرف ایک وقت کیوں کہتے ہو؟؟ آج کل بعض علماء کو بھی اس کے بدعت ہونے میں شبہ پڑگیا ہے، حالاں کہ یہ یقینًا بدعت ہے، اور اس کی کچھ بھی اصلیت نہیں، یہ صرف اختراع ہے۔ (اشرف العملیات)
4⃣ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ایک اور سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
▪ *سوال
دفعِ وبا (مثلًا طاعون)کے
احادیث سے ثابت نہیں، نہ اس وقت اذانیں کہنا کسی حدیث میں وارد ہوا ہے، اس لیے اذان کو یا جماعت کو ان موقعوں میں ثواب یا مسنون یا مستحب سمجھنا خلافِ واقع ہے۔ (فتاویٰ رشیدیہ، کتاب العلم)
2⃣ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
بعض کو طاعون میں اذان دیتے ہوئے دیکھا گیا ہے، اس کی بھی کوئی اصل نہیں۔ (اغلاط العوام صفحہ ۳۴)
3⃣ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
▪ *سوال
بیماری کے موسم میں جو اذانیں کہی جاتی ہیں ان کا کیا حکم ہے؟
▪ *فرمایا
بدعت ہے، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وبا جِنّات کے اثر سے ہوتی ہے اور اذان سے جنات بھی بھاگتے ہیں، اس واسطے اس اذان میں کیا حرج ہے؟ ایک شخص کو میں نے جواب دیا کہ اذان شیطان کے بھگانے کے لیے ہے، مگر کیا وہ اذان اس کے لیے کافی نہیں
دینے سے اجتناب کیا جائے جیسا کہ آگے جامعہ دار العلوم کراچی کے فتوے میں اس کا ذکر آرہا ہے، اور اس اذان کی جگہ اُن اعمال کا سہارا لیا جائے جو کہ قرآن وسنت سے ثابت ہیں۔ شیخ الاسلام علامہ ظفر احمد عثمانی صاحب رحمہ اللہ اسی مسئلہ میں عوام کی اسی بے احتیاطی کی طرف یوں اشارہ فرماتے ہیں:
لا یقال: إن لم یعتقد سنیۃ ھذا الأذان مستدلا بالحدیث المذکور؛ لکونہ محمولا علی ظھور الجن بل إذن سنیۃ الرقیۃ ینبغی أن یجوز، قلنا: أن العوام تعتقدہ من الأمور الشرعیۃ الدینیۃ کما ھو شاھد من أحوالھم، ومن لم یعرف حال أھل زمانہ فھو جاھل فافھم۔ (امداد الاحکام: 1/420)
🌼 *فتاویٰ جات*
*ذیل میں اس حوالے سے چند فتاویٰ ذکر کیے جاتے ہیں
1⃣ فقیہ النفس حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
طاعون، وبا وغیرہ امراض کے شیوع کے وقت کوئی خاص نماز
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain