ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﻏﺸﯽ ﺟﻮ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ
ﺟﺎﻥ ﮐﻨﯽ ﮐﺎ ﻋﺎﻟﻢ ﺑﻼﺷﺒﮧ ﺑﮩﺖ ﺳﺨﺖ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﭼﮭﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﯾﻮﮞ ﻗﺒﺾ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﮑﮭﻦ ﺳﮯ ﺑﺎﻝ ﻧﮑﺎﻻ ﺟﺎﺋﮯ۔۔ﺍﺗﻨﯽ ﺍﺣﺘﯿﺎﻁ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﭼﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮑﺎ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﻣﻦ ﮐﻮﻥ ﮨﻮ ﮔﺎ؟
ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﭘﺮ ﻧﺰﻉ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮﺍ ﺟﺎﻥ ﮐﻨﯽ ﮐﺎ ﻋﻤﻞ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺍ
ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﭩﻮﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﺗﮭﺎ ۔ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﭼﮩﺮﮦ ﭘﻮﻧﭽﮭﺘﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ " ﻻ ﺍﻟٰﮧ ﺍﻝ ﺍﻟﻠﮧ " ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﻮﺍﮐﻮﺋﯽ ﻣﻌﺒﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﺨﺘﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ۔ ( ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ 2/640 )
﷽
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﺳﺨﺘﯿﺎﮞ :
ﺳﻮﺭﺓ ﻕ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﮯ
" ﺍﻭﺭ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﺑﮯ ﮨﻮﺷﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮐﮭﻮﻟﻨﮯ ﮐﻮ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ ( ﺍﮮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ) ﯾﮩﯽ ( ﻭﮦ ﺣﺎﻟﺖ ) ﮨﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺑﮭﺎﮔﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ "
ﺳﻮﺭﺓ ﻕ ﺁﯾﺖ ﻧﻤﺒﺮ ۱۹
******
ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻘﯿﺎﻣﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﮯ
" ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺟﺐ ﺟﺎﻥ ﮔﻠﮯ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮒ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮯ ( ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ) ﮐﻮﻥ ﺟﮭﺎﮌ ﭘﮭﻮﻧﮏ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ( ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ) ﻧﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﭘﻨﮉﻟﯽ ﺳﮯ ﭘﻨﮉﻟﯽ ﻟﭙﭧ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﺱ ﺩﻥ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﻠﻨﺎ ﮨﮯ۔ "
ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻘﯿﺎﻣﺔ ۔۔ ﺁﯾﺖ ﻧﻤﺒﺮ ۲۶ ۳۰ -
****
ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻧﺰﻉ ﮐﺎ ﻋﺎﻟﻢ ﺟﻮ
﷽
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
Kasy hen ap sub
آج سے صدیوں پہلے بہت سی چیزیں ایسی تھیں جو تب کے انسان کی سمجھ سے باہر تھیں کہ ان کے وجود کا مقصد کیا ہے، لیکن آج کا انسان ان کے ہونے کا راز پا گیا ہے کہ وہ کیوں ہیں،
پروردگار عالم فرماتا ہے :
جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں) اللّه کو یاد کرتے اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے (اور کہتے ہیں) کہ اے پروردگار! تو نے اس (مخلوق) کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا تو پاک ہے تو (قیامت کے دن) ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیو
آل عمران، 191 .
انسان کے تخلیق کار نے اپنے پیغام میں انسان کو بتایا ہے کہ وہ دنیا میں آیا ہے تو اسے کیا کرنا ہے :
لوگو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تا کہ تم (اس کے عذاب سے) بچو
البقرہ، 21
تخلیق انسان کا مقصد"
.
انسان اس دنیا میں اپنی مرضی سے آتا ہے نہ اس دنیا سے اپنی مرضی سے جاتا ہے،
یہ بات انسان کو ایک سوچ دیتی ہے کہ وہ یہاں کیوں ہے، اس کا اس دنیا میں ہونے کا مقصد کیا ہے، اور یہ بات اس کا ثبوت ہے کہ انسان اگر اس دنیا میں اپنی مرضی سے نہیں آیا تو ضرور اس کو کوئی بھیجنے والا ہے، اور یہ بات بھی سمجھ آ جاتی ہے کہ جو مجھے اس دنیا میں بھیجنے والا ہے وہی مجھ سے پہلے اور بعد کے لوگوں کو بھی بھیجنے والا ہے
ہم اپنے اردگرد کائنات پر غور کریں تو ہم یہ بات سمجھتے ہیں کہ کوئی چیز بھی بے فائدہ نہیں بنائی گئی، اگرچہ کسی چیز کے ہونے کا مقصد اگر انسان ابھی نہ جان پایا ہو لیکن اس پر یہ حکم نہیں لگایا جا سکتا کہ یہ چیز بے مقصد ہے،
﷽
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
مگر طوطا مینا صرف اس لئے پالے جاتے ہیں کہ وہ ہماری سی بولی بولتے ہیں اگرچہ بغیر سمجھے سہی۔ مینا طوطی تمہاری بولی بولیں تو تمہیں پیاری لگے ،
اگر ہم جناب محمّد مصطفٰی صلى الله عليه وسلم کی بولی بولیں یعنی قرآن پڑھیں تو اللّه کو ہم کتنے زیادہ پسند آئیں گے
اس سے وہ لوگ عبرت پکڑیں جو کہتے ہیں کہ بغیر معنی سمجھے قرآن بیکار ہے اس کا کوئی ثواب نہیں؟عجیب سی بات ہے۔ آخر میں اللّه تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن مجید کی تلاوت کی فضیلت کو سمجھنے اور اس کی تلاوت کو معمول بنانے کی توفیق عطا فرمائے( آمین
﷽
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
تلاوت قرآن کا اجر احادیث کی روشنی میں:
حضور علیہ الصلوة والسلام فرماتے ہیں کہ جو شخص قرآن پاک کا ایک حرف پڑھے اس کو دس نیکیوں کے برابر نیکی ملتی ہے ۔ خیال رہے کہ الم ایک حرف نہیں بلکہ الف، لام، میم تین حروف ہیں۔ لہٰذا فقط اتنا پڑھنے سے تیس نیکیاں ملیں گے ۔ خیال رہے کہ الم متشابہات میں سے ہے جس کے معنی ہم تو کیا جبریل بھی نہیں جانتے۔ مگر اس کے پڑھنے پر ثواب ہے ۔ معلوم ہوا کہ تلاوت قرآن کا ثواب اس کے سمجھنے پر موقوف نہیں بغیر سمجھے تلاوت پر ثواب ہے
ولایتی مرکب دوائیں مریض کو شفا دیتی ہیں۔ ان کے اجزاء معلوم ہوں یا نہ ہوں۔ یوں ہی قرآن کریم شفا اور ثواب ہے معلوم ہوں یا نہ ہوں۔ دیکھو بھینس دودھ کے لئے ، بیل کھیتی باری کے لئے ، گھوڑے ، اونٹ سواری اور بوجھ اٹھانے کے لئے پالے جاتے ہیں
اس دن سب کو احساس ھو گا کے قرآن کریم کو زمین سے اٹھا لیا گیا ہے، کتابوں اور سینوں سے نکال دیا گیا یے۔
😥😥😥😥😥
اس سے پہلے کے یہ دن آ جائے، ہمیں اپنی اور اپنی اولادوں کی زندگیوں کو قرآن کریم سے منور کرنا ھو گا۔
الله رب العالمین ہمیں قرآن کریم سے جوڑ دے۔ آمین
نبی پاک صلى الله عليه وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے
قرب قیامت قرآن اللّه کے پاس چلا جائے گا
اللّه قرآن سے کہیں گے قرآن تم اوپر آ گئے ھو
قرآن جواب دیتے ھوے کہے گا یا اللّه لوگ قرآن تو پڑھتے تھے لیکن پڑھ کے عمل نہیں کرتے تھے
لوگ حافظ قرآن ھوں گے صبح کو سو کے اٹھے گے تو کہیں گے رات کو ہمیں کچھ یاد تھا جو ہم بھول گئے ہیں
جب قرآن زمین سے اٹھا لیا جائے گا تو لوگ یاد کرے گے لیکن یاد نہیں کر سکیں گے
یہ منظر ایک دن سچ ھو گا۔ لوگ قرآن کھولیں گے اور اوراق خالی پائیں گے۔ سارے لفظ اٹھا لیے جائیں گے۔
دوسرا قرآن مجید لیکر آئیں گے۔ ۔ ۔
تیسرا ، چوتھا سب کو خالی پائیں گے۔ جو یاد ھو گا لوگ وہ قرآن دہرائیں گے لیکن افسوس وہ سینوں سے بھی اٹھا لیا گیا جا چکا ھو گا۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں۔اور عنقریب وہ دوزخ میں جائیں گے ۔
(سوره النساء :10)
امام قرطبی ؒ کہتے ہیں کہ یہ بات حضور ﷺ سے مرفوعاً روایت کی گئی کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:"دنیوی عورتیں حوروں سے ستر ہزار گنا افضل ہوں گی۔
( تذکرہ القرطبی:ج2ص774)
کتاب: جنت کی حوریں)
( تاریخ اسلام کے واقعات )
ان کے جسم حیران کر دینے والے ہوں گے۔، گورے رنگ والی ہوں گی،سبز لباس والی ہوں گی،پیلے زیورات والی ہوں گی(خوشبو کی) انگیٹھیاں موتی کی طرح ہوں گی اور ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی، یہ کہہ رہی ہوں گی:
ترجمہ:ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں ،کبھی مریں گی نہیں۔اور ہم ناز نخرے والیاں ہیں، کبھی بدحالی کا شکار نہ ہوں گی۔اور ہم ٹھہرنے والی ہیں کبھی کسی جگہ کوچ کر کے نہ جائیں گی۔اور ہم راضی رہنے والی ہیں ،کبھی ناراض نہ ہوں گی۔ سعادت ہے اس شخص کے لئے جس کے لئے ہم ہیں اور وہ ہمارے لئے ہے۔
حضرت حبان بن ابی حبلہ ؒ کہتے ہیں کہ دنیا کی عورتیں جب جنت میں داخل ہوں گی تو ان کو دنیا میں نیک اعمال کی وجہ سے حوروں پر فضیلت عطا فرمائی جائے گی(درجہ میں بھی اور حسن میں بھی)۔
دنیوی عورتوں کو حوروں پر فضیلت۔
۔==============
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ دنیا کی عورتیں افضل ہیں یا حورعین۔
تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ:
حورعین سے دنیا کی عورتیں اس طرح افضل ہیں جس طرح ظاہر کا ریشم استر سے افضل ہوتا ہے،
فرماتی ہیں کہ میں نے حضورﷺ سے وجہ پوچھی
تو آپ ﷺ نے فرمایا:ان کی نمازوں، روزوں اور ان کا اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے چہروں کو نور اور جسموں کو ریشم کا لباس پہنائے گا۔۔
﷽
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
افسوس! اتنی خرابیوں کا مجموعہ ہونے کے باوجود ہر سال یکم (فرسٹ،First) اپریل کو جھوٹ بول کر، اپنے مسلمان بھائیوں کو پریشان کرکے ان کی ہنسی اُڑانے کو تفریح کا نام دیاجاتا ہے، اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ عقلِ سلیم عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم
بولیں:فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے :بندہ کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا حتی کہ مذاق میں جھوٹ بولنا اور جھگڑنا چھوڑ دے اگرچہ سچا ہو۔
مسند احمد،ج3، ص290، حدیث: 8774
اپریل فُول میں دوسروں کی پریشانی پر خوشی کا اظہار بھی ہوتا ہے،ایسوں کو ڈرنا چاہئے کہ وہ بھی اس کیفیت کا شکار ہو سکتے ہیں،عربی مقولہ ہے : مَنْ ضَحِکَ ضُحِکَ یعنی جو کسی پر ہنسے گا اُس پر بھی ہنسا جائے گا۔
غلط خبر نے جان لے لی:رِینالہ خُورْد (پنجاب، پاکستان) کے 70 سالہ رِہائشی شخص کو خبر ملی کہ اس کے بھائی کا اوکاڑہ میں ایکسیڈنٹ کے نتیجہ میں انتقال ہو گیا ہے، وہ اوکاڑہ اسپتال آرہا تھا کہ روڈ پر گر پڑا اور دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، بعد میں پتا چلا کہ کسی منچلے نے اپریل فُول کا مذاق کیا تھا۔
اردو پوائنٹ، یکم اپریل 2008م
کسی سے کرنی جس سے اس کو تکلیف پہنچے مثلاً کسی کو بے وقوف بنانا، اس کے چَپت لگانا وغیرہ حرام ہے۔
مراٰۃ المناجیح،ج5، ص270
اپریل فُول اور جُھوٹ
اپریل فُول کو ”جُھوٹ کا عالَمی دن“ بھی کہا جا سکتا ہے اور جھوٹ بولنا گناہ ہے۔ چنانچہ حدیثِ مبارکہ میں ہے
:اِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ وَاِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي اِلَى النَّارِ وَاِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتّٰى يُكْتَبَ عِنْدَاللہِ كَذَّابًا
یعنی بے شک جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اورگناہ جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے۔
=موسوعہ ابن ابی الدنیا، ذم الکذب،ج5، ص205،رقم:2
مذاق میں بھی جُھوٹ نہ بولیں:فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے :بندہ کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا حتی کہ
رسی تھی یا اس جانے والے کے پاس تھی اس نے یہ رسی سانپ کی طرح اس پر ڈالی وہ سونے والے اسے سانپ سمجھ کر ڈر گئے اور لوگ ہنس پڑے) تو سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ دوسرے مسلمان کو ڈرائے۔
=ابو داؤد ،ج4، ص391، حدیث: 5004=
حَکِیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:
جب رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ سُنا تو یہ فرمایا، اس فرمانِ عالی کا مقصد یہ ہے کہ ہَنسی مَذاق میں کسی کو ڈرانا جائز نہیں کہ کبھی اس سے ڈرنے والا مرجاتا ہے یا بیمار پڑ جاتا ہے، خوش طَبْعی وہ چاہیے جس سے سب کا دل خوش ہو جائے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسی دل لگی ہنسی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain