Damadam.pk
Gumnaam3210's posts | Damadam

Gumnaam3210's posts:

Gumnaam3210
 

یہ تھی تاریخ اسلام کی دو شخصیتیں خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیف اللہ (اللہ کی تلوار) کا خطاب عطا فرمایا تھا اور دوسرے عمرو بن عاص رضی اللہ انہوں نے فاتح مصر کا اعزاز حاصل کیا۔
دونوں نے کیسے روم کو فیصلہ کن شکست دے کر ان کی جنگی طاقت کو ریزہ ریزہ کردیا تھا ۔
روم کی جنگی طاقت دہشت کا دوسرا نام تھا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس ہیبت ناک طاقت کو کوئی شکست دے سکتا ہے۔
ہرقل جو طاقت کا دیوتا کہلاتا تھا اسلام کے ان تاریخ ساز سالاروں کے آگے آگے بھاگا پھر رہا تھا ۔
جنگ یرموک آخری معرکہ تھا جس میں ہرقل کو فیصلہ کن شکست ہوئی تھی۔
اب اسے کہیں پناہ نہیں مل رہی تھی پناہ ملی تو مصر میں ملیں لیکن عمرو بن عاص وہاں بھی جا پہنچے۔
ان دونوں عظیم سالاروں کی یہ فتوحات ایمان کی قوت جذبہ جہاد اور اس وجاہت کی الگ الگ

Gumnaam3210
 

تمہاری آواز جانی پہچانی سی لگتی ہے،،، آنے والے سوار نے کہا ۔
کچھ ایسا ہی میں نے بھی تمہاری آواز میں محسوس کیا ہے۔
اس سوار نے کہا آؤ ہم ایک دوسرے کو پہچان لے یہ کہہ کر اس نے اپنا چہرہ بے نقاب کر دیا ۔
خدا کی قسم ابن ولید!
دوسرے سوار نے اپنا چہرہ بے نقاب کردیا گھوڑے سے کود کر اترتے ہوئے کہا میں نے ٹھیک پہچانا تھا یہ آواز میرے یار خالد بن ولید کی ہے ۔
عمرو بن عاص !
خالد بن ولید نے گھوڑے سے اتر کر حیرت سے کہا کیا تو حبشہ نجاشی کے پاس نہیں چلا گیا تھا۔
دونوں بغلگیر ہوئے اور کچھ دیر ایک دوسرے کو بازوؤں میں جکڑے رکھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*

Gumnaam3210
 

جوں جوں سوار کا عکس واضح ہوتا آرہا تھا اس گھوڑسوار کی تلوار آہستہ آہستہ نیام سے باہر آتی جا رہی تھی ۔
اس نے گھوڑا روک لیا تھا ۔
وہ آنے والے سوار کو ایسا موقع نہیں دینا چاہتا تھا کہ وہ اس پر اچانک وار کر دے یا عقب سے حملہ کردے۔
ریت کے شفاف شعلوں میں سے آنے والا قریب آ گیا وہ گھوڑے پر سوار تھا۔
چہرے کو تپش سے بچانے کے لیے اس نے سر اور چہرے پر کپڑا لپیٹ رکھا تھا ۔
آنکھیں ذرا ذرا سی نظر آ رہی تھی ایسے ہی اس کے انتظار میں روکے کھڑے سوار نے بھی اپنا چہرہ چادر میں چھپا رکھا تھا ۔
اس سوار نے اس سوار کے سامنے آکر گھوڑا روک دیا اور کچھ دیر دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ۔
کیا ہمیں ایک دوسرے کے لیے اجنبی رہنا چاہیے؟ --- آنے والے سوار نے پوچھا---- اکیلے سفر پر کیوں نکلے ہو ؟---
اس سوار نے پوچھا ----کہاں سے آئے ہو ؟
کہاں جا رہے ہو ؟

Gumnaam3210
 

تھی جس طرح شیشے میں سے نظر آیا کرتی ہیں ،لیکن جھلمل جھلمل کرتی نظر آتی ہیں اس سوار کو بائیں طرف سے ہلکی ہلکی دھمک سنائی دینے لگی اس نے اس طرف دیکھا وہ سوار آ رہا تھا لیکن یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ شترسوار ہے یا گھوڑسوار کیونکہ وہ جھلملا رہا تھا دھمک سے شک ہوتا تھا کہ وہ گھوڑے پر سوار ہے ۔
اونٹ بے آواز پا چلا لا کرتا ہے۔
تاہم ابھی اتنا ہی کہا جا سکتا تھا کہ کوئی سوار آ رہا ہے ۔
اور وہ رک گیا اور اس کا ایک ہاتھ اپنی تلوار کے دستے پر چلا گیا آنے والا کوئی رہزن ہی ہوسکتا تھا ۔
اس کے پاس کوئی دولت نہیں تھی زر و جواہرات نہیں تھے کہ اسے لوٹ جانے کا خطرہ ہوتا ۔
البتہ اس کا گھوڑا ایسی دولت تھی جس سے وہ دستبردار نہیں ہو سکتا تھا اس کی منزل نہ جانے ابھی کتنی دور تھی۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=۔=÷=÷*

Gumnaam3210
 

کچھ وقت گزرا وہ ان ٹیکریوں کے اندر جا رہا تھا۔
ان میں سے گزرنے کے راستے صاف نظر آ رہے تھے۔
لیکن وہ ان میں آکر وہ راہرو بھٹک جاتے ہیں جو صحرا کے بھید نہیں جانتے اور ٹیکریوں کے اندر ہی اندر چلتے چلتے تھک کر شیل ہو جاتے ہیں وہ فاصلے تو بہت سا طے کر لیتے ہیں لیکن پہنچتے کہیں بھی نہیں۔
یہ سوار صحرا کا بھیدی معلوم ہوتا تھا اسے جدھر سے بھی راستہ ملتا تھا بے خوف وخطر گزرتا جاتا تھا پھر ٹکریاں ختم ہونے لگی اور بار بار دائیں بائیں مڑنے اور بھٹک جانے کا خطرہ ختم ہوگیا تھا ۔
کچھ آگے جاکر ریت اور مٹی کی یہ چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ایک دوسرے سے اور زیادہ دور دور ہوگی وہ آخری ٹیکری سے گھوم کر آگے گیا تو اس کے سامنے ریت کا سمندر افق تک چلا گیا تھا اور سورج سر پر آ گیا تھا۔
ریت جل رہی تھی اور اس سے اٹھنے والے شعلے آگ جیسے نہیں بلکہ شیشے اور چشمے کے پانی

Gumnaam3210
 

تھا اسے شاید معلوم تھا کہ قریب ہی چھوٹا سا ایک نخلستان ہے وہ بڑے اطمینان سے چلا جا رہا تھا جیسے اسے اپنے آپ پر پورا پورا اعتماد ہو نخلستان تک پہنچ گیا اس نے گھوڑے کو روکنا چاہا لیکن گھوڑے نے لگام کا اشارہ نظرانداز کردیا اور پانی پر جا کر رکا۔
گھوڑا دن بھر کا پیاسا تھا
بے تابی سے پانی پینے لگا سوار گھوڑے سے اترا اور وہ تھیلے کو کھولا جس میں کھانے پینے کا سامان تھا۔
*<=÷=÷=÷=÷=÷۔=>*
صبح ابھی گہری دھندولی تھی جب وہ پھر گھوڑے پر سوار ہو چکا تھا صحرا کی رات کی خنکی نے اسے اور اس کے گھوڑے کو تروتازہ کر دیا تھا ۔
سورج اوپر آ گیا تھا جب وہ ٹیلوں ٹیکریوں کے علاقے سے نکل گیا تھا ۔
یہ علاقہ پیچھے ہی پیچھے ہٹتا جا رہا تھا کچھ دور آگے ٹھیکریاں تھی یہ بھی ریت اور مٹی کی تھیں ان پر کہیں کہیں خشک جھاڑیاں تھیں۔۔۔۔
کچھ وقت گزرا وہ ان

Gumnaam3210
 

کے چہرے پر اور اس کے انداز میں اتنا تاثرات کا نام و نشان نہ تھا جو گم کردہ راہ مسافر کے ہوا کرتے تھے سفر کی صعوبت کے آثار تو چہرے مہرے پر نمایاں تھے لیکن وہ مطمئن و مسرور تھا کبھی کوئی من پسند گیت گنگنانے لگتا اور کبھی گھوڑے سے یوں باتیں کرنے لگتا جیسے گھوڑا اس کی بات سمجھ رہا ہو۔
اس نے گھوڑے کو تھکنے نہیں دیا دو پڑاؤ کر چکا تھا اس کے ساتھ کھانے کا جو سامان تھا اور اس کا جو لباس تھا اس سے پتہ چلتا تھا کہ وہ تلاش روزگار میں مارا مارا پھرنے والا کوئی بددو نہیں اور وہ کوئی غریب سا عرب بھی نہیں اشیائے خورد و نوش اور لباس سے ہی نہیں چہرے کا جلال اور اس کا پروقار سراپا بتاتا تھا کہ اپنے قبیلے کا سرکردہ فرد ہے ۔
اس کے سفر کا ایک اور سورج غروب ہونے کو تھا وہ اس وقت ریت اور مٹی والے اونچے نیچے ٹیلوں کی بھول بھلیوں میں سے گزر رہا تھا

Gumnaam3210
 

اور نیل بہتا رہا*
*قسط نمبر 1*
مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ سے ہجرت کے بعد کا واقعہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ و سلامت تھے ۔
مکہ اور مدینہ کے درمیان پھیلے ہوئے، جلتے جھلستے ہوئے ریگزار میں ایک مسافر گھوڑے پر سوار مدینہ کی طرف جا رہا تھا وہ اکیلا تھا صرف گھوڑا ہی اسکا ہمسفر تھا جس پر وہ سوار تھا اس زمانے میں کوئی مسافر اکیلے سفر نہیں کیا کرتا تھا لوگ قافلوں کی صورت میں سفر کرتے تھے ۔
کچھ اس لئے کہ رہزنوں اور قزاقوں کا خطرہ ہر قدم پر موجود رہتا تھا اور زیادہ تر اس لئے کے قافلوں کے ساتھ کٹھن مسافت بھی سہل لگتی تھی ہر سہولت مل جاتی تھی بیماری کی صورت میں ہمسفر ہر طرح دیکھ بھال کرتے تھے ۔
پھر وہ مسافر اکیلا کیوں جا رہا تھا کہاں جا رہا تھا اس کے سوا کسی کو معلوم نہ تھا اور قافلے سے بچھڑا ہوا یا بھٹکا ہوا راہی لگتا تھا لیکن اس کے

Gumnaam3210
 

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مرنے والا کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جس کے لیے اللہ کے پاس ثواب ہو اور وہ دنیا کی طرف دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اس کی خاطر لوٹنا چاہتا ہو۔ سوائے شہید کے، اس لیے کہ وہ شہادت کا مقام و مرتبہ دیکھ چکا ہے، چنانچہ وہ چاہتا ہے کہ دنیا کی طرف لوٹ جائے اور دوبارہ شہید ہو ( کر آئے ) “۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Jam e Tirmazi#1643
Status: صحیح

Gumnaam3210
 


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
*کبھی شکوہ مت کریں*
🌸🌺🌸🌺🌸🌺
*💕جس کے پاس جو ہوتا ہے وہی تقسیم کرتا ہے اس لئے لوگوں کے رویوں کا کبھی شکوہ مت کریں،،*
*ضروری نہیں سب کی جھولیاں پیار، محبت، خلوص، اپنائیت، اور بے غرضی جیسے موتیوں سے بھری ہوئی ہوں،،*
*اس لئے جہاں جو ملے سمجھ لو کہ وہاں دینے والے کے پاس دینے کیلئے اپنے ظرف کے مطابق اس سے بہتر کچھ نہیں تھا*

Gumnaam3210
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ عِبَادٌ اَمۡثَالُکُمۡ فَادۡعُوۡہُمۡ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۹۴﴾
یقیناً جن لوگوں کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہو " وہ تمہارے ہی جیسے بندے ہیں " ، پس تم انہیں پکارو تو لازم ہے کہ وہ تمہاری دُعا قبول کریں ، اگر تم واقعی سچے ہو ۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
صبح بخیر

Gumnaam3210
 

کس قدر عجيب لوگ ہيں ہم
محبت ہم نبھا نہيں سکتے
نفرت ہم سہہ نہيں سکتے
احساس ہم ميں زندہ نہيں رہا
احترام ہم ميں باقی نہيں رہا
ميل جول سے ہم دور بھاگتے ہيں
حسد ہم ميں بھرا ہوا ہے
غلطی ہم نے تسليم نہيں کرنی
معذرت کرنا ہميں توہين لگتا ہے
عبادت کی ہم کو خبر نہيں ہے
حقيقت ہميں اچھی نہيں لگتی
موت ہميں ياد نہيں___!
اور پھر ہم کہتے ہيں کہ نہ جانے سکون کدھر کھو گيا ہمارا

Gumnaam3210
 

نامحرم مرد و عورت کا کسی بھی قسم کا دوستانہ تعلق حرام اور ناجائز ہے۔ شریعت نے صرف زنا سے ہی منع نہیں کیا بلکہ دواعی زنا سے بھی منع فرمایا ہے۔ اجنبی لڑکی اور لڑکے کا ایک دوسرے کو بھائی بہن سمجھنا بھی
بالکل فضول اور شیطانی خیال ہے۔ اللّٰه نے جسے بہن بھائ بنادیا ہے صرف وہی آپس میں بھائ بہن ہیں اور حلال رشتہ ہے باقی منہ بولے بہن بھائ کی شریعت میں کوئ گنجائش نہیں ہے، یہ حرام ہے۔

Gumnaam3210
 

آج کے لیے اتنا ھی اللہ رب العزت سے دعا ھے جو کچھ یہاں مینے آپ لوگوں تک پہنچایا اس پر ہم سب کو عمل اور غور فکر کرنے کی توفیق عنایت فرماۓ آمین
وسلام
گمنام مسافر
في أمان الله

Gumnaam3210
 

اپنے آپ میں جیتی امر ہوتی چلی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ وجود فنا ہوتا جاتا ہے پھر صلے کی تمنا کسے رہ جاتی ہے؟؟؟؟
وہ مڑ کر دیکھے نہ دیکھے ___یاد کرے نہ کرے محبت دے نہ دے____
ہماری شدتوں پہ کوئی فرق ہی نہیں پڑتا ___!!!!
جانتے ہو کب ایجاد ہوئے تھے قہقے
جب ضبط ٹوٹا تھا کسی دیوانے کا 💔

Gumnaam3210
 

از_قلم_گمنام مسافر
یہ جو لوگ پوچھتے ہیں۔۔۔رابطہ ٹوٹنے کے بعد محبت ختم ہوتی ہے یا نہیں؟؟؟ ۔۔تو میں انکو بتا دوں۔۔۔محبت رابطوں کی محتاج نہیں ہوا کرتی۔۔۔محبت کے لئے ایک پیارا دل ہونا چاہیے۔۔۔خلوص اور سچے جذبات ہونے چاہیے اور اللہ سے مضبوط تعلق ہونا چاہیے۔۔۔تاکہ آپ اللہ سے اس انسان کو ڈسکس کر سکیں ۔۔۔۔۔۔رابطہ توڑ دینے سے محبت کبھی بھی ختم نہیں ہوتی
بس خاموش ہو جاتی ہے اور جتنی خاموش ہوتی جاتی ہے اتنی ہی زور آور بھی ہوتی جاتی ہے ____اندر ہی اندر شد و مد سے بولتی ہے چنگھاڑتی ہے لہو روتی ہے____

Gumnaam3210
 

ایک لڑکی جب یہ کہتی ہے کہ اپنے ساس، سسر، نند یا دیور کا کوئی بھی کام کرنا مجھ پر فرض نہیں ہے اور الگ گھر کی ڈیمانڈ کرنا میرا حق ہے تو وہ بالکل ٹھیک کہتی ہے لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہی لڑکی اپنی بھابی سے کہتی ہے کہ بھابی میرا یا میرے والدین یعنی آپ کے ساس سسر کا کوئی بھی کام کرنا آپ پر فرض نہیں ہے اور الگ گھر کی ڈیمانڈ کرنا آپ کا حق ہے؟.
نہیں یقیناً کوئی بھی لڑکی اپنی بھابی سے یہ سب نہیں کہتی یعنی کہ اپنے لیے معیار الگ اور دوسروں کیلئے معیار الگ ہے.......
اپنا بھائی اگر الگ ہو جائے تو اس پر جہنمی ہونے یا والدین کا نافرمان ہونے یا زن مرید یا جورو کا غلام ہونے کا ٹیگ لگا دیتی ہیں..
تھوڑا نہیں بہت زیادہ سوچیے!

Gumnaam3210
 

آج ٹیکنالوجی کا دور ہے مگر پھر بھی کام مکمل نہیں ہوتے کیونکہ ڈرامے بھی دیکھنے ہیں، مووی بھی دیکھنی ہے، فیس بک بھی، انسٹا بھی،دمادم بھی' ٹیوٹر بھی، ٹک ٹوک بھی، یوٹیوب بھی، چیٹ بھی کرنی ہے اور گروپس کے چکر بھی لگانے ہیں یعنی کہ آج کام بھی کچھ نہیں ہیں اور مصروفیات بھی بہت زیادہ ہیں..
اس وجہ سے آج کل مسائل یوں ہیں کہ ہمارے بڑے ان سب چیزوں سے آزاد تھے جس کی وجہ سے برا لگتا ہے.
وہ چاہتے ہیں کہ بچے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کریں لیکن بچے چاہتے ہیں الگ رہیں تاکہ موبائل ہاتھ میں رہ سکے.
آج کل لڑکیاں بھی روک ٹوک پسند نہیں کرتیں اور والدین بھی سپیس دینے کو تیار نہیں ہیں جس کی وجہ سے ہر لڑکی چاہتی ہے کہ شادی کے بعد اس کا گھر الگ ہو.
اختلاف یہ نہیں ہے کہ لڑکی الگ گھر میں کیوں رہنا چاہتی ہے، اختلاف ہے تو اس بات سے ہے کہ معیار دوہرا کیوں ہے آخر؟؟؟؟ ؟؟

Gumnaam3210
 

اور انسان جس طرح کے ماحول میں رہتا ہے یہی سوچ اس میں پروان چڑھتی ہے.
آج کل معاملہ کچھ اور ہے اور اب دور اور وقت، لوگوں کی سوچ سب کچھ بدل چکے ہیں.
آج "personal life" اور " personal issues" بن چکے ہیں آج کی سوچ کے مطابق ہماری ذاتی زندگی میں کسی کا عمل دخل نہ ہو، کسی قسم کی روک ٹوک نہ ہو، کوئی پوچھنے والا نہ ہو.
آتے جاتے چھیڑ چھاڑ ہو، ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا جائے، اپنی مرضی کا لباس پہنا جائے، سونے اور جاگنے میں اپنی مرضی شامل ہو وغیرہ وغیرہ....
پہلے وقت میں سوشل میڈیا نہیں تھا اور ٹیکنالوجی بھی نہیں تھی ہر کام اپنے ہاتھ سے اپنی مدد آپ کے تحت کرنا ہوتا تھا لیکن فضولیات نہیں تھیں تو سارے کام ہو جاتے تھے.

Gumnaam3210
 

#سوال : آج کل ہر لڑکی شادی کے بعد الگ گھر میں رہنا چاہتی ہے. ایسا کیوں ہے؟
جواب : اس میں کچھ قصور بچوں کا اور کچھ والدین کا بھی ہے.
والدین بچوں کو سپیس نہیں دیتے اور سوچتے ہیں کہ بچے اس طرح زندگی گزاریں جیسے اپنے وقت پر انہوں نے گزاری تھی.
جیسے پرانے وقت میں ایسا ہوتا تھا کہ میاں بیوی بزرگوں کے سامنے ایک دوسرے سے بات تک نہیں کرتے تھے، ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتے تھے، باہر گھومنے پھرنے نہیں جانے تھے، والدین کی اجازت کے بغیر کسی رشتے دار کے گھر تک نہیں جاتے تھے، صبح صبح ہی اپنے کمرے سے باہر آنا ہوتا تھا اور رات کو ہی واپس اپنے اپنے کمروں میں جانا ہوتا تھا.
ایک دوسرے کی طرف دیکھنا، دیکھ کر ہنسنا یا ایک دوسرے سے سب کے سامنے بات کرنے کو برا تسلیم کیا جاتا تھا.
یہ وہ تمام مراحل ہیں جن سے پہلے لوگ یا ہمارے والدین گزرے ہیں