لحاظ سے مدد نہ کرسکتا ہو جیسے کسی فوت شدہ شخص کو مدد کے لیے پکارنا اس کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنا اسکو نافع وضار باور کرنا اور دور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے کی صلاحیت سے بہرہ ور تسلیم کرنا۔ اسکا نام ہے ما فوق الاسباب طریقے سے مدد طلب کرنا اور اسے اللہ کی صفات سے متصف ماننا اسی کا نام شرک ہے جو محبت اولیاء کے نام پر لوگوں میں عام ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔
قُلۡ اِنَّمَاۤ اَدۡعُوۡا رَبِّىۡ وَلَاۤ اُشۡرِكُ بِهٖۤ اَحَدًا ۞
ترجمہ:
آپ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف اپنے رب ہی کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ سورت الجن آیت#20
قُلۡ اِنِّىۡ لَاۤ اَمۡلِكُ لَـكُمۡ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا ۞
ترجمہ:
کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نقصان نفع کا اختیار نہیں۔ سورت الجن آیت#21
شرک کیا ہے؟
شرک سے بچیں اور اپنی آخرت سنواریں۔
بندوں سے مافوق الاسباب مدد مانگنا اس انداز سے کہ بھردو جھولی میری یا محمّد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہنا یہ شرک ہے ۔
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۞
ترجمہ:
(اللہ) "ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی مدد چاہتے ہیں" سورت الفاتحة آیت#5
ہم لوگ روز اقرار کرتے ہیں نماز میں کہ اللہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔
نیکی اور تقوی کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا کہا گیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ تعاون ممنوع ہے نہ شرک بلکہ مطلوب و محمود ہے۔ اسکا اصطلاحی شرک سے کیا تعلق ؟ شرک تو یہ ہے کہ ایسے شخص سے مدد طلب کی جائے جو ظاہری اسباب کے لحاظ سے
امام نووی رحمه الله اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
"اس حدیث میں نبی صلى الله عليه وسلم پر جھوٹ بولنے کی سنگینی بیان کی گئی ہے، اور جس شخص کو اپنے ظنِ غالب کے مطابق کوئی حدیث جھوٹی لگی لیکن بھی وہ آگے بیان کردے تو وہ بھی جھوٹا ہوگا، جھوٹا کیوں نہ ہو؟! وہ ایسی بات کہ رہا ہے جو آپ صلى الله عليه وسلم نے نہیں فرمائی" انتهى .
والله أعلم .
مزید پوسٹس کے لئے لائک کیجئے
: ضعیف احادیث و موضوع روایات
کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کے وہ کوئی بھی جھوٹی چیز کی نسبت نبي صلى الله عليه وسلم کی طرف کرے ، خاص طور پر جب یہ واضح ہو کہ وہ بات جھوٹی اور بے بنیاد ہے۔
آپ کی ذکر شدہ حدیث خود ساختہ اور موضوع ہے، اور نبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: "
مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ " رواه مسلم في " مقدمة صحيحه " (1/7) .
(جس شخص نے میری طرف منسوب کوئی حدیث بیان کی، اور وہ خدشہ بھی رکھتا تھا یہ جھوٹ ہے، تو بیان کرنے والا بھی دو جھوٹوں میں سے ایک ہے) مسلم نے اسے اپنی صحیح مسلم کے مقدمہ میں بیان کیا ہے۔
لیکن یہ روایت بھی بے بنیاد ہے، شیخ الالبانی " سلسلة الأحاديث الضعيفة " (419) میں فرماتے ہیں:
اس کی کوئی اصل نہیں، جیسا السيوطي نے کہا " تخريج أحاديث شرح العقائد " (ورقة 6 / وجه 2) ، اور علامہ القاری نے بھی " فرائد القلائد على أحاديث شرح العقائد " (25 /1) " انتهى .
اسی طرح أنس بن مالك رضي الله عنه کا قول ہے : "أن عذاب القبر يرفع عن الموتى في شهر رمضان"
لیکن یہ بھی ثابت نہیں ہے۔
الحافظ ابن رجب رحمه الله فرماتے ہیں :"ضعیف سند کے ساتھ روایت ہے" ، أنس بن مالك رضي الله عنه نے فرمایا : "ایسے شخص سے عذابِ قبر ہٹا لیا جاتا ہے جس کی موت رمضان کے مہینے میں ہو"
(أهوال القبور، ص۔ 60) .
"نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَبَلَّغَهَا ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ غَيْرِ فَقِيهٍ ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْه"
(آپؐ نے فرمایا؛ "اللہ اس کے چہرے کو روشن کرے جو ہماری بات سن کر آگے پہنچائے، کیونکہ بہت سے فقہ یاد رکھنے والے [لوگ] خود فقیہ نہیں ہوتے، اور بہت سے فقہ والے ایسے شخص تک پہنچا دیتے ہیں جو ان سے بھی زیادہ فقیہ ہے) یہ حدیث مشھور اور صحیح ہے۔ اس حدیث کو شیخ الالبانی صحيح سنن ابن ماجة میں صحيح قرار دیتے ہیں
مذکورہ روایت کے معنی سے قریب ترین روایت ہے:
"إن العالم والمتعلم إذا مرا بقرية فإن الله يرفع العذاب عن مقبرة تلك القرية أربعين يوما"
(اگر عالَم کے کسی گاؤں میں طالب علم ہوں تو اللہ تعالیٰ اس گاؤں کے قبرستان سے چالیس دن کےلیے عذاب کو ہٹا دیتا ہے)
نوجوان کا توبہ کرنا اور مشرق سے مغرب تک قبروں سے عذاب ہٹ جانا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سوال:
کیا یہ حدیث جس میں آپؐ نے فرمایا : "جب ایک جوان انسان توبہ کرتا ہے تو مشرق سے مغرب تک کے قبرستانوں میں سے چالیس دن تک عذاب ہٹا لیا جاتا ہے" پھر فرمایا؛ "اللہ اس کے چہرے کو روشن کرے جو حدیث سن کر آگے پہنچائے" (رواه بن ماجه) صحیح ہے؟
جواب: ہمارے علم کے مطابق مذکورہ کلام کا کوئی اصل نہیں، اور یہ نہ تو نبی صلى الله عليه وسلم سے" سنن ابن ماجة " میں اور نہ ہی حدیث کی دوسری کتب سے ثابت ہے۔ اور نہ ہی ہمارے علم میں کوئی ایسا ایک بھی عالم ہے جس نے یہ روایت ضعیف سند کے ساتھ ہی بیان کی ہو۔
البتہ ابن ماجة (230) میں روایت ہے:
﷽
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain