روحانی ترقی اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ ہے دنیا کے جھمیلوں میں پھنس کر کبھی یکسوئی کے ساتھ روحانی ترقی نہیں کی جاسکتی۔ انکے خیال میں روحانی ترقی کا کوئی ایسا راستہ نہیں جو دنیا کے اندر سے ہو کر جاتا ہو۔ لہٰذا درویش قسم کے لوگوں نے اسے نیکی سمجھ کر اختیار کیا ۔جبکہ اسلام نے ایسی روحانی ترقی اور رہبانیت کو ہی مردہ قرار دیا ۔کوئی مسلمان زندگی کی بنیادی اور اہم ذمہ داریوں یا عبادات کو پس ِ پشت ڈال کر ایسی روحانی ترقی کرتا ہے تو اسکی حثیت ھندو جوگیوں اور سادہوؤں سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی۔
♥️ "داڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک داڑھی سے بھرا ہوا تھا۔ اس میں مردانہ وجاہت، وقار اور احترام کو سمو دیا گیا ہے۔"
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ مام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دعائیں، اور تعوّذات (ایسی دعائیں جن کے ذریعے اللہ کی پناہ حاصل کی جائے) کی حیثیت اسلحہ کی طرح ہے، اور اسلحے کی کارکردگی اسلحہ چلانے والے پر منحصر ہوتی ہے، صرف اسلحے کی تیزی کارگر ثابت نہیں ہوتی، چنانچہ اسلحہ مکمل اور ہر قسم کے عیب سے پاک ہو، اور اسلحہ چلانے والے بازو میں قوت ہو، اور درمیان میں کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو تو دشمن پر ضرب کاری لگتی ہے، اور ان تینوں اشیاء میں سے کوئی ایک ناپید ہو تو نشانہ متأثر ہوتا ہے۔” ("الداء والدواء ” از ابن القیم، صفحہ: 35
۔ یہودیت کا سارا فلسفہ شرک اور رہبان پرستی ہے ۔ ہندو مت مجوسیت اور دیگر چھوٹے بڑے مذاہب شرک ہی کی بنیاد پر قائم ہیں ۔ توحید ہی نے اسلام کو تمام ادیان پر غالب کیا تھا لیکن یہ حقیقی اسلام آج خود مسلمانوں میں اجنبی ہو کر رہ گیا ہے ۔ رسول پرستی , آئمہ پرستی , قبر پرستی , پیر پرستی اور لاتعداد قسم کی پرستشوں نے خدا پرستی کی آواز کو دبا کر رکھ دیا ہے ۔ رسول خدا کے اوتار بن گئے , آئمہ کرام کو رسول کا مقام دے دیا گیا ہے ۔ پیروں اور درویشوں کی چھوکھٹیں کعبہ کا دروازہ بن گئی ہیں ۔ پرشکوہ مقبروں نے مسجدوں کا رعب ختم کر دیا ہے ۔ رسول اللہؐ امت کے لئے اسوۂ حسنہ بن کر آئے تھے انکی سنتیں بدعتوں کے انبار میں دب گئیں ۔ اسلام کا چہرہ مصفا عجمی افکار سے داغدار ہو گیا ۔ افسوس آج اسلام خود اپنی غربت پر رو رہا ہے
مومن کا سب سے بڑا سرمایہ توحید ہے۔ اسکی نجات کا سب سے بڑا سہارا توحید ہے۔ انسان کے نامہ اعمال میں توحید سے زیادہ وزنی اور کوئی چیز نہیں۔ اسلام کا پورا علم کلام اور شریعت کا سارا نظام توحید کے اردگرد گھومتا ہے۔ توحید ہی اول ہے یہی آخر ہے۔ اسی سے اسلامی زندگی کی ابتداء ہوتی ہے اور اسی پر خاتمہ بالخیر ہوتا ہے ۔ یہی جنت کی کنجی ہے , یہی دنیا کی سعادت, اسی پر شفاعت موقوف ہے , یہی تمام انبیاء کی دعوت کا نقطۂ آغاز ہے ۔ شرک سے بڑا کوئی گناہ نہیں۔ اللہ کے نزدیک یہ ناقابلِ معافی جرم ھے ۔ افسوس دنیا شرک کا بازار بن گئی ہے ۔ ہر طرف شرک کی فراوانی ھے ۔ توحید علمِ کلام کا ایک مسئلہ بن کر رہ گیا ہے۔ دنیا توحید کے نام پر شرک کر رہی ہے ۔ عیسائیت جسے دنیا کی سیاسی اقتصادی اور علمی قیادت حاصل ہے توحید کی بجائے تثلیث پر قائم ھے ۔
جب بھی انسان کو یہ شک ہو کہ آیا یہ عمل عبادت ہے یا نہیں؟ تو اصل یہی ہے کہ وہ عبادت نہیں ہے یہاں تک کہ اس عمل کے عبادت ہونے کے لئے قرآن و سنت سے کوئی دلیل ثابت ہوجائے۔ (مجموع فتاویٰ و رسائل شیخ ابن عثیمین 14/331) 4- اسی طرح کچھ لوگ اس جمعہ کو ""یتیم جمعہ"* کا نام دیتے ہیں جس کی کوئی اصل اور بنیاد شریعت میں موجود نہیں۔ *رمضان کے آخری جمعے کی باقی دنوں کے بالمقابل کوئی خاص فضیلت ثابت نہیں ہے۔* اسی طرح بیماری سے شفایابی کا بھی اس جمعہ سے کوئی تعلق نہیں جیسا کہ لوگ اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ دیکھئے: ( البدع الحولية ص 336) والله أعلم
یہ *بات صحیح نہیں* ہے اور *اس نام کی کوئی نماز شریعت میں ثابت نہیں* ہے بلکہ ساری نمازیں فائدے والی ہیں اور فرض نماز کا فائدہ سب سے بڑا ہے کیوں کی ہر فرض عبادت نفلی عبادت سے افضل ہوتی ہے۔ اس لیے انسان کو ایسے اذکار و اوراد اور نمازوں سے بچنا چاہیے جو لوگوں میں رائج ہیں اور ان کی کوئی حقیقت سنت سے ثابت نہیں۔ نیز واضح رہے کہ عبادات کے معاملے میں اصل ممانعت ہے۔ چنانچہ کسی کیلئے جائز اور درست نہیں کہ وہ اللہ تعالی کے لئے ایسی کوئی عبادت کرے جس کا اللہ تعالی نے نہ اپنی کتاب میں حکم دیا ہے اور نہ اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم نے اپنی حدیث میں فرمایا ہے۔
وہ لوگ اس دن کسی بڑی مسجد کا رخ کرتے ہیں اور ایک بڑی تعداد میں وہاں جمعہ کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حقیقت میں اس جمعہ کی کوئی خاص فضیلت ثابت نہیں ہے اور جو ایسا گمان اور عقیدہ رکھے وہ غلط ہے بلکہ ضروری ہے کہ جمعہ اور باجماعت نماز کا ہمیشہ اہتمام کیا جائے الا یہ کہ انسان کے پاس کوئی شرعی عذر ہو۔ 3- اسی طرح ایک اور نماز ہے جو ""صلاۃ الفائدہ"* کے نام سے لوگوں میں مشہور ہے۔ اس کی بھی کوئی حقیقت اور بنیاد شریعت میں موجود نہیں۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے اس نماز یعنی صلاۃ الفائدہ کے متعلق دریافت کیا گیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سو رکعت ہے اور ایک دوسرے قول کے مطابق چار رکعت ہے جو جو رمضان کے آخری جمعہ میں پڑھی جاتی ہے، کیا یہ بات صحیح ہے اور اس نماز کا کیا حکم ہے؟ تو شیخ رحمہ اللہ نے جواب دیا: یہ *بات صحیح نہیں* ہے
سب بدعت ہیں اور اللہ تعالیٰ کے یہاں ناقابل قبول ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے سوال نمبر 864 کا جواب ملاحظہ کیجئے۔ *دوسری بات اس نام سے بہت ساری بدعتیں اور اس کی من گھڑت فضیلتیں مختلف شکلوں میں پائی جاتی ہیں اور یہ بدعتیں مختلف ملکوں میں مختلف انداز اور طریقے سے انجام دی جاتی ہیں اس کی چند مثالیں درج ذیل سطور میں بیان کی جا رہی ہیں: 1- ایک نماز ہے جسے کچھ عوام اور بدعتی لوگ رمضان کے آخری جمعہ میں ادا کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کی اس نماز کے ادا کرنے سے *زندگی بھر کی چھوٹی ہوئی فرض نمازیں معاف ہوجاتی ہیں* جبکہ اس کی *کوئی بنیاد شریعت میں موجود نہیں* ہے۔ سوال نمبر (157541) کا جواب دیکھیے۔ 2- انڈیا کے بہت سارے مسلمان جمعۃ الوداع کو ایک اہم دینی مناسبت اور اجتماع کا دن تصور کرتے ہیں چنانچہ وہ لوگ اس دن کسی بڑی مسجد کا رخ کرتے ہیں اور
رمضان کے آخری جمعہ کی کوئی خصوصیت شریعت سے ثابت نہیں* ♾♾🌷🍃🌷♾♾ 👈سوال: کیا *جمعة الوداع بدعت* ہے؟ میں نے ایک بھائی کو ایک بیان میں ایسا کہتے ہوئے سنا ہے۔ کیا اس سلسلے میں کچھ خاص احادیث وارد نہیں ہیں؟ اور صحیح ثابت حدیث کیا ہے؟ 👈جواب پہلی بات: جمعۃ الوداع کی اصطلاح ایک نئی اصطلاح ہے۔ *شریعت کے اندر اس کا کوئی ذکر نہیں* ملتا۔ اس تعلق سے جو خاص نمازیں وغیرہ ادا کی جاتی ہیں وہ سب بدعت ہیں۔ قرآن و سنت، سلف صالحین کے آثار اور اہل علم کے اقوال کی روشنی میں جو بات ثابت ہے وہ ان فرائض کی پابندی ہے جنھیں اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر فرض کیا ہے جیسے فرض نمازیں اور روزے وغیرہ، اسی طرح ان نوافل کی پابندی جن کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسنون و مستحب قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی نئی عبادات لوگوں نے دین کے اندر ایجاد کی ہیں وہ سب