اور اب یہ بد عملی ؟ بازار میں ناپ تول میں کمی کرتے ہوئے اسے یہ احساس روکے گا کہ اسے ابھی اللہ کے حضور جانا ہے، دھوکہ دہی کرنے کے بعد کس منہ سے اللہ کی بارگاہ میں جائیں گا ؟ نماز سے بار بار اللہ کو یاد کرتے ہیں جس کی بناء پر انسان کا دل برائی کی طرف مائل نہیں ہوتا ، اس کا ذہن اور روح میں قائم روحانیت اسے کسی بھی اخلاقی گندگی میں ملوث ہونے نہیں دیتی ..... اللہ رَبَّ الْعَالَمِيْن کے حضورِ اسکی بارگاہِ میں بارہا یہ پیشی دراصل اسی احساسِ جوابدہی کو قائم رکھتی ہے نیز اسے اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ جس ہستی کے سامنے آج وہ جھک رہا ہے کل وہ ہستی اپنی رحمت اور جاہ و جلال کے ساتھ اس کے سامنے ہوگی، وقت کی پابندی اس لیے لازم ٹہرائی گئی ہے کہ وقتِ معین آتے ہی انسان کا ذہن ایک ذمہ داری کی طرف متوجہ ہوجائے اور اس جانب میلان پیدا ہو،
پنج وقتہ نماز دراصل اسی احساس و جذبے کو زندہ رکھنے کا موثر ذریعہ ہے ..... بندہ جب دن میں بارہا اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ وہ جو کچھ کررہا ہے یومِ آخر میں اس کا حساب ہوگا اور اس کے ہرعمل کا بدلہ یوم آخر میں اسے ملے گا تو درحقیقت یہ الفاظ اس کے ذہن کی پروگرامنگ کررہے ہوتے ہیں جس کی مدد سے انسان میں اللہ کی رحمانیت و ربوبیت (یعنی پرورش کرنے کی صفت)، یومِ جزا میں اس کی عدالت اور اہلِ انعام یعنی انبیاء ، صدیقین، شہداء اور صالحین کی راہ پر چلنے کے حوصلے کو تقویت حاصل ہوتی ہے . ذرا غور کیجیے کہ ایک شخص دن میں پانچ مرتبہ اسی احساس کے ساتھ بار بار نماز کے لیے حاضر ہوتا ہے، اب نماز سے قبل یا نماز کے بعد معاشرتی زندگی میں اگر وہ کسی کی حق تلفی کرنے کا ارادہ کرے تو اس کا ضمیر اسے بد عملی سے روک دے گا کہ ابھی تو اللہ کے حضور حاضری دے کر آئے ہو
تاہم یہ غور و فکر ہم ضرور کرسکتے ہیں کہ نماز کی اہمیت ہماری شخصیت کے اعتبار سے کیونکر اتنی زیادہ ہے ؟ ..... نماز کی حکمت کے اس پہلو کوسمجھنے سے قبل ضروری ہے کہ ہم انسانی زندگی کا کچھ پس منظر سمجھ لیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا ہے، اس عارضی زندگی میں اللہ کو ہم سے جو کچھ مطلوب ہے وہ اصلاً تزکیہ نفس ہے ، ہمارے شب و روز اسی عارضی زندگی کا ہی ایک حصہ ہیں جسے پاکیزہ رکھنے کی کوشش ہم نے ہی کرنی ہے۔اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب یہ بات سمجھیں کہ جس طرح ہمارے جسم کی نگہبانی اور پرورش کے لیے ہمیں کچھ مناسب وقت پرغذا کی ضرورت ہوتی ہے ایسے ہی روحانیت اور ہماری نفسانی پاکیزگی کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہمارے اندر اللہ تعالیٰ کے سامنے احساسِ جوابدہی اور اس کی اطاعت کا جذبہ بارہا تازہ ہوتا رہے۔
پیارے محترم عزیز بھائیوں اور پیاری بہنوں ! ایک سوال کہ ہم پانچ وقت نماز کیوں پڑھتے ہیں ؟ ..... اللہ رَبَّ الْعَالَمِيْن نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ O بے شک نماز فحاشی اورمنکرات سے روکتی ہے (سورة العنكبوت45) ..... نماز دینِ اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے اور ایک حدیثِ مبارکہ میں اسے کفر و ایمان کے مابین امتیاز قراردیا گیا ہے ، اسی وجہ سے ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر کوئی طبعی عذر واقع ہو تو نماز بیٹھ کرپڑھو اوراگر بیٹھ کر پڑھنے کی بھی طاقت نہ ہو تولیٹ کر اشارے سے نماز ادا کرو، اسے ترک کرنے کی اجازت بہرحال نہیں ہے۔ یہاں یقیناً ذہن ایک سوال کرتا ہے کہ نماز کی اہمیت آخرکیوں اس قدر شدت سے ہے ؟ .... یہ درست ہے کہ ایک امرِتعبدی کی حیثیت سے اس حکم کی علت متعین نہیں کی جاسکتی،
*8- روزہ رکھ رہے ہیں بھوک اور پیاس کی سختی کو برداشت کر رہے ہیں لیکن اس دوران بداخلاقی اور توہین بھی کر رہے ہیں۔۔ تو قابل غور ہے*
*9- دوسروں کے ساتھ نیکی کر رہے ہیں لیکن کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے نہ کہ رضاے الہی کے لئے۔۔ تو قابل غور ہے*
🛑 *خبردار*:🛑
*نیکیوں کو ضائع ھونے سے بچائیں آپ اتنی محنت کر رہے ہیں جبکہ وہ ساری کی ساری ضائع رہی ہیں اور نیکیوں کی باسکٹ خالی ھوتی جا رھی ھے
*#نیکیاں_ضائع_کیسے ہوتی ہیں*
*1- آپ حجاب کر رہی ہیں لیکن میک اپ کے ساتھ اور حجاب کی عبا بہت تنگ اور نا محرم مردوں کے بیچ خوشبو لگانا۔۔۔ تو یہ قابل غور ہے*
*2- آپ نے داڑھی کو چہرے پر سجایا ہوا ہے لیکن نظریں جھکی ہوئی نہیں ہیں۔۔ تو قابل غور ہے*
*3- تمام عبادات ٹائم پر انجام دے رہے ہیں لیکن ریاکاری کے ساتھ۔۔ تو قابل غور ہے*
*4- باہر دوستوں کے ساتھ بہت نرم لہجہ اور رویہ لیکن گھر میں ماں، باپ، بیوی اور بچوں کے ساتھ بداخلاقی۔۔ تو قابل غور ہے*
*5- مہمانوں کی بہت آو بھگت اور خدمت لیکن ان کے جانے کے بعد ان کی غیبت۔۔ تو قابل غور ہے*
*6- صدقہ بہت زیادہ نکالنا لیکن اس کے ساتھ ساتھ فقراء کو طعنے تنکے دینا۔۔ تو قابل غور ہے*
*7- تہجد اور قرآن کثرت سے پڑھنا لیکن رشتہ داروں سے قطع تعلق۔۔ تو قابل غور ہے*
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ۔ " ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯿﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﯾﮧ ﮔﻨﺎﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﻌﺎﻑ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ؟ " ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﺻﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺷﮑﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﮩﺮﯾﮟ ﺑﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ...
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﻧﻘﻄﮯ ﭘﺮ ﻏﻮﺭ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﯿﭩﺎ ﮨﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﭘﯿﻞ ﮐﺮتا ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺧﺪﺍﺭﺍ ﺍﯾﺴﯽ ﮔﻨﺪﯼ ﺳﻮﭺ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﯾﮟ ....
ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﺍﺻﻞ ﻗﺪﺭ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ....
😭😭😭😭
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﮐﻮ ﭘﺘﮭﺮ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﺭﯾﺖ ﭘﮭﯿﻨﮑﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﺭﻭﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﭼﯿﺨﺘﯽ ﺭﮨﯽ، ﺩﮨﺎﺋﯿﺎﮞ ﺩﯾﺘﯽ ﺭﮨﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺭﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮦ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﺩﯾﺎ۔
ﯾﮧ ﻭﮦ ﻧﻘﻄﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﺻﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﺿﺒﻂ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﮔﯿﺎ۔ ﺁﭖ ﺻﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﮨﭽﮑﯿﺎﮞ ﺑﻨﺪﮪ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﺳﮯ ﺗﺮ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﻭﺍﺯ ﺣﻠﻖ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﻻ ﺑﻦ ﮐﺮ ﭘﮭﻨﺴﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺩﮬﺎﮌﯾﮟ ﻣﺎﺭ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﻭ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﺻﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮨﭽﮑﯿﺎﮞ ﻟﮯ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﻧﮯ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺟﮭﺎﮌﮮ، ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﻤﯿﺾ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﻮﻧﭽﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﻤﯿﺾ ﺳﮯ ﺭﯾﺖ ﮔﮭﺎﮌﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔
ﻗﺒﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﭩﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯼ۔ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻨﮭﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﻭﮦ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﺘﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻗﮩﻘﮩﮧ ﻟﮕﺎﺗﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﺸﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﮨﯽ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﮭﻮﭨﮯ ﺧﺪﺍﺅﮞ ﺳﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﻟﻮ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﮔﻠﮯ ﺳﺎﻝ ﺑﯿﭩﺎ ﺩﮮ ﺩﻭ۔ ﻣﯿﮟ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﯽ ﺭﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﻓﻦ ﮨﻮﺗﯽ ﺭﮨﯽ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺗﻮﺗﻠﮯ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔ " ﺍﺑﺎ ﺁﭖ ﭘﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﻗﺮﺑﺎﻥ، ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ؟
۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﻇﺎﻟﻤﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺗﺎﻟﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻧﺮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺑﻌﺾ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺎﺿﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﻏﻠﻄﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﯾﮏ ﻧﮯ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺳﻨﺎﯾﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻟﮯ ﮐﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﭽﯽ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﭘﮑﮍ ﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﻟﻤﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺧﻮﺵ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﺳﺎﺭﺍ ﺭﺳﺘﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻮﺗﻠﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﯽ۔ ﻭﮦ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﺸﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﯽ، ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺭﺳﺘﮧ ﺍﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋﺸﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮩﻼﺗﺎ ﺭﮨﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﭘﮩﻨﭽﺎ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻗﺒﺮ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﯿﭽﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﯾﺖ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ۔ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻨﮭﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﭩﯽ ﮐﮭﻮﺩﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﺎﭖ ﺑﯿﭩﯽ ﺭﯾﺖ ﮐﮭﻮﺩﺗﮯ ﺭﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺩﻥ ﺻﺎﻑ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻦ ﺭﮐﮭﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺭﯾﺖ ﮐﮭﻮﺩﻧﮯ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ
﷽
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
بیٹی🌼
ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮒ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺑﭽﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﭩﮭﺎ ﮐﺮ ﻗﺒﺮ ﮐﮭﻮﺩﺗﮯ ﺗﮭﮯ
ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺑﭽﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮔﮍﯾﺎ ﺩﮮ ﮐﺮ، ﺍﺳﮯ ﻣﭩﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﭨﮑﮍﺍ ﺗﮭﻤﺎ ﮐﺮ، ﺍﺳﮯ ﻧﯿﻠﮯ ﭘﯿﻠﮯ ﺳﺮﺥ ﺭﻧﮓ ﮐﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﭩﮭﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔
.
ﺑﭽﯽ ﺍﺳﮯ ﮐﮭﯿﻞ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ، ﻭﮦ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﭙﮍﻭﮞ، ﻣﭩﮭﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﮔﮍﯾﺎﺅﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮭﯿﻠﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺱ ﮐﮭﯿﻠﺘﯽ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﻠﮑﮭﻼﺗﯽ ﺑﭽﯽ ﭘﺮ ﺭﯾﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺑﭽﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﺷﺮﻭﻉ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﯿﻞ ﮨﯽ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﺭﯾﺖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺩﯾﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻇﺎﻟﻢ ﻭﺍﻟﺪ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺭﻓﺘﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﻗﺒﯿﺢ ﻋﻤﻞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﻥ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺑﭽﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﺴﮑﯿﺎﮞ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺗﮏ ﺍﻥ ﮐﺎ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔
❌ *زمانہ کو گالی دینا* ❌
*اللہ کو تکلیف دینا ہے*
✍️ _قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ ، وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِي الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ._
*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ میں رات اور دن کو ادلتا بدلتا رہتا ہوں۔*
📖 «صحیح بخاری#4826»
﷽
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
جن کا تعلق ﷲ سے مضبوط ہوتا ہے انہیں توڑنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ بعض اوقات انہیں توڑنے والے خود ٹوٹ جاتے ہیں ۔ اس رب کی انگلی پکڑ کر چلو تاکہ وہ تمہارا ہاتھ تھامے بھلا جس کا ہاتھ رب نے تھام رکھا ہو اس انسان کو کوئی توڑ سکتا ہے۔ اس لئے ﷲ سے تعلق مضبوط بناؤ.❤
صبح بخیر
کسی بھی انسان کے لئے قطعاً یہ مناسب نہیں کہ وہ فارغ رہے،اسلئے کہ شیطان ایسے انسان پر برے خیالات کے ذریعے مسلط ہوتا ہے جو فارغ ہو۔ پس اسکے لئے ضروری ہے کہ وہ خود کو خیر کے کاموں میں مشغول رکھے تاکہ اس کا نفس اسے ضرر میں مبتلا نہ کرے۔
آخری بات
میں اپنی مسلمان بہن کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ نیک وکار عورتوں کی صحبت اور مجالس کو لازم پکڑے کیونکہ اس سے ایمان میں، علم میں اور بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے.۔
نہ اولاد پر
نہ شادی پر
نہ گھر پر
نہ مال پر
اور نہ ہی ان چیزوں سے زندگی رک سکتی ہے
نہ ہی والدین کے گزر جانے سے.
اور نہ ہی اولاد کے نہ ہونے سے زندگی رک سکتی ہے۔
الله جو کچھ واپس لیتا ہے اسکے بدلے اس سے بہتر چیزوں سے نوازتا ہے(نعم البدل عطاء کرتا ہے)۔
اور یہ دنیا مکمل طور کسی کو بھی نہیں ملتی ہے بلکہ یہ تو ایک آزمائش گاہ ہے۔
لہذا اپنے دلوں کو ایمان سے، الله کی رضا سے اور اسکے ساتھ حسنِ ظن سے معمور کریں، اور اپنے وقت کو طلبِ علم اور ان کاموں میں لگائیں جو آپکے لئے اور آپکے معاشرے کے لئے دنیوی اور اخروی اعتبار سے فائدہ مند ثابت ہوں۔
صبر کو اپنا توشہ اور قرآن کو اپنا ساتھی بنالیں۔۔۔ فرمان باری تعالیٰ ہے {مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى} ہم نے قرآن کو آپکے لئے بطورِ تکلیف نہیں اتارا. [طه:2]
﷽
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
پریشان حال بہنوں کے نام
مقبل بن هادی الوادعيؒ فرماتے ہیں کہ:
کیا آپ جانتی ہیں؟؟!
عائشہؓ کی کوئی اولاد نہیں تھی اس کے باوجود بھی کتب السنة النبوية میں ایسا کوئی اثر نہیں ملتا کہ عائشہؓ نے کبھی رسول اکرم ﷺ سے یہ کہا ہو کہ آپ میرے لئے اولاد کی دعا کریں!!
کیا آپ جانتی ہیں؟؟!
نبی کریم ﷺ کی وفات کے وقت ام المؤمنین عائشہؓ کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی، یعنی آپؓ نبی اکرمﷺ کے بعد 47 سال زندہ رہیں، رسول اکرمﷺ آپؓ سے بے انتہا، بے لوث محبت کرتے تھے، اور آپ انتہائی غیرت والی تھیں، ان سب کے باوجود آپؓ نے اپنی زندگی اسی رنج وغم میں یوں ہی نہیں گزاردی بلکہ خود کو علم وعبادت میں مشغول رکھا اور کبار صحابہ کرام کی معلمہ، مثقفہ اور مفتیہ بنی رہیں۔
زندگی کا انحصار صرف ان ہی چیزوں پر نہیں ہے؛
میرے رب! میری خطا، میری نادانی اور تمام معاملات میں میرے حدسے تجاوز کرنے میں میری مغفرت فرما اور وہ گناہ بھی جن کو تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے۔ اے اللہ ! میری مغفرت کر، میری خطاؤں میں ، میرے بالا رادہ اور بلا ارادہ کاموں میں اور میرے ہنسی مزاح کے کاموں میں اور یہ سب میری ہی طرف سے ہیں ۔ اے اللہ ! میری مغفرت کر ان کاموں میں جو میں کرچکاہوں اورانہیں جو کروں گا اور جنہیں میں نے چھپایا اور جنہیں میں نے ظاہر کیا ہے، تو سب سے پہلے ہے اور تو ہی سب سے بعد میں ہے اور تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے
🎥 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
○ "تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا”۔○
🎥 دوستو ہم سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے، لیکن سب سے بھاری ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والی، ہماری روایات کے منافی ہر ایپ پر فوری ایکشن لیا جائے۔
🎥🎥🎥🎥🎥🎥🎥🎥🎥🎥🎥🎥
۔
🎥 اس ایپ پر بین کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی۔ پنجاب اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی رکن سیمابیہ طاہر نے ایک قرارداد جمع کروائی ہے۔
🎥 وفاقی حکومت اپنی ذمہ داریوں سے واقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کا معیار بہتر کرنے کے لیے ارتغل جیسا تاریخ ساز ڈراما نشر کروایا۔ یہ ڈرامہ نہ صرف میڈیا انڈسٹری میں صحت مند مقابلے کی فضا پیدا کرے گا بلکہ اسلامی روایات کی تجدید کا باعث بھی بنے گا۔
🎥 لیکن ارتغل کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے ٹک ٹاک جیسی بے ہودہ ایپس کو بھی بے نتھے بیل کی طرح نہیں چھوڑنا چاہیے۔ پب جی پر بین بھی ایک قابلِ تحسین عمل تھا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ٹک ٹاک بین کرنے کے حوالے سے بھی قرارداد اور درخواستوں کے علاوہ کوئی عملی اقدام اٹھائے۔
علاوہ ازیں جنہیں محمد بن قاسم کے نقش قدم پر چلنا تھا، انہیں لڑکیوں کا روپ دھارے بے ہنگم ناچ گانا کرتے دیکھ کر شرم سے آنکھیں جھک جاتی ہیں۔یہ ایپ ہماری نئی نسل کے کچے ذہنوں کا استحصال کر کے ہماری ثقافت کے درپے ہے۔مزید براں صرف ویوز اور لائکس کے لئے دین کا مذاق بنانا بھی اس ایپ پر ایک ریت بن چکا ہے۔
🎥 اس ایپ کے صرف اخلاقی مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق ٹک ٹاک بنانے کے جنون نے 10 پاکستانیوں کی زندگیاں بھی نگل لیں۔ خدارا ابھی بھی وقت ہے۔ اس ایپ کے پنجے سے نجات حاصل کریں۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain