یاد رہے کہ 22 رجب کے کونڈوں کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں
(✍️بدعت ما فیا(
نیکیاں چاہے احد پہاڑ جتنی ہوں
دل میں شرک موجود ہے تو اعمال قبول ہی نہیں ہونگے۔
{{ولو اشرکوا لحبط عنھم ما کانوا یعملون}}
اولاد دینے والے اولیاء ، ہر جگہ حاضر و ناظر تمہارے اولیاء معمولی سا کرونا وائرس کنٹرول نہیں کر پا رہے،
{{وَ مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖۤ}}
یہ اللہ تعالی کے راستے میں صدقہ ہے میں اللہ تعالی سے اس کے اجر ثواب کی امید رکھتا ہوں ، توآّپ اسے جہاں چاہتے ہیں خرچ کردیں ۔
انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : رہنے دو یہ مال دوبہت زیادہ منافع بخش ہے بہت منافع بخش ہے جوکچھ تم کہہ رہے ہومیں نے سن لیا ہے ، میری راۓ یہ ہے کہ تم ایسا کرو اسے اپنے اقرباء میں تقسیم کردو توابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے میں ایسا ہی کرتا ہوں ، توابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ نے اسے اپنے اقرباء اورچچا زاد بھائیوں میں تقسیم کردیا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1392 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 998 ) ۔
انس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ انصار میں کھجوروں کے اعتبارسے سب سے زیادہ مالدار تھے اوران کواس میں سے سب سے زيادہ محبوب بئرحاء تھا جو کہ کہ مسجد کے آگے واقع تھا جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوتے اور پاکیزہ پانی نوش فرماتے ۔
انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئ :
{ جب تک تم اپنی پسندیدہ چيزسے اللہ تعالی کے راہ میں خرچ نہیں کرو گے ہرگزبھلائ نہیں پاسکتے } آل عمران ( 92 )
ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکرکہنے لگے اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ : { جب تک تم اپنی پسندیدہ چيزسے اللہ تعالی کے راہ میں خرچ نہیں کرو گے ہرگزبھلائ نہیں پاسکتے } تومیرا سب سے محبوب اورپسندیدہ مال بئر حاء ہے ،
بالکل نا کاٹا جائے چاہے شوہر اسکا حکم بھی دے پھر بھی جائز نہیں*
*اور جو لوگ النمص سے عورت کے پورے چہرے کے بال مراد لیتے ہیں انکا قول درست نہیں بلکہ علماء کرام کی صحیح رائے کے مطابق النمص سے مراد صرف ابرو کے بال ہیں اور عورت کے لیے ابرو اور سر کے بال ہی فطری ہیں،انکو چھوڑ کر مونچھوں کے یا داڑھی کے یا ہاتھوں یا پنڈلیوں رانوں وغیرہ کے بال اکھیڑ سکتی ہے،صاف کر سکتی ہے مونڈ سکتی ہے کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ سب غیر فطری بال ہیں اور انکو مونڈنے سے شریعت نے بالکل منع نہیں کیا*
( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )
(طالبِ دعا گمنام)
اوپر ذکر کردہ تمام احادیث ،محدثین کرام کی وضاحت اور فتاویٰ جات سے یہ بات سمجھ آئی کہ احادیث میں "النمص" کے لفظ سے مراد ابرو کے بال ہیں ،اور ابرو کے بال اکھیڑنا یا باریک کاٹنا یا مونڈنا بالکل جائز نہیں ہاں اگر کسی کے ابرو اتنے زیادہ گھنے ہوں کہ آنکھوں کے آگے آ جائیں یا خوفناک لگیں تو ایسی صورت میں ان بالوں کو صرف اتنی مقدار میں درست کرنے کے لیے کاٹا جا سکتا ہے جس سے عیب دور ہو جائے اور خوبصورتی کے لیے بالکل نا کاٹا جائے چاہے شوہر اسکا حکم بھی دے پھر بھی جائز نہیں*
*اور جو لوگ النمص سے عورت کے پورے چہرے کے بال مراد لیتے ہیں انکا قول درست نہیں بلکہ علماء کرام کی صحیح رائے کے مطابق النمص سے مراد صرف ابرو کے بال ہیں اور
" سر اور ابرو كے بال كے علاوہ باقى بال اتارنے جائز ہيں، ابرو اور سر كے بال اتارنے جائز نہيں، اور نہ ہى وہ ابرو كا كوئى بال كاٹ سكتى ہے، اور نہ ہى مونڈ سكتى ہے، اور باقى جسم كے بال يا تو وہ خود اتارے، يا پھر اس كا خاوند، يا كوئى اس كا محرم وہاں سے جس حصہ كو وہ ديكھ سكتا ہے، يا كوئى عورت اس حصہ سے جہاں اس كو ديكھنا جائز ہے "
الشيخ عبد العزيز بن باز
الشيخ عبد الرزاق عفيفى
الشيخ عبد اللہ بن غديان
الشيخ عبد اللہ بن قعود
(ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 194 )
واضح رہے کہ زيرناف بال اور رانوں كے بالوں كو نہ تو كوئى دوسرى عورت ديكھ سكتى ہے، اور نہ ہى كوئى محرم مرد ہى ديكھ سكتا ہے، سوائے عورت کے شوہر کے،
*خلاصہ سلسلہ*
كے بال، اور اسى طرح جو دونوں ابرؤوں كے درميان ہوں "
(ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 195 )
📚مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:عورت كے ليے چہرے كے بال اتارنے كا حكم كيا ہے ؟كميٹى كا جواب تھا:
مونچھوں اور رانوں، اور پنڈليوں اور بازؤوں كے بال اتارنے ميں عورت پر كوئى حرج نہيں، اور نہ اس نہى ميں داخل نہيں ہوتے جو بال اكھيڑنے كے متعلق آئى ہے.
الشيخ عبد العزيز بن باز
الشيخ عبد الرزاق عفيقى
الشيخ عبد اللہ بن غديان
الشيخ عبد اللہ بن قعود
ديكھيں: ( فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 194 - 195 )
📚اور مستقل فتوى كميٹى سے يہ سوال بھى كيا گيا:عورت كے ليے اپنے جسم كے بال اتارنے كا حكم كيا ہے، اگر جائز ہے تو پھر يہ بال كون اتار سكتا ہے ؟كميٹى كا جواب تھا:
📚 مستقل فتوى كميٹى سے دريافت كيا گيا:
اسلام ميں ابرو كے درميان بال نوچنے كا حكم كيا ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
انہيں نوچنا جائز ہے؛ كيونكہ يہ ابرو ميں شامل نہيں ہيں "
ديكھيں: فتاوى اللجنۃالدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 197 )
📚فتاوى جات ميں يہ بھى درج ہے كہ:
النمص ابرو كے بال اكھيڑنے كو كہتے ہيں، اور يہ جائز نہيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بال اكھيڑنے اور اور اكھڑوانے والى دونوں عورتوں پر لعنت فرمائى ہے.
عورت كے ليے بعض اوقات جو داڑھى يا مونچھوں كے بال آ جاتے ہيں وہ اتارنے جائز ہے، يا پھر پنڈليوں يا ہاتھوں كے بال.
حاصل يہ ہوا كہ:
ابرو كے بال اتارنے حرام ہيں، چاہے كاٹ كر اتارے جائيں، يا پھر مونڈ كر يا اكھيڑ كر، اور اس كے علاوہ بال اتارنے مباح ہيں، مثلا ہاتھوں، اور پنڈليوں كے بال، اور
كچھ علماء كہتے ہيں كہ: انہيں اتارنا جائز نہيں؛ كيونكہ انہيں اتارنے ميں اللہ تعالى كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى ہے
اور كچھ علماء كا كہنا ہے:
يہ بال ان ميں شامل ہے جس پر شريعت ساكت ہے، اور اس كا حكم اباحت والا حكم ہے، اور وہ انہيں باقى رہنے يا اتارنے كا جواز ہے؛ كيونكہ جس سے كتاب و سنت خاموش ہو وہ کام معاف كردہ ہے
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام نے يہى قول اختيار كيا ہے، اور اسى طرح شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نےبھى يہى قول اختيار كيا ہے.
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ3 / 879 )
📚مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:
عورت كے ليے اپنى مونچھوں، رانوں، اور پنڈليوں، اور بازؤوں كے بال اتارنے ميں كوئى حرج نہيں، اور يہ ممنوعہ لفظ
" تنمص" ميں سے نہيں ہے "
(ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 194 - 195
جواب کا متن الحمد للہ:
اول:بال اتارنے كے اعتبار سے علماء نے بالوں كو تين قسموں ميں تقيسم كيا ہے:
پہلى قسم:وہ بال جن كے اتارنے اور كاٹنے كا حكم ديا گيا ہے.اور وہ يہ بال ہيں جنہيں فطرتى سنت كہا جاتا ہے، مثلا زير ناف بال، اور مونچھوں كے بال، اور بغلوں كے بال، اور اس ميں حج اور عمرہ كے موقع پر سر كے بال چھوٹے كرانا اور سر منڈانا بھى داخل ہوتا ہے.دوسرى قسم:وہ بال جن كو اتارنے كى حرمت آئى ہے.اس ميں ابرو كے بال اتارنے شامل ہيں، اور اس فعل كو النمص كا نام ديا جاتا ہے، اور اسى طرح داڑھى كے بال
تيسرى قسم:وہ بال جن سے شريعت خاموش ہے، ان كے متعلق نہ تو اتارنے كا حكم ہے، اور نہ ہى انہيں باقى ركھنے كا وجوب، مثلا پنڈليوں اور ہاتھوں كے بال، اور رخساروں اور پيشانى پر اگنے والے بال
تو ان بالوں كے متعلق علماء كرام كا اختلاف ہے:
كچھ علماء كہتے
اس قول کو مفید کہا جائے گا کہ وہ عورت اپنے خاوند سے اجازت لے کہ میں اپنی داڑھی یا مونچھیں یا بچہ داڑھی زائل کرلوں یا اسے اس کا علم ہونا چاہئے ورنہ خاوند کو دھوکا رہتا ہے۔
[فتح الباري 462/10]
📚 شیخ محمد بن الصالح العیثمین لکھتے ہیں : ”ایسے بال جو جسم کے ان حصوں میں اگ آئیں جہاں عادتا بال نہیں اگتے مثلا عورت کی مونچھیں اگ آئیں یا رخساروں پر آجائیں تو ایسے بالوں کو اتارنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ خلاف عادت اور چہرے کے لئے بدنمائی کا باعث ہیں۔“
(فتاوى المراۃ المسلمۃ_ 2 / 536 - 537)
📚 سعودی مفتی شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ
سوال_
مجھے علم ہے كہ ابرو كے بال اتارنے، اور چہرے كے بال نوچنے حرام ہيں، ليكن مجھے علم ہے كہ ہونٹوں كے اوپر والے بال اتارنے ممكن ہيں، ليكن جو بال سر اور ابرو كے درميان ہوں ان كا حكم كيا ہے ؟
یا مونچھیں اُگ آئی ہوں، یا جسکی پنڈلیوں وغیرہ پر بال ہو جائیں تو وہ انہیں صاف کر سکتی ہے، یا کسی میڈیسن کے استعمال سے ختم کرسکتی ہے تاکہ وہ اپنی اصلی ساخت کی طرف ہوجائے اور اس کا یہ عمل تغیر لخلق اللہ میں شمار نہیں ہوگا۔
📚امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اگر عورت كو داڑھى يا مونچھيں آ جائيں تو اسے اتارنا حرام نہيں، بلكہ ہمارے نزديک وہ مستحب ہے "
ديكھيں: شرح مسلم نووى ( 14 / 106 )
📚 صحیح بخاری کی شرح لکھنے والے
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام نووی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ
(حدیث میں جو عورت کے چہرے سے بال نوچنے کی ممانعت ہے) داڑھی، مونچھیں یا بچہ داڑھی ( ہونٹ کے نیچے والے بال) اس ممانعت سے مستثنیٰ ہیں، عورت کا انہیں زائل کرنا حرام نہیں بلکہ مستحب ہے“
پھر حافظ ابن حجر نے کہا :
”اس قول کو مفید کہا جائے گا کہ وہ عورت ا
تو یہ عمل جائز ہوگا۔ جیسے اگر کسی کی داڑھی نہ ہو تو وہ ایسی میڈیسن استعمال کرے کہ اس کی داڑھی آجائے تو یہ جائز ہوگا۔
اسی طرح عورت کے چہرے کو اللہ نے داڑھی سے صاف رکھا ہے اور اس کی اصل ساخت یہی ہے یہاں اس کی ابرو کے بال اصل ساخت کے ہیں۔ اسی لئے آپ ﷺنے اس کے نوچنے سے منع فرما دیاچونکہ یہ کام تغییر لخلق اللہ ہے، اس لیے اس کی ممانعت ہے۔
اسی طرح مرد کی مونچھیں ہوتی ہیں، ہاتھوں پر بال ہوتے ہیں، سینے اور پنڈلیوں وغیرہ پر بھی بال ہوتے ہیں
لیکن عورت کے عام روٹین میں ان جگہوں پر بال نہیں ہوتے،
لیکن بعض دفعہ خلاف فطرت جس طرح مرد کے چہرے پر داڑھی کے بال نہیں اگتے اسی طرح خلاف فطرت بعض عورتوں کی مونچھیں اگ جاتی ہیں، داڑھی کے بال، پنڈلیوں،ہاتھوں پر بال آ جاتے ہیں،
تو اوپر ذکر کردہ ساخت والے اصول کے مطابق اگر کوئی عورت کہ جس کے چہرے پر داڑھی یا
اور عورت چونکہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ الگ الگ صنف ہیں اور ہر ایک مخصوص ساخت رکھتا ہے۔خالق کی مرضی یہی ہے کہ جس طرح اس نے ان دونوں کو ان کی شکل پر پیدا کیا ہے۔ اس میں تبدیلی نہ لائی جائے۔
📚 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لعن الله المشتبهين من الرجال بالنساء و المشتبهات من النساء بالرجال
”اللہ لعنت کرے ان مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں اور اللہ لعنت کرے ان عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں۔“
(صحيح بخاري : 5885)
اللہ نے مردوں کے چہرے پر داڑھی کو سجایا ہے اور یہ مرد کی ہیئت میں ایک علامت ہے اور یہی وجہ ہے کہ مرد کی ساخت میں چہرے کے بال یعنی داڑھی اصل ساخت کی نشانی ہے ہاں اگر کسی کے داڑھی آئی ہی نہیں تو وہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طے کی ہوئی ساخت کے مطابق اسے بنانے کی کوشش کی جائے تو
نیز ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ:
"ابرو کو ہلکا کرنا صرف اسی وقت جائز ہے جب معمول سے ہٹ کر بہت ہی زیادہ گھنے ہوں، اگرچہ بہتر یہی ہے کہ انہیں بھی ہلکا مت کریں، انہیں جیسے ہیں ویسے ہی رہنے دیں، نیز انہیں ہلکا کرنے کیلئے تراشیں یا مونڈیں، نوچنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ نوچنا حرام ہے" انتہی
(فتاوى نور على الدرب)
*عورت کے لیے چہرے یا جسم پر غیر فطری بالوں کو صاف کرنے کا حکم*
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین صورت میں تخلیق کیا ہے
📚 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ولقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم
(سورہ التین :4)
’’تحقیق ہم نے انسان کو احسن انداز میں پیدا فرمایا۔‘‘
مرد و عورت کو شریعت نے جہاں زندگی کے دوسرے معاملات میں اوامر و نواہی کا خیال رکھنے کا کہا ہے وہاں ان کو اپنے وجود میں تصرف کی حدود کا تعین بھی کردیاہے۔
اگر آپ دن میں 10 پوسٹس کریں وہ بھی بے فائدہ۔
تو اس سے بہتر ہے آپ 2 پوسٹ کریں ایک قرآن کی آیت ایک نبیﷺ کی حدیث،
اس سے آپ کو بھی آپ کی فرینڈ لسٹ کو بھی فائدہ ہوگا ساتھ میں آپ کو ڈھیر ساری نیکیاں بھی ملیں گی
🙂
صرف بیٹی کے لئیے ہی کیوں ؟؟
۔۔۔۔۔الله تعالی ہر بیٹے کے بھی نصیب اچھے کرے۔۔۔
نبیﷺ کی زوجہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
نبیﷺ علم غیب نہیں جانتے تھے
لیکن آج کا مسلمان کہتا ہے نبیﷺ عالم الغیب تھے!
کس کی بات مانیں گے آپ؟ ام المومنین کی یا مولوی کی؟
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain