تو کس کی مجال کہ وہ اللہ کی تلوار کو میدان میں توڑ سکے !!
الصادق صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر ہے !! آپ کو زیر کرنا نا ممکن تھا ۔ آپ تو بطور مہمان عزرائیل کے ہمراہ جائیں گے !!
بستر مرگ پر دراز جنرل ، مسکراتے چہرے پر دائمی سکون لیے آنکھیں موندھ لیتا ہے !!
بیٹیاں کتنی ذہین ہوتی ہیں !! کتنا دور تک دیکھتی ہیں !! بیٹیوں کے پاس کیسے کیسے مرہم ہوتے ہیں کہ گہرے ترین گھاؤ بھی پل بھر میں بھر جاتے ہیں !
ایسا ہوتا ہے جنرل ! ❤️
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
! کیا موت کا خوف ہے ؟؟ ""
بوڑھا ضعیف شخص یک دم مسکرانے لگتا ہے !!
نہیں بیٹا !! کیا تُو نے میرے جسم پر کوئی ایسا مقام دیکھا جہاں زخم کا کوئی نشان نہ ہو !! ؟؟ ""
نہیں بابا جان !! آپ کا تو پورا بدن چھلنی ہے !!
بیٹی نے جواب دیا !
" میں اس لیے رو رہا ہوں کہ گھوڑے کی پیٹھ میرا گھر تھا اور تلوار میرا زیور لیکن موت میری طرف ایسے بڑھ رہی ہے جیسے کسی بوڑھے اُونٹ کی طرف بڑھتی ہے "
بابا جان !! آپ جانتے ہیں ناں !! کہ آپ کو سیف اللّٰہ ( اللہ کی تلوار ) کا لقب کس نے دیا تھا ؟؟
بیٹی سوال کرتی ہے ۔
بوڑھے کی آنکھوں میں چمک اور خوشی کے آنسو لوٹ آتے ہیں ، اُس کے چہرے سے اُداسی پل بھر میں بوریا لپیٹے رخصت ہو جاتی ہے !؟
ہاں جانتا ہوں بیٹا !!
ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی آنکھیں اسی رومی مہم کے دوران تیر لگنے سے شہید ہوئیں ۔ جنگ یرموک کے دوران تیسرے یا چوتھے دن جب مسلم لشکر پسپائی پر مائل تھا تو مجاہدین پسپا ہوتے ہوتے خواتین کے خیموں تک پہنچ گئے ۔ فلک نے عجیب منظر دیکھا کہ ایک عورت ایک لکڑی ہاتھ میں لیے ایک مسلمان سپاہی کو مارنے دوڑ رہی ہے اور بہ آواز بلند ڈانٹ رہی ہے کہ جب کافر تھے تو بہت بہادر بنتے تھے اج مسلمان ہو کر بزدلی دکھا رہے ہو !! اُس عورت کا نام ہندہ رضی اللہ عنہا تھا اور جس سپاہی کو وہ غیرت دلا رہی تھی اُسے تاریخ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے ۔ یرموک میں ابوجہل کا پوتا اور بیٹا اسلام کے لیے قربان ہوا ۔
منظر بدلتا ہے !! ایک بوڑھا ضعیف شخص بستر مرگ پر بے چینی سے کروٹیں لیتے رو رہا ہے ۔
دیکھ بھال پر مستعد اور مامور بیٹی سوال کرتی ہے " بابا جان !
آسمان کا فرق تھا ۔
حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا انداز شاہانہ اور رئیسانہ تھا جبکہ عمر رضی اللہ عنہ فقیرانہ بود و باش رکھتے تھے۔
حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ایک خلا تھا ۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی دور کی صحبت سے محروم رہے اور جب دامن رسالت سے رشتہ جوڑا تو گھوڑے کی پیٹھ ہی اُن کا گھر قرار پائی ۔ ایک بجلی تھی کہ کوئی رعد !! جس طرف گرتی یا کڑکتا کفر کے اندھیرے چھٹتے ہی چلے جاتے !!اُن کی معزولی بھی دراصل حکم ربی تھا ۔
یرموک شاید اُن کی اخری جنگوں میں سے تھی ۔ جنگ یرموک بہت سے نابغوں کے لیے ایک عظیم پیغام رکھتی ہے کہ دین اسلام میں ماضی کو گھسیٹ کر حال اور مستقبل پر نہیں تھوپا جا سکتا ۔ آپ کو شاید حیرت ہو کہ مدینہ طیبہ سے ہزاروں کوس دور لڑی گئی اس جنگ میں ابو سفیان رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ ہندہ رضی اللہ عنہا کے ہمراہ شریک تھے۔
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور اّن کا کمانڈو دستہ تھا ۔ اسی جنگ میں ابوجہل کا بیٹا عکرمہ رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے عبدالرحمان کے ہمراہ شہید ہوئے ۔ عربوں میں قبائلی عصبیت منفی مثبت انداز میں ہمیشہ موجود رہی ۔
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ایک زانو پر عکرمہ کا سر تھا اور دوسرے زانو پر عبد الرحمن کا سر تھا اور اس عالم میں خالد رضی اللہ عنہ نے آواز لگائی کہ جائے !! کوئی جا کر عمر رضی اللہ عنہ کو بتائے کہ بنو مخزوم نے اسلام پر کیا نچھاور کیا ہے ؟؟
تاریخ اسلام میں علماء کی طرف سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں معزولی کی درجنوں تاویلات کی جاتی ہیں ۔
یہ ذاتی چپقلش نہ تھی ۔ یہ حسد کا جذبہ نہیں تھا ۔ یہ محض ڈسپلن کا معاملہ تھا ۔
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے طرز زندگی میں زمین آسمان
کو جو نقصان پہنچا ، وجہ صرف خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے ۔ دوسرے پہلو کو فی الوقت رہنے دیں کہ مسلمانوں نے موقع کیسے دیا ۔ یہاں مقصد موقع سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت کا بیان یے ۔
خالد بن ولید اور عکرمہ رضی اللہ عنہما دونوں ہی السابقون الاولون میں سے نہ تھے ۔
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی طبیعت شہزادوں والی تھی ۔ رئیس تھے اور خرچ بھی کھل کے کرتے تھے ۔ کبھی کوئی جنگ ہاری نہیں تو مال غنیمت سے بھی وافر حصہ پایا ۔
اسلامی تاریخ میں سے عمر فاروق اور خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہما کو منفی کریں تو اسلام واپس حجاز کے مضافات تک نظر آنے لگے گا ۔
دور صدیقی و فاروقی میں روم و فارس زمیں بوس ہوئے !
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے آن ڈیوٹی آخری ایام روم کے محاذ پر گزرے ۔ تاریخ اسلام کی خون ریز ترین جنگ یرموک ہے جس کی فتح میں ریڑھ کی ہڈی
بیٹی جس نے جنرل باپ کا زخم لمحوں میں مندمل کر دیا (ایک رُلا دینے والی تحریر)
عکرمہ رضی اللہ عنہ اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ آپس میں کزن تھے ۔ قبیلہ قریش کی ایک شاخ بنو مخزوم سے تعلق تھا ۔ دونوں کا نام اسلامی تاریخ کے دس عظیم ترین جرنیلوں میں درج ہے ۔ غزوہ خندق کے دوران یہ دونوں مسلمان نہیں تھے لیکن بہادری کا یہ عالم تھا کہ صرف انہی دو نے اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر خندق عبور کر کے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی ۔
بے پناہ ذہانت ، بہادری اور فن حرب و ضرب میں کمال مہارت رکھنے کے باوجود مکی دور میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مشرکین مکہ کے رکیک اور گھٹیا منصوبوں اور حرکتوں سے ہمیشہ کنارہ کشی اختیار کیے رکھی ۔
آپ غزوہ بدر میں بھی مشرکین مکہ کے لشکر میں شامل نہیں تھے ۔
غزوہ احد میں شریک ہوئے تو تاریخ نے گواہی دی کہ مسلمانوں کو
کُچھ شہزادیاں محل نہیں مانگتیں
اُن کیلئے کندھا ہی کافی ہوتا ہے___,,,♥
*زندگی میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں*
ایک وہ جو مایُوسی میں بھی اُمید کی کرن ڈھونڈ لیتے ہیں۔
جبکہ دوسری قسم اُن لوگوں کی ہوتی ہےجن کو *روشنی میں بھی اندھیرا لگتا ہے*
اس لیے ہمیشہ اُن لوگوں کا انتخاب کریں *جو آپ کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لائیں*
نہ کے اُن لوگوں کو جو اُمید کی اُس کرن کوجو بھلے ٹمٹما رہی ہو، پھڑپھڑا رہی ہو اُسی کو بجھا دیں۔
حقیقی مرد کے لیے تنہا عورت۔
"موقع" نہیں "ذمہ داری " ہوتی ہے !
تو بجنے والا کوئی زیور نہ پہنا ہو ۔ کسی غیر محرم سے اگر ضروری بات کرنی پڑے تو بہت مختصر کریں، ہاں ناں کا جواب دے کر ختم کر ڈالیں ۔
گفتگو کے انداز میں نزاکت اور لہجہ میں جاذبیت کے طریقے پر بات نہ کریں ۔ جس طرح چال ڈھال اور رفتار کے انداز دل کھنچتے ہیں اسی طرح گفتار ( باتوں) کے نزاکت والے انداز کی طرف بھی کشش ہوتی ہے ۔
عورت کی آواز میں طبعی اور فطری طور پر نرمی اور لہجہ میں دل کشی ہوتی ہے ۔ پاک نفس عورتوں کی یہ شان ہے کہ غیر مردوں سے بات کرنے میں بتکلف ایسا لب و لہجہ اختیار کریں جس میں خشونیت اور روکھا پن ہو، جیسے کہ ” بے تکلف ایسا لہجہ بنائے کہ سننے والا یوں محسوس کرے کہ کوئی چڑیل بول رہی ہے۔ تا کہ کسی بدباطن کا قلبی میلان نہ ہونے پائے
جزاك اللهُ
مردوں کے ہجوم ( رش یا بھیڑ) میں داخل نہ ہو ۔ اگر اسے باہر جانا ہی پڑے تو پورے بدن پر برقعہ یا لمبی موٹی یا گہرے رنگ والی چادر لپیٹ کر چلے
( راستہ نظر آنے کے لیے ایک آنکھ کا کھلا رہنا کافی ہے ) یا برقعہ میں جو جالی آنکھوں کے سامنے استعمال کی جاتی ہے وہ لگا لیں یا برقعہ یا چادر اس طرح اوڑھ لیں کہ ماتھے تک بال وغیرہ ڈھک جائے اور نیچے سے چہرہ ناک تک چھپ جائے۔ صرف دونوں آنکھیں
( راستہ نظر آنے کے لیے ) کھلی رہیں ۔ آج کل جوان لڑکیاں برائے نام چادر اوڑھ لیتی ہیں اور چادر بھی باریک چکن کی ہوتی ہے اور تنگ بھی ، اس سے ہرگز شرعی پردہ نہیں ہوتا اور ان کا اس چادر کے ساتھ باہر نکلنا بے پردہ نکلنے کی طرح ہے، جو سراسر ناجائز اور حرام ہے .
قرآن کریم میں جس چادر کا ذکر ہے، اس سے ہرگز ایسی چادر مراد نہیں۔ عورتیں جب گھر سے کسی مجبوری کی وجہ سے نکلیں
وجمال اور لباس و پوشاک پر نظر ڈال ڈال کر لطف اندوز ہوں ۔ اس کے بعد فرمایا کہ عورت اس وقت سب سے زیادہ الله تعالیٰ کے قریب ہوتی ہے جب کہ وہ گھر کے اندر ہوتی ہے
جن عورتوں کو الله تعالیٰ کی نزدیکی کی طلب اور رغبت ہے وہ گھر کے اندر ہی رہنے کو پسند کرتی ہیں اور حتی الامکان گھر سے باہر نکلنے سے گریز کرتی ہیں۔
اسلام نے عورتوں کو ہدایت دی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو عورتیں اپنے گھر کے اندر ہی رہیں کسی مجبوری سے باہر نکلنے کی جو اجازت دی گئی ہے اس میں متعدد پابندیاں لگائی گئی ہیں مثلاً یہ کہ خوشبو لگا کر نہ نکلیں اور یہ بھی حکم فرمایا کہ عورت راستے کے درمیان نہ چلے بلکہ راستے کے کنارے پر چلے ،
مردوں کے ہجوم ( رش یا بھیڑ) میں داخل نہ ہو ۔ اگر اسے باہر جانا ہی پڑے تو پورے بدن پر برقعہ یا لمبی موٹی یا گہرے رنگ والی چادر لپیٹ کر چلے
( راستہ نظر آنے کے لیے
حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، عورت چھپا کر رکھنے کی چیز ہے اور بلاشبہہ جب وہ اپنے گھر سے باہر نکلتی ہے تو اسے شیطان دیکھنے لگتا ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ عورت اس وقت سب سے زیادہ الله تعالیٰ سے قریب ہوتی ہے جب کہ وہ اپنے گھر کے اندر ہوتی ہے ۔ ( الترغیب والترہیب للمنذری 626 از طبرانی)
تشریح: اس حدیث میں اول تو عورت کا مقام بتایا ہے یعنی یہ کہ وہ چھپا کر رکھنے کی چیز ہے۔ عورت کو بحیثیت عورت گھر کے اندر رہنا لازم ہے، جوعورت پردہ سے باہر پھرنے لگے وہ حدود نسوانیت سے باہر ہو گئی۔ اس کے بعد فرمایا کہ عورت جب گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھنا شروع کر دیتا ہے ۔
مطلب یہ ہے کہ جب عورت باہر نکلے گی تو شیطان کی یہ کوشش ہو گی کہ لوگ اس کے خدوخال اور
اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر یہ کہ مجبوری سے خود کھل جائے اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں اور اپنے حسن و جمال کو (کسی پر) ظاہر نہ ہونے دیں ( سوائے ان کے جو شرعاَ محروم ہیں) اور مسلمانوں ( تم سے جو ان احکام میں کوتاہی ہو تو ) تم سب الله تعالیٰ کے سامنے توبہ کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔“ ( سورہ نور،آیت نمبر31)
الله عزوجل سورہ احزاب آیت 33
تفسیر
” اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں عورتیں بے پردہ پھرتیں اور اپنے بدن اور لباس کی زیبائش کا اعلانیہ مظاہرہ کرتی تھیں۔ اس بد اخلاقی اور بےحیائی کی روش کو مقدس اسلام کب برداشت کر سکتا ہے؟
اسلام نے عورتوں کو حکم دیا کہ گھروں میں ٹھہریں اور زمانہ جاہلیت کی طرح باہر نکل کر اپنے حسن وجمال کی نمائش نہ کرتی پھریں۔“
عورت باہر نکلتے ہوئے کن باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہئے ؟؟؟؟
ایک ہلا دینے والی تحریر۔ پڑھ کر ایسا لگا ہے کہ کوئی عورت ایسی پتھر دل نہیں ہو سکتی جو یہ باتیں پڑھنے کے بعد بھی پردہ کی پابندی نہ کرے
سب سے بڑی چیز جو ایک مرد کو عورت کی طرف یا عورت کو مرد کی طرف مائل کرنے والی ہے وہ نظر ہے۔
قرآن پاک میں دونوں فریق کو حکم دیا ہے کہ اپنی نظریں پست رکھیں ۔
سورہ نور، رکوع نمبر چار میں اول مردوں کو حکم فرمایا: ” آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزگی کی بات ہے ۔ بے شک الله تعالیٰ اس سے خوب باخبر ہے، جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں۔“
اس کے بعد عورتوں کو خطاب فرمایا:”
اور مسلمان عورتوں سے فرما دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی
وہ جس کا نام ہی الخبیر ہے یعنی"خبر رکھنے والا"پھر وہ کیسے تمہاری سسکیوں سے بے خبر ہو سکتا ہے؟
وہ جس کا نام ہی الودود ہے یعنی"محبت کرنے والا" پھر وہ کیسے اس محبت کی جو تمہیں اس سے ہے لاج نہیں رکھے گا؟
وہ جس کا نام ہی الوکیل ہے یعنی "کام بنانے والا" پھر وہ کیسے تمہاری کہانی کو ادھورا رہنے دے سکتا ہے؟
وہ جس کا نام ہی المتین ہے یعنی "طاقت والا" پھر وہ تمہیں کیسے کمزور رہنے دے سکتا ہے؟❤
جن لوگوں نے اللہ کے سوا اور کارساز مقرر کر رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک گھر بنالیتی ہے حالانکہ تمام گھروں سے زیادہ بودا گھر مکڑی کاگھرہےکاش وہ جان لیتےسورۃ العنکبوت41
اگر کوئی چاہتا ھے کہ اسے رزق کے معاملہ میں آزمایا نہ جائے تو تین کام کرے:
اوّل: جو کچھ مل رہا ھے اسے محض مالک کی عطا سمجھے نہ کہ اپنی قابلیت کا نتیجہ اور ساتھ ہی مالک کا شکر بھی بجا لاتا رھے۔
دوئم: جن کو کم یا نپاتلا رزق مل رہا ھے انہیں حقیر نہ جانے نہ ان لوگوں سے حسدکرے جن کو "چھپر پھاڑ" رزق میسر ھے۔ یہ سب رزّاق کی اپنی تقسیم ھے۔ اس کے بھید وہی جانے۔
سوئم: جتنا ہو سکے اپنے رزق میں دوسروں کو شامل کرے۔ زیادہ ھے تو زیادہ، کم ھے تو کم شامل کرے۔ سب سے زیادہ حق، والدین اور رحم کے رشتوں کا ھے۔
کبھی موبائل نہیں چھنا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بہت چوکنّے اور ہوشیار ہیں،
بلکہ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اللّٰہ نے بدقماشوں، جیب کتروں اور رہزنوں کو آپ کے قریب نہیں پھٹکنے دیا تاکہ آپ ان کی ضرر رسانیوں سے بچے رہیں۔
یہ غالباً ہر انسان کی فطرت ھے کہ جب وہ خود دوسروں سے اچھا کما رہا ہو تو یہ سوچنا شروع کر دیتا ھے کہ وہ ضرور دوسروں سے زیادہ محنتی، چالاک اور منضبط (organised) ہے اور اپنے کام میں زیادہ ماہر ہے۔ پھر وہ ان لوگوں کو حقیر سمجھنا شروع کر دیتا ھے جن کو نپا تلا رزق مل رہا ہے، ان پر تنقید کرتا ھے،
ان کا مذاق اڑاتا ھے۔ مگر جب یکلخت وقت کا پہیہ الٹا گھومتا ھے تو اس کو پتہ چل جاتا ھے کہ حقیقت اس کے برعکس تھی جو وہ سمجھ بیٹھا تھا۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain